کرونا کی مہاماری اور اہل علم کی ذمہ داری

کرونا کی مہاماری اور اہل علم کی ذمہ داریا

Table of Contents

کرونا کی مہاماری اور اہل علم کی ذمہ داریا

ازقلم: ابوصالح مصباحی

کرونا کی مہاماری  اور اہل علم کی ذمہ داری
کرونا کی مہاماری اور اہل علم کی ذمہ داری

ایک وقت ہوگا جب ہم پیوند خاک ہو چکے ہوں گے،۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر خموشاں کی اداسی ہماری قبروں پر نغمۂ لا صوتی گنگنا رہی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، بگڑے ہوئے حالات کو سنبھالا مل چکا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، لوگ کرونا وائرس کی زبوں حالی سے بحال ہو چکے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر کوئی چائے کی چسکیاں لیتا ہوا مطالعے کی میز پر ہماری زندگی کے ناکام باب پر مشتمل کتاب کی ورق گردانی کر رہا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے ہماری اس کتاب زیست کے صفحات پر ہمارا یہ طرب ناک فسانہ بھی ملے گا جس کے عناصر کچھ یوں ہوں گے :-

پہلا عنصر : ملک میں کرونا کی مہاماری تھی ، کاروبار، بزنس اور دھندہ پانی سب بند تھا، لوگوں کے کھانے پینے کے لالے پڑے تھے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت کا خوف انہیں کھائے جارہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، سمسان اور قبرستان میں لاشوں کی قطاریں لگی تھیں وغیرہ ۔

دوسرا عنصر :اس وبا کی وجہ مختلف بتائی جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔کوئی حکومت کی لاپروہی کی راگ الاپ رہا تھا تو کوئی 5g ٹیسٹنگ کو اس کا کارن بتا رہا تھا ۔۔۔۔۔اس طرح کوئی کچھ تو کوئی کچھ کہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا عنصر : مگر مسلم قوم کو مع اپنے قائدین کے یقین تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے مرضئ مولی کے مطابق ہورہا ہے ، لوگ جانتے تھے کہ ہماری نا کردنیوں ، بد اعمالیوں اور برائیوں کا دائرہ اس حد کو پار کرچکا ہے جس کے بعد عذاب الہی کا نزول یقینی ہوجاتا ہے، بلا شبہ یہ سب ہمارے کرتوتوں کاہی صلہ ہے ۔

چوتھا عنصر : اتنا یقین ہونے کے باوجود مسلم قوم کی اکثریت بے حسی کا شکار تھی ۔۔۔۔۔۔۔پر خطر حالات کے رستے ہوئے زخموں کے ساتھ بھی یہ لوگ اپنے کریم رب ﴿ عز وجل ﴾ سے منھ موڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔وقت کا تقاضہ تھا کہ یہ لوگ روٹھے ہوئے رب کو منانے میں لگ جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔نزول عذاب الہی کا سبب بنے اعمال سے تائب ہوجاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔بارگاہ یزداں میں سجدہ ریزی کا حق ادا کرتے ۔۔۔۔۔خشوع و خضوع سے لبریز نمازوں کا اہتمام کرتے ۔۔۔مگر کچھ نہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ممکن ہے کوئی ان کا ذہن ساز نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے رب کے حضور آنے کا مزاج دینے والے نہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچواں عنصر : کرونا کال میں مدارس بند تھے ، مساجد پر پابندیاں عائد تھیں ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہل علم کا ایک بڑا طبقہ اپنے منصبی فریضہ سے آزاد تھا ۔۔۔۔۔۔قوم مسلم کے دانشوروں کا ایک جتھا بے روزگاری سے ضرور جھوجھ رہا تھا مگر ان کے پاس وقت کی فراوانی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔عبادت کے لئے لوگوں کی ذہن سازی کا بڑا حسین موقع ان کے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے حسی کے شکار عوام میں وقت کی نزاکت کا احساس جگانے کا خوب صورت موسم ان حضرات کے پاس تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر قوم کے ان قائدوں نے بھی حالات کا رونا رویا ،۔۔۔۔۔۔ قوم کی زکوۃ کی مدد سے علم کی بے بہا دولت حاصل کر نے والے ان کج کلاہان زمانہ نے بھی خود کو حالات کے ٹھپیڑوں کے حوالے کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔

کرونا کال اور فرصت کی ان گھڑیوں میں ان علما کا بس اتنا کام تھا کہ وہ بے حس لوگوں میں نماز کا احساس بیدار کرتے ۔۔۔۔اللہ تعالی کے یہاں اپنے گناہوں پر نادم ہونے کا ذہن لوگوں میں بناتے ۔۔۔۔بوقت ضروت علما ٹیم کی شکل میں لوگوں کے یہا ں جاتے ان کا بوجھ ہلکا کرتے انہیں بہر صورت مسجد میں آنے کے لیے تیار کرتے ۔۔۔۔۔۔۔
مگر ہائے! افسوس صد افسوس یہ سب کچھ نہ ہوا ۔

افسانہ ختم ہوتے ہی ہماری داستان پر مشتمل کتابچہ کو پڑھنے والے کی کیفیت کیا ہوگی ؟ ہمارے تئیں اس کے خیالات مثبت ہوں گے یا منفی ؟ ضرور آگاہ کریں !

از قلم: ابوصالح مصباحی اتر دیناج پور ویسٹ بنگال

شیئر کیجیے

Leave a comment