کہانی عبداللہ کی

Table of Contents

کہانی عبداللہ کی

 مسرور احمد قادری

 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
ألَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کو سکون ملتا ہے
………………………………
عبداللہ کی زندگی نہایت خوشگوار تھی دولت، شہرت، عزت، گاڑی، بنگلہ سب کچھ اس کے پاس موجود تھا معاشرے میں لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ہر صبح جب وہ جوگنگ کرنے نکلتا تو راستے میں ملنے والا ہر شخص خواہ اپنا ہو یا غیر سلام کیا کرتے تھے
وہ عبداللہ صرف گھر والوں کے لئے تھا سماج کے سارے لوگ تو اسے "سیٹھ عبداللہ” کے نام سے جانتے تھے عبداللہ کی عزت و تکریم سماج میں اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ وہ دولت کے معاملے میں دوسروں سے بڑا تھا بلکہ لوگ اس کی عزت و تکریم اس وجہ سے بھی ہوتی تھی کہ وہ مصیبت کے وقت لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا عبداللہ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتا اسی لئے لوگ بھی اس سے خوش تھے
بس عبداللہ کے اندر ایک خرابی تھی وہ نماز سے دل چراتا اور اللہ تعالی کی یاد سے، اس کے ذکر سے اپنے قلب و ذہن کو غافل رکھتا تھا
یہی وجہ ہے کہ مال و دولت کی طاقت سے اس نے دنیا کی ہر آسائش حاصل کر لی تھی اپنی تمام تر خواہشات کو پورا کرلیا تھا لیکن سکونِ قلب نہ حاصل کر سکا وہ ظاہری زندگی تو بہت ہی خوشگوار گزار رہا تھا مگر باطن میں اس کا وجود تاریکیوں کے سمندر میں ڈوب چکا تھا وہ اکثر تنہائی میں اداس رہتا، بے چینی اسے رات میں سونے نہ دی تھی اور دل میں ایک عجیب سی اضطرابی کیفیت رہتی جو عبداللہ کو دن بدن نڈھال کر رہی تھی….
آج کی رات تو عبد اللہ کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھی وہ بار بار سونے کی کوشش کرتا مگر نیند آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی عبد اللہ جیسے ہی آنکھیں بند کرتا دل کی بے چینی اور گھبراہٹ سے آنکھ کھل جاتی عبد اللہ ابھی اسی گھبراہٹ و بے چینی کے عالم میں تھا کہ ادھر مؤذن نے اذان کی صدائیں بلند کی رات کی تاریکی غائب اور صبح کی سفیدی کب نمودار ہوئی پتا ہی نہ چلا……
صبح عبد اللہ کا چہرہ اداس نظر آ رہا تھا رات میں نہ سونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ اور بدن نڈھال ہو چکا تھا۔۔۔
خیر عبد اللہ نہا دھو کر بغیر ناشتہ کئے دفتر کے لئے روانہ ہو گیا گھر سے دفتر کے لئے جلدی نکلا تھا اس لئے ٹرافک نہ ہونے کی وجہ سے عبد اللہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی آفس پہونچ گیا دھیرے دھیرے سارے ملازمین بھی آ گئے اور سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئے
تھوڑی دیر کے بعد غفران چائے لے کر جو کہ عبد اللہ کا سپر وائزر تھا اور باہر کے سارے کام یہی حل کرتا تھا آفس میں داخل ہوا
"سیٹھ آج آپ وقت سے پہلے آفس آ گئے سب خیریت تو ہے نا” غفران نے حیرت سے سوال کیا
ہاں۔۔۔۔ غفران سب ٹھیک ہے بس آج دل نے پہلے آفس چلنے کی ضد کی تو چلا آیا عبد اللہ نے اداس بھری آواز میں جواب دیا
غفران نے ٹیبل پر چائے رکھی اور باہر جانے لگا….
سنو عبد اللہ نے غفران کو آواز دی
جی سیٹھ بتائیں غفران نے کہا
وہ آج بارہ بجے خالد بھائی آئیں گے انہیں آفس میں لیتے آنا (یہ خالد عبد اللہ کا بہت ہی پرانا اور قریبی دوست ہے ایک ہفتے ہوئے ہیں اسے دہلی سے کام کے سلسلے میں ممبئی آئے ہوئے) ادھر خالد اپنے دوست سے ملاقات کے لئے گھر سے نکل چکا تھا مقررہ وقت پر خالد عبد اللہ کے آفس پہونچ گیا چونکہ غفران اور خالد کی ملاقات پہلے بھی ہو چکی تھی اس لیے غفران پہلی ہی نظر میں خالد کو پہچان گیا۔۔۔
گھر سے یہاں تک سفر کیسا رہا؟ غفران نے خالد سے ملاقات کرتے ہو پوچھا
الحمدللہ غفران بھائی راستے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی خالد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
اچھا یہ بتاؤ میرا پیارا دوست کیسا ہے؟ بڑے دنوں بعد آج عبد اللہ سے ملاقات ہو رہی تھی اس لیے خالد نے غفران سے سوال کیا
خالد بھائی آپ چل کر خود ہی دیکھ لیں آپ کے دوست آپ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ میرے بھائی میرے یار میری جان! خالد نے آفس میں پہونچتے ہی بڑے پر تپاک لہجے میں سلام کیا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ خالد بھائی تشریف رکھیں میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا! چونکہ عبد اللہ اداس تھا اس لیے اس نے سادگی سے جواب دیا۔۔۔۔۔
کیا ہوا عبد اللہ بھائی آج آپ کچھ زیادہ ہی اداس لگ رہے ہیں سب ٹھیک تو ہے نا کاروبار کیسا چل رہا ہے کہیں کچھ۔۔۔۔۔
اتنا کہہ کر خالد خاموش ہو گیا۔۔۔۔
نہیں خالد بھائی ایسا کچھ بھی نہیں ہے سب ٹھیک ہے کاروبار بھی ٹھیک چل رہا ہے
بس۔۔۔۔۔۔۔ عبد اللہ نے لمبی سانس لی اور خاموش ہو گیا
ادھر غفران چائے لے آیا دونوں چائے پینے لگے
دیکھو عبد اللہ اگر تم خاموشی کو ترجیح دو گے تو اس سے مسلئے کا حل نہیں نکلنے والا بلکہ مسلئہ بڑھتا ہی جائے گا اس لئے جو بھی دل میں ہو مجھ سے بتاؤ آخر میں تمہارے بچپن کا دوست ہوں خالد نے سنجیدگی سے اپنی بات عبد اللہ سے کہی
یار خالد! پتا نہیں کیوں دل میں اک عجیب سی بے چینی رہتی ہے، رات کو پر سکون نیند سونے کے لئے ترس جاتا ہوں، میری طبیعت اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے عبد اللہ نے اداس لہجے میں خالد سے اپنی پریشانی بیان کی
بس! اتنی سی بات، یہ پریشانی تو ایک ہفتے میں دور ہو جائے گی عبد اللہ بھائی آپ پریشان نہ ہوں خالد نے مسکراتے ہوئے پر سکون انداز میں جواب دیا
ایک ہفتے میں عبد اللہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں ایک ہفتے میں عبد اللہ بھائی بس آپ کو میری باتوں پر عمل کرنا ہوگا
بھئ میں تمہاری ساری باتیں مانو گا بس میری پریشانی دفع ہو جائے، حقیقی خوشی اور سکون قلب حاصل ہو جائے عبد اللہ نے خالد سے کہا
دیکھو عبد اللہ بھائی، آپ کی تمام عادتیں اچھی ہیں آپ غریبوں کی مدد کرتے ہیں لوگوں کی پریشانیوں کو حل کرتے ہیں یہ سب کام مستحسن ہیں اور آپ لائق مبارکباد بھی ہیں لیکن جس مالک حقیقی نے آپ کو پیدا کیا آپ کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا آپ اسی کے ذکر سے غافل ہیں اس کی عبادت سے دل چراتے ہیں تو بتاؤ کیسے آپ کو سکون قلب حاصل ہو سکتا ہے؟ آپ کس طرح ذہنی دباؤ سے نکل سکتے ہیں؟ خالد نے بڑے سنجیدگی سے کہا، عبد اللہ بھی خالد کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا
دیکھو عبد اللہ بھائی ہمارے اور تمہارے رب نے قرآن مجید میں کیا اعلان فرمایا "الا بذکر اللہ تطمئن القلوب”
ترجمہ: ,سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے،
جب بندہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اس کے رحمت و فضل اور اس کے احسان و کرم کو یاد کرتا ہے تو اس بندے کے بے قرار و بے چین دل کو قرار و اطمینان اور فرحت و شادمانی حاصل ہوتی ہے
خالد کی یہ ساری باتیں عبد اللہ کے دل پر تیر کی طرح لگ رہی تھیں اس کے چہرے پر ندامت صاف نظر آ رہی تھی اسے یہ احساس ہو رہا تھا کہ مال و دولت سے دنیا کی ہر چیز حاصل کی جا سکتی ہے لیکن دل کا سکون اور چین و راحت نہیں حاصل کیا جا سکتا۔۔۔۔۔
ہاں! خالد بھائی رب تعالیٰ نے سچ کہ بس اس کی یاد ہی سے ہر غمگین دل کو سکون حاصل ہو سکتا اللہ تعالیٰ کی کتنی نوازشیں ہیں مجھ پر کہ اس نے مجھے دنیا کہ ہر آسائش سے مالا مال کیا عزت و شہرت بخشی لیکن میں بد نصیب اس کی یاد سے غافل ہو کر چین و سکون تلاش کر رہا تھا، اتنا کہتے ہوئے عبد اللہ کی آنکھوں سے ندامت کے دو آنسوں ٹپک پڑے
ارے یہ کیا عبد اللہ بھائی! آپ روئیں نہیں آپ کو اس بات کا احساس ہو گیا یہی کافی ہے بس آپ آج ہی سے نماز قائم کر دیں اپنے فارغ اوقات کو تلاوتِ قرآن میں صرف کریں رات میں اللہ کے حضور کھڑے ہوں اُس سے رو رو کر دعائیں مانگیں پھر دیکھنا آپ کو کتنا سکون حاصل ہوگا آپ کی ساری پریشانیاں انشاءاللہ زائل ہو جائیں گی خالد نے عبد اللہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
باتیں کرتے کرتے ظہر کا وقت ہو چکا تھا مؤذن نے مسجد سے ندا دی "حی علی الصلوٰۃ” آؤ نماز کی جانب "حی علی الفلاح” آؤ کامیابی کی طرف
عبد اللہ نے جب یہ صدائیں دل کے دریچوں سے سنی تو مچل گیا دونوں دوست ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد کی جانب چل پڑے
پتا ہے عبد اللہ بھائی مسجد کی جانب تمہارے اٹھنے والے ایک ایک قدم کے بدلے فرشتے نیکیاں لکھ رہے ہوں گے تمہارا اٹھنے والا ایک ایک قدم گناہوں کو مٹانے اور درجات کی بلندی کا سبب ہے خالد نے عبد اللہ سے مسجد کی جانب چلنے والے کی فضیلت بیان کی
آج پہلی بار عبد اللہ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں آیا تھا جہاں پر نہ کسی کی بادشاہت چلتی اور نہ کوئی اپنے عہدے کے سبب ممتاز سمجھا جاتا ہے اُس رب کی بارگاہ میں نہ کسی سیٹھ کو کسی غریب پر فوقیت دی جاتی ہے نہ کسی اعلیٰ کو ادنیٰ پر بس جو تقوی میں اتقی ہوتا ہے وہی اس کی بارگاہ میں محبوب و مقبول ہوتا ہے
مسجد میں عبد اللہ نے دیکھا کوئی قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہے تو کوئی ذکر و اذکار میں مگن کوئی اللہ کریم سے گڑ گڑا کر معافی مانگ رہا ہے تو کوئی سجدے میں گرا اللہ تعالیٰ کی معرفت کا لطف لے رہا ہے واہ! کیسا نورانی ماحول ہے سب کی زبان رب العالمین کی ذکر سے تر نظر آ رہی ہیں یقیناً اس بارگاہ میں پہنچ کر سکون حاصل ہوتا ہے
عبد اللہ نے خالد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
خیر۔۔۔۔۔ دونوں نے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ظہر ادا کی اور عبد اللہ نے بارگاہ خداوندی میں اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور یہ عزم کیا کہ آئندہ نماز ترک نہیں کروں گا
آفس سے جب عبد اللہ گھر آیا تو تھوڑا خوش نظر آ رہا تھا گھر والے بھی عبد اللہ کو خوش دیکھ کر مسکرانے لگے آج آپ کے چہرے پر الگ ہی مسکان ہے عبد اللہ کی بیوی عائشہ نے پوچھا
ہاں! آج میں بہت خوش ہوں کیونکہ آج خالد مجھ سے ملاقات کرنے آیا تھا اور اس نے میری بر وقت رہنمائی کی جس سے طبیعت مسرور ہے
ارے آپ انہیں گھر لے آتے اتنے دنوں بعد وہ آئے تھے کم از کم کھانا تو تناول کر لیتے عائشہ نے حسرت سے عبد اللہ کو دیکھتے ہوئے کہا
ہاں میں نے کہا تھا پر خالد کو ضروری کام سے کہیں جانا تھا اس لیے آئیندہ کا وعدہ کیا ہے اتنا کہہ کر عبد اللہ نے بیگ رکھا ٹوپی لی اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد چلا گیا
مما آج ابو نماز کے لئے جا رہے ہیں سب ٹھیک تو ہے نا عبد اللہ کے بچوں نے حیرت سے اپنی مما سے پوچھا
ہاں! اب سب ٹھیک ہی ہوگا آپ کے والد نے لگتا ہے آج سے نماز شروع کر دی ہے مما نے مسکراتے ہوئے بچوں کو جواب دیا
بہر حال! عبد اللہ کو جو لطف و سکون اب نماز میں، ذکر و اذکار، تلاوتِ قرآن، درود شریف کے ورد اور اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے میں ملتا تھا اسے وہ محسوس کرنے لگا تھا اب اسے رات کو نیند بھی آتی تھی اور وہ فجر میں بیدار بھی ہو جاتا تھا
ایک ہفتے بعد جب خالد دوبارہ اس سے ملنے اس کے گھر آیا تو پوچھا کیوں عبد اللہ بھائی اب آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اب وہ بے چینی، وہ بے قراری محسوس ہوتی ہے؟
ارے اب تو وہ لطف و سکون وہ قرار و اطمینان نصیب ہوتا ہے جس کو میں بیان ہی نہیں کر سکتا اب نہ دل اداس رہتا ہے اور نہ طبیعت بے چین زندگی کے ایام اب نہایت خوشگوار ہو گئے ہیں عبد اللہ نے بڑی خوش کلامی سے خالد کو جواب دیا
اچھا یہ سب کس چیز کے ذریعے حاصل ہوا؟ خالد نے عبد اللہ سے سوال کیا
یہ سب اللہ تعالیٰ کی یاد سے، اس کی عبادت سے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے سے حاصل ہوا میں تو کہتا ہوں کہ ہر بے سکون شخص کو کسی علاج کے ضرورت نہیں ہے بس اسے یہ آیت سنا دیں "الا بذکر اللہ تطمئن القلوب” سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کو سکون ملتا ہے
اور وہ اس آیت پر عمل کر لے تو دیکھنا اس کی زندگی کے لمحات نہایت خوشگوار ہو جائیں گے۔۔۔۔۔
تو پیارے بچوں! دیکھا آپ نے کس طرح عبد اللہ کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی زندگی نور سے بھر جاتی ہے اور وہ خود یہ اعلان کرتا کہ مجھے یہ خوشی اللہ کی یاد سے ہی حاصل ہوئی ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی بے نور زندگی کو اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے منور کریں
اور خوب دلجمعی سے اس کی عبادت و ریاضت میں مشغول رہیں
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عبادت و ریاضت کرنے توفیق عطا فرمائے اور اپنی یاد سے ہم سب کے دلوں کو سکون پہنچائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

شیئر کیجیے

Leave a comment