جنگ آزادی کے چند ممتاز قائدین
از: محمد سلیم انصاری ادروی
ہندوستان کی جنگ آزادی میں علماے اسلام نے اہم کردار ادا کیا۔ انگریزوں کے خلاف سنہ ١٨۵٧ء کو جامع مسجد دہلی میں فتواے جہاد دینے والے مجاہد اعظم علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ ایک عالم دین ہی تھے، اس فتوے پر اس وقت کے جيد علما مثلا صدر الصدور مفتی صدر الدین آزردہ، علامہ فیض احمد بدایونی اور مولانا ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی علیہم الرحمہ وغیرہ نے دست خط ثبت کیے۔ جب اودھ میں بیگم حضرت محل نے حکومت کی بازیافت کے لیے تحریک انقلاب کا پرچم بلند کیا اور انگریزی اقتدار کے خلاف مجاہدین آزادی کو منظم کیا تو علامہ بھی شریک ہوئے، اس تحریک کو کامیابیوں سے ہم كنار کرنے کے لیے مفید مشورے دیے اور بیگم حضرت محل کی کونسل کے اہم ركن مقرر ہوئے۔ آپ نے انگریزوں کے خلاف جو فتواے جہاد دیا تھا اس کی وجہ سے آپ پر مقدمہ چلا اور آپ کو کالا پانی کی سزا ہوئی اور آپ جزیرۂ انڈمان بھیج دیے گئے اور وہیں سنہ ١٨٦١ء میں آپ کا وصال ہوا۔
شمالی ہند میں برطانیہ کے سب سے بڑے اور خطرناک دشمن یعنی علامہ سید احمد اللہ شاہ مدراسی علیہ الرحمہ جو شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ کے افکار کے سچے ترجمان تھے وہ بھی ایک عالم ہی تھے۔ آپ نے دلکشا، قیصر باغ، عالم باغ، سکندر باغ، ریزیڈنسی کی جنگوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قصبہ محمدی میں ایک آزاد حکومت کی بنیاد ڈالی، علامہ احمد اللہ اور جنرل بخت خاں مجاہدین کی قیادت فرماتے رہے۔ جب بریلی پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا، تو علامہ نے شاہ جہاں پور میں انگریزوں سے آخری جنگ لڑی، لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا اور گرد و نواح میں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا، پھر بھی علامہ نے ہمت نہ ہاری دوبارہ بھر پور حملہ کر دیا اور شاہ جہاں پور کی ایک مشہور و معروف عمارت میں آگ لگا دی، جو آج بھی جلی کوٹھری کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں بھی علامہ کو پسپائی ہوئی اور علامہ فرخ آباد ہردوئی ہوتے ہوئے راجا پوائیں کے پاس پہنچے، راجا نے قلعہ کا دروازہ بند کر دیا، علامہ نے دروازہ کھولنے کا حکم دیا تو دروازے سے گولیاں چلنی شروع ہو گئیں، علامہ بھی گولیوں کے شکار ہو کر راجا کی غداری کے باعث شہید ہو گئے۔ اگلے دن جسم جلا کر راکھ دریا میں بہا دی گئی اور سر کوتوالی پر لٹکا دیا گیا۔ یہ واقعہ ١١ اگست سنہ ١٨٨٨ء کو پیش آیا۔
جب انگریزوں نے حکومت کے بل بوتے پر ہندوستان میں دھڑلے سے اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی تو اس فتنے کو روکنے کے لیے مولانا رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ میدان میں اترے۔ اس فتنے کے رد میں آپ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب "اظہار الحق” تصنیف فرمائی۔ انگریز پادری، پادری فنڈر سے آگرہ میں آپ نے ایک تاریخ ساز مناظرہ کیا جس میں مولانا نے پادری فنڈر کو شکست فاش دی، اس مناظرے میں علامہ فیض احمد بدایونی اور ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی علیہما الرحمہ آپ کی طرف سے معاون کے طور پر شریک تھے، آخر میں وہ پادری مناظر مناظرہ برخواست کراکر بھاگ گیا۔ علاوہ ازیں آپ قصبہ کیرانہ کے مجاہدین آزادی کی قیادت بھی فرماتے رہے اسی لیے انگریزوں کو آپ سے دوہری دشمنی تھی۔ کیرانہ کے کچھ غداروں کی وجہ سے انگریزی فوج ایک بھاری توپ خانہ کے ساتھ قصبہ کیرانہ میں گھس آئی اور گولہ باری شروع کردی ۔ اور مولانا کیرانوی کو شہید کرنے کے لیے تلاش کرنے لگی، مولانا کیرانوی کیرانہ کی جامع مسجد سے نکل کر چھپتے چھپاتے گجرات ہوتے ہوئے حجاز مقدس پہنچے۔ گجرات میں قیام کے دوران آپ مولانا خیر الدین محدث سورتی علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں بھی مقیم رہے۔ مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ کے والد مولانا طیب راندیری علیہ الرحمہ نے وہاں مولانا کیرانوی سے ملاقات کی۔ مولانا کیرانوی نے راندیر میں انگریزوں کے خلاف زبردست تقریر کی۔ جس کے نتیجے میں انگریزوں اور مجاہدین کے درمیان ایک گھمسان لڑائی ہوئی۔ جس میں مولانا راندیری کے دو صاحب زادے بھی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد مولانا راندیری مولانا کیرانوی کے ساتھ حرمین شریفین روانہ ہو گئے۔
تحریک آزادی ١٨۵٧ء میں مجاہدین نے انگریزوں کو علی گڑھ سے بے دخل کر دیا تو قیادت کا بار مولانا عبد الجلیل علی گڑھی علیہ الرحمہ کے حوالے کیا گیا۔ دوبارہ انگریزوں نے علی گڑھ پر چڑھائی کی تو دشمن سے مقابلہ میں بہت سے مجاہدین شہید ہو گئے۔ مولانا عبد الجلیل بھی ان شہدا میں شامل تھے۔
مولانا امام بخش صہبائی علیہ الرحمہ انگریز مخالف ذہن رکھنے کے ساتھ ساتھ انقلابیوں اور مجاہدوں کے ساتھ ہم دردی رکھتے تھے اور قلعہ معلیٰ کی مجلسوں اور بعض مشوروں میں شریک ہوتے تھے، مولانا صہبائی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کسی نے مخبری کر دی، انگریزوں نے آپ کے محلہ کوچہ چیلان دہلی سے چودہ سو آدمیوں کو گرفتار کرکے راج گھاٹ (نئی دہلی) جمنا کے کنارے گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ انہیں میں مولانا صہبائی بھی تھے۔ آپ کے گھر کے اکیس افراد شہید کیے گئے۔ یہ واقعہ سنہ ١٨۵٧ء کا ہے۔
امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے دادا امام العلماء مولانا رضا علی خان بریلوی علیہ الرحمہ روہیل کھنڈ کے مجاہدین کے سربراہ تھے، بریلی روہیل کھنڈ کا مرکز تھا۔ جب جنگ آزادی کا بگل بجا تو ہر جگہ انگریزوں سے جنگ چھڑ گئی، مگر بریلی ہی ایسا مقام تھا، جہاں انگریزوں کو شکست ہوئی، باقی مقامات کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ بحر حال فتح بریلی کے بعد امام العلماء کی تجویز پر خان بہادر خاں کو بریلی کا حکمران مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد جلد ہی پورے روہیل کھنڈ کو انگریزوں سے آزاد کرا لیا گیا اور ایک مظبوط حکومت قائم ہو گئی۔ مگر یہ آزادی کا دور صرف ایک سال ہی رہا، ٢١ جون سنہ ١٨۵٧ء میں بریلی فتح کیا گیا تھا اور ٧ جون سنہ ١٨۵٨ء کو دوبارہ انگریزوں نے ہر طرف سے جمع ہو کر پوری طاقت سے حملہ کیا اور بریلی پر قبضہ کر لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ سیکڑوں لوگوں کو پھانسی دے دی گئی اور ان کی لاشوں کو درختوں پر لٹکا دیا گیا۔ انگریزوں نے آپ کے سر کی قیمت پانچ سو روپیہ رکھی تھی۔ لیکن وہ لوگ آپ کا سر قلم کرنے میں نا کام رہے۔ البتہ ضلع رام پور میں آپ کی ایک بڑی جائیداد تھی جسے انگریزوں نے ضبط کر لیا۔ مولانا رضا علی خان کے بعد ان کی تحریک کو ان کے فرزند مولانا نقی علی خان اور پوتے امام احمد رضا خان نے آگے بڑھایا۔ مولانا نقی علی خان نے بھی اپنے والد محترم کی طرح جہاد کمیٹی کی تشکیل میں حصہ لیا۔ انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے والے مجاہدین کو مناسب مقامات پر گھوڑے اور رسد پہنچانا آپ کے ذمہ تھا۔ جس کو آپ بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ مؤثر تقاریر کے ذریعے مجاہدین میں جوش وولولہ پیدا کرتے رہے۔
مجاہدین جنگ آزادی میں ایک اہم نام علامہ کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ الرحمہ کا ہے، آپ نے مرادآباد میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔ اس کی نقلیں دوسرے مقامات پر بھیجیں ایک ہفتہ بریلی میں قیام فرما کر فتویٰ کی تشہیر کی اور لوگوں کے اندر جذبۂ جہاد پیدا کیا امام احمد رضا محدث بریلوی آپ کے جوش حریت اور تحریک آزادی میں سرگرم شرکت سے کافی متاثر تھے، فرمایا کرتے تھے، "جب تحریک آزادئ ہند شروع ہوئی تو گویا مولانا کافی علیہ الرحمہ کا ہاشمی خون پہلے ہی سے جذبۂ شہادت سے سرشار تھا”۔ جنرل بخت خان اپنے جاں بازوں کی فوج لے کر جب مرادآباد پہنچے تو آپ ہی ہراول دستے کے رہنما وپیشوا تھے نتیجتاً مرادآباد اور اطراف بریلی میں مسلمانوں نے زبردست بغاوت کی اور نواب مجدالدین عرف مجو خان کی قیادت میں مرادآباد انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہو گیا، مرادآباد پر قبضہ کے بعد آپ وہاں کے صدر شریعت بنائے گئے۔ ٢۵ اپریل سنہ ١٨۵٨ء کو انگریزوں نے مرادآباد پر دوبارہ قبضہ کر لیا، اور مجاہدین کی گرفتارياں شروع ہو گئیں، علامہ روپوش ہو گئے، مگر ایک مخبر فخرالدین کلاں کی غداری سے ٣٠ اپریل کو انگریزوں نے آپ کو گرفتار کر لیا اور مختلف دفعات کے تحت آپ پر مقدمہ چلایا گیا۔ بالآخر ٦ مئ سنہ ١٨۵٨ء کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، مرادآباد جیل کے سامنے اسی دن جیل سے متصل بر سر عام تختہ دار پر لٹکا دیا۔ پھانسی کے پھندے پر جاتے وقت آپ کی زبان پر تازہ ترین نعت شریف کے یہ اشعار جاری تھے۔
کوئی گل باقی رہے گا نے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ ﷺ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کم خواب کی پوشاک پر نازاں ہو تم
اس تن بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
نام شاہان جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشان پنجتن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحب لو لاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافی و لیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
(تلخیص: علامہ فضل حق خیرآبادی اور معاصر علما)