اسلامیان ہند کے قلیل التعداد طبقات
از قلم:طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
بھارت میں بعض ایسے طبقات پائے جاتے ہیں,جو معمولات اہل سنت کو انجام دیتے ہیں۔فاتحہ ونیاز,سلام وقیام,مولود وعرس وغیرہ کے قائل ہیں,لیکن کسی سبب سے وہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے دور رہے۔ دوری کے سبب بعض لوگ تکفیر دیابنہ کے منکر ہو گئے۔مزید بعض غلط عقائد بھی گڑھ لئے۔
ذیل میں چند ایسے طبقات کا ذکر ہے جو معمولات اہل سنت وجماعت کو مانتے ہیں۔
1–اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کے عہد میں بعض لوگ سجدۂ تعظیمی کے جواز کے قائل تھے۔آج بھی اس طبقہ کے لوگ پائے جاتے ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ نہ ہم دیوبندی ہیں,نہ بریلوی۔
2-ایک طبقہ مداریوں کا ہے۔پہلے اس بات کا اختلاف تھا کہ سلسلہ مداریہ میں مرید ہونا صحیح ہے یا نہیں؟اس وقت بھی بعض مداریوں کے کچھ غلط عقائد تھے,لیکن اب ان کی اکثریت غلط عقائد کی طرف جا چکی ہے۔
3-چند سالوں سے مولائی طبقے کا ظہور ہوا ہے۔یہ لوگ خود کو صوفی ظاہر کرتے ہیں۔مجاورین کا ایک طبقہ بھی ان کے ساتھ ہے۔یہ سب لوگ نیم رافضیت کے شکار اور اس کے پرچارک ہیں۔
یہ لوگ جا بجا سنیوں کو بدنام کرتے پھرتے ہیں اور سنیوں کے خلاف لوگوں کو جمع کر رہے ہیں۔اہل حکومت کو بھی ورغلا رہے ہیں۔ممکن ہے کہ پس پردہ شیعہ اور دیوبندی وغیرہ ان لوگوں سے ملے ہوئے ہوں۔واللہ تعالی اعلم
ان لوگوں کے عقائد میں بہت کجی ہے۔علمائے اہل سنت وجماعت اگر مناسب سمجھیں تو باہمی مشاورت کے بعد ان لوگوں کے ساتھ گفت وشنید کر کے معاملہ نرم کرنے کی کوشش کریں۔اگر ہو سکے تو اعتقادی طور پر بھی ان کو راہ راست کی طرف لانے کی کوشش کریں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ان کے مظالم برداشت کرتے رہیں۔اندازہ یہی ہے کہ یہ لوگ دور تک جائیں گے۔اہل حکومت کی نظر میں سنیوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔یہ لوگ ان تمام طبقات کو بدنام کر رہے ہیں جو فکری اور اعتقادی طور پر اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے منسلک ہیں۔گرچہ ہمارے لوگ طبقات اربعہ یا طبقات عشرہ میں منقسم ہو جائیں,ایک دوسرے سے دور رہیں,لیکن یہ مولائی لوگ ہر سنی طبقہ پر حملہ آور ہیں۔
جب ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں تو صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون مسلمان(اسلام کا کلمہ گو)ہے۔اہل ظلم وفساد سنی اور شیعہ میں فرق نہیں کرتے۔اسی طرح مولائی فرقہ بھی ہر سنی طبقہ پر حملہ شروع کر چکا ہے۔
ممبئ مقدمہ میں تمام طبقات شامل
سال 2010 کے ایک جلسہ میں دیوبندیوں نے سنیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔سنیوں نے وہ چیلنج قبول کر کے اپنی جانب سے قبولیت کا پوسٹر شائع کیا۔دیوبندیوں نے اس پوسٹر کا کوئی جواب نہیں دیا۔انجام کار سنیوں نے فاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ جشن فتح منایا۔
اگلے سال جب دیابنہ اپنے جلسے کا پرمیشن لینے گئے تو پولیس اور انتظامیہ نے پرمیشن نہ دیا۔اسی وجہ سے دیوبندیوں نے کچھ جھوٹے الزام گڑھ کر 2011 میں متعدد سنی تحریکوں اور ممبئ کے متعدد اداروں پر مقدمہ کردیا۔
رضا اکیڈمی,دعوت اسلامی,سنی دعوت اسلامی,آل انڈیا سنی تبلیغی جماعت(پھول گلی),آل انڈیا سنی جمعیۃ العلما (مدنپورہ),سنی جمعیۃ الائمہ (بائیکلہ),دارالعلوم محمدیہ(بھنڈی بازار),دار العلوم حنفیہ(قلابہ),مدرسہ قادریہ اشرفیہ(چھوٹا سونا پور)کے ذمہ داروں پر مقدمہ کیا گیا تھا۔ان اداروں اور تنظیموں کے نامزد افراد ایک ساتھ تاریخ پر حاضر ہوتے ہیں۔مقدمہ ابھی تک جاری ہے۔یہ مقدمہ ہمیں یہ سبق ضرور دیتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔
آپ آپس میں جتنے طبقات بنا لیں۔دشمن کی نظر میں برابر ہیں۔دشمن تو یہی چاہے گا کہ آپ مختلف ٹولیاں بنا کر بکھر جائیں۔آپ کی جمعیت منتشر ہو جائے۔آپ کی اجتماعی قوت شکست وریخت کا شکار ہو جائے,تاکہ وہ آسانی کے ساتھ عوام الناس کو اپنے فریب میں مبتلا کر کے گمرہی کی طرف لے جا سکے۔