اصلاح معاشرہ اور ہماری کوششیں 

Table of Contents

اصلاح معاشرہ اور ہماری کوششیں

محمد شمیم احمد نوری مصباحی

اصلاح معاشرہ کا خوب صورت لفظ آج نہ جانے کتنے حلقوں میں بار بار استعمال کیا جا رہا ہے اور اس وقت عالَمِ اسلام میں مختلف دینی و دعوتی تحریکیں، ادارے اور جماعتیں معاشرے کی اصلاح کی خاطر سرگرمِ عمل ہیں، اور نہ جانے کتنی انجمنیں اور کمیٹیاں اسی مقصد کے لیے قائم ہیں

اسلامی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ دعوتی واصلاحی موضوع پر رسائل و اخبارات کا ایک سیلاب امڈ رہا ہے مختلف منصوبوں کے تحت روزانہ کثرت کے ساتھ کانفرنسیں، سیمینار، جلسے اور اجتماعات اسی کام کے لیے ہو رہے ہیں

حکومتی سطح پر بھی “اصلاح معاشرہ مہم” کے اعلانات کبھی کبھار سننے میں آتے رہتے ہیں- مگر ان ساری چیزوں کے باوجود اس کے جو نتائج سامنے آنے چاہیے اور ان سے امّت مسلمہ کے اندرجو حرکت و نشاط اور بہتر تبدیلی ہونی چاہییے وہ نہیں پیدا ہو رہی ہے

سوال یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے یہ سارے وسائل خاطرخواہ فائدہ کیوں نہیں پہنچا رہے ہیں؟۔

ہماری ساری اجتماعی و انفرادی کوششیں رائیگاں کیوں جا رہی ہیں؟۔ اصلاح حال کی کوئی جدوجہد کام یاب کیوں نہیں ہوتی؟۔

اس کی ایک بڑی وجہ

ہمارے اعتبار سے یہ بھی ہے کہ آج سماج اور معاشرہ کے بگاڑ، اخلاق کی کمی، ظلم و زیادتی،کمزوروں، یتیموں اور بیواؤں کی نہ صرف حق تلفی بلکہ ان کے ہاتھ کا لقمہ تک چھین لینے کی شکایت تو سب کرتے ہیں مگر یہ کوئی نہیں کرتا کہ جتنا کچھ خود کر سکتا ہوکرے۔

ہر شکایت کرنے والے والا جب شکایت کرتا ہے تو اپنے آپ کو اس سے الگ سمجھتاہے،خرابی کی ساری ذمہ داری وہ دوسروں پر ڈالتا ہے،خود کو پارسااوردوسروں کو سرسے پیر تک عیب دار سمجھتاہے جیسا کہ ایک مثل مشہور ہے کہ۔

دوسروں کی آنکھ کا تِنکا تو ضرور آتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا

اس کو بھی پڑھیں: دین کی دعوت وقت کی اہم ضرورت

اگر اس نقطۂ نظر سے ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں تو یہ حقیقت نظر آئے گی کہ اصلاح معاشرہ کے نام پر کی جانے والی یہ کوششیں اتنے عیوب ونقائص سے پر اور اصلاح کے لوازم سے اس قدر عاری ہیں کہ ان کوصحیح معنیٰ میں “اصلاح کی کوشش” کہنا ہی غلط ہے۔

مثلاً ہمیں ان کوششوں میں تقریباً یہ بات مشترک نظر آتی ہے کہ عموماً ہر جگہ اصلاح کی شروعات دوسروں سے کرنے کی فکر ہوتی ہے، اصلاح حال کے لئے ہمارا ہر وعظ، ہماری ہر نصیحت اور ہماری ہر اپیل دوسروں کے لیے ہوتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ میں چلے ہوئے نظام میں ہر مشکل تبدیلی دوسرے کے گھر سے شروع ہو۔

اور یہ خیال شاذو نادر اور شاید وباید ہی کسی کو آتا ہوگا کہ زندگی میں تبدیلی لانے کا فریضہ ہم پر بھی عائد ہوتا ہے،… اور جس اصلاح کی کوشش کی شروعات ہی اس نقطۂ نظر سے ہو اس کا انجام وہی کچھ ہو سکتا ہے جو ہم اور آپ دیکھ اور مشاہدہ کر رہے ہیں

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا بھر میں جو دل کش انقلاب برپا فرمایا اور ایک مختصر سی مدت میں معاشرے کی کایا پلٹ دی اس کا طرز و انداز ہمارے طرز عمل کے بالکل برعکس تھا۔

وہاں ہر اصلاح کا آغاز سب سے پہلے اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنےخاندان سے ہوتا تھا

حضور ﷺ نے لوگوں کو نماز کا حکم دیا مگر خود آپ کا عمل کیا تھا؟ ۔

اپنے امتیوں کو تو پانچ وقت کی نماز کا حکم فرمایا تھا مگر خود آٹھ وقت نماز پڑھتے تھے،طلوعِ آفتاب کے بعد اشراق، کچھ اور دن چڑھنے پر چاشت،پھر ظہر،پھرعصر،پھر مغرب،پھر عشاء،پھر تہجد،پھرصبح[فجر]۔

حضورﷺ نے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا

عام مسلمانوں پر سال میں ۳۰ دن کے روزے فرض ہیں مگر خود آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کیفیت کیا تھی؟ کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہیں جاتا تھا۔

میرے لکھنے کا مطلب

یہ ہے کہ وہاں زبانی وعظ و نصیحت سے زیادہ سیرت و کردار اور عمل کے ذریعہ لوگوں کو دعوت دی جاتی تھی، وہاں اصلاح معاشرہ کی مہم معاشرہ میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے نہیں چلائی جاتی تھی بلکہ اس کا منشاء واقعةً درد و سوز کے ساتھ لوگوں کی صلاح و فلاح کی فکر ہوتی تھی

جب تک ہمارے مصلحین کے اندر اس طرح کی باتیں تھیں توان کے اصلاح کے طریقۂ کار سے دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے سے ساری بدعنوانیاں کافور ہوجاتی تھیں- آج بھی اگر ہم اور ہمارے مصلحین اس طرح سوزدروں پیدا کرکے اصلاح معاشرہ کا کام کریں تو یقیناً معاشرے میں اصلاح پیدا ہوگی!۔

مگرافسوس!

آج ہمارے اندر ایک بہت بڑی کمزوری اور بیماری پیدا ہو گئی ہے کہ ہم اپنے کام کے علاوہ دوسرے کے کاموں کو اہمیت نہیں دیتے، بلکہ اس میں عیب نکالنے اور اصلاح کی فکر کے بجائے اس کے خلاف محض وہم و گمان کی بنیاد پر غلط پروپیگنڈے کرنے لگے ہیں جس سے معاشرہ کو بڑا نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کی وجہ سےمعاشرہ کی اصلاح میں بڑی رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے

جب کہ کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی کرنے کے تعلق سے اللہ وحدہٗ لاشریک یوں ارشاد فرماتا ہے “اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں” (الحجرات: ۱۲)۔

اور ہمارے آقا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدگمانی کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے جیسا کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بدگمانی سے بچو کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے”۔
آج ہماری اور آپ کی یہ اجتماعی و انفرادی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے دل و دماغ سے سوچیں کہ ہم جس بستی یا آبادی میں رہتے ہیں وہاں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے؟۔

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا

کہ ان میں کتنے ہیں جو نماز و روزہ و دیگر احکام خداوندی کے پابند ہیں؟ ہمیں اس بات پر بھی غور و فکر کرنی ہوگی کہ ہماری آبادی میں کتنے ایسے لوگ ہیں جن کو اپنے بچوں کو عصری تعلیم کےساتھ دینی تعلیم دلانے اور شریعت اسلامیہ کا پابند بنانے کا شعور واحساس ہے؟۔

ہمیں اس بات کا بھی احساس دل میں پیدا کرنا ہوگا

کہ ہم نے اس سلسلے میں اپنی صلاحیتوں کو کہاں تک استعمال کیا؟۔

اگر ہم خود اپنے تئیں ان چیزوں کے پابند ہیں اور احساس ذمہ داری جاگ رہی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی بستی کے دوسرے لوگوں کو بھی جگائیں اور ان کو راہ راست دکھانے کی کوشش کریں… ہم یہ تو دیکھیں کہ ہماری بستی میں کوئی مدرسہ ہے یا نہیں؟۔

اگر ہے تو کس حال میں چل رہا ہے؟ کبھی اس کی خبر گیری بھی کریں- اور اگر نہیں ہے تو بستی کے دیگر حضرات کو اس بات پر آمادہ کرکے مکتب و مدرسہ قائم کریں تاکہ ہمارے بچے اور آنے والی نسلیں کم از کم مبادیات اسلام اور بنیادی عقائد اور ارکان اسلام کے ضروری مسائل سے تو واقف ہو سکیں۔

کیوں کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس دور میں بھی بہت سے علاقوں میں مسلم بستیاں کتاب وسنت اور اسلامی طور طریقے پر عمل کرنے میں کوتاہی کا شکار ہیں، بلکہ کوتاہی سے آگے بڑھ کر مشرکانہ عقائد و غیر شرعی رسم و رواج اور تہذیب و تمدن میں دوسری قوموں کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔

لہٰذا اگر ہم معاشرہ کی اصلاح کے خواہاں ہیں تو ہماری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی اور اپنے گھر والوں نیز اپنے اردگرد کے خامیوں کا جائزہ لیں،اورہمارے درمیان جو بھی خامیاں وکمیاں ہوں انہیں دور کرنے کی فکر و کوشش کے ساتھ اپنے ماحول، محلہ و آبادی کے سُدھار کی بھی فکر کریں۔

اور اصلاح معاشرہ کا یہ کام

لعن طعن کے ذریعہ نہیں، بلکہ یہ کام الفت و محبت اور نرمی و پیار کے میٹھے اور عمدہ اخلاقی انداز میں کریں جب ہم یہ کریں گے تو ہماری بھی اصلاح ہو گی اور معاشرہ میں بھی سدھار پیدا ہو گا!۔ اگر ہم نے ان باتوں پر عمل کرکے معاشرہ کے اصلاح کی کوشش کی تو نہ صرف یہ ہے کہ ہماری باتوں میں اثر ہوگا بلکہ ہمارا ایک ایک عمل اور ایک ایک انداز لوگوں پر اثر انداز ہو سکے گا

ورنہ یہ قوم رسمی وعظ اور بے روح اپیلیں مدت دراز سے سن رہی ہے- ان بے روح اپیلوں میں یہ طاقت نہیں کہ یہ وقت کے دھارے کو موڑ سکیں!۔

بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کے دلوں میں صحیح معنوں میں معاشرہ کی اصلاح کا جذبہ عطا فرمائے آمین بجاہ سیّدالمرسلین ﷺ

محمد شمیم احمد نوری مصباحی


مزید پڑھیں: 

نعت رسول مقبول ﷺ

سیدنا صدیق اکبر اور خدمت حدیث

صفائی نصف ایمان!ہے-مسلمان اور صفائی؟

شیئر کیجیے

Leave a comment