ان کی بدبختی تو دیکھیے!!!
تحریر :خلیل احمد فیضانی
جب ذکر مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بزم نور سجتی ہے, تو غنچہ ایمان تازہ ہوجاتا ہے
بوجھل طبیعتیں شاد شاد ہونے لگتی ہیں
یقینا خوش بخت ہیں وہ افراد جو اپنے سینوں میں محبت مصطفی کا چراغ روشن کیے ہوۓ ہیں
اور اس کی لو کو تیز سے تیز تر کرنے میں مصروف عمل ہیں –
محبت و ادب ہم اہل سنت وجماعت کی شناخت ہے
بزرگان دین کی تعظیم و محبت ہمارے ہاں جس انداز کی پأی جاتی ہے کہ جس میں نا افراط کو راہ اور نا ہی تفریط کی گنجائش ویسی محبت و تعظیم دیگر فرقہاۓ باطلہ میں نہیں پأی جاتی
ہم لوگ حسب مراتب اکابرین کا ادب کرتے ہیں
انبیاء کرام ,صحابہ کرام ,اولیاء کرام و علماء کرام کی تعظیم کرتے ہیں, ان کی محبت یقینا ہماری زندگی کا اولیں مقصد ہے
لیکن معاملہ وہی کہ حسب مراتب تعظیم و ادب کی سوغاتیں پیش کرتے ہیں اور محافل محبت سجاتے ہیں
یہ ہماری سعادت مندی ہے, سرفرازی ہے اور آخرت کی کل پونجی بھی
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض وہ فرقے جو صرف اپنے آپ کو دین کا مخلص گردانتے ہیں , ان کے عقیدہ کے خلاف. جس کا عقیدہ ہو اسے مسلمان ماننے کو تیار نہیں ہوتے ان باطل فرقوں کے خود ساختہ اکابرین کے کرتوت و حرکات دیکھیے کہ کس قدر
ان کی محبتوں و عقیدت مندیوں میں بھیانک افراط و تفریط پائی جاتی ہے اور ان کی کور بختی کہیے کہ ایک طرف کیسے یہ عداوت انبیاء میں حد سے بڑھے ہوۓ ہیں اور دوسری طرف کیسے محبت اساتذہ سے مخمور ہیں –
یہ ان کے قاسم نانوتوی ہے غلاظت و کدورت کا ملمع معلوم ہوتے ہیں ان کو ایک موقع پر خنزیر کے بارے میں تحقیق کی ضرورت پیش آٔی ,کیوں کہ ایک فقہی مسٔلہ پیش آگیا تھا تو لوگوں نے کہا یہ تو بھنگیوں سے معلوم ہوسکتا ہے ,وہی لوگ خنزیر پالتے ہیں تو حضرت کے گھر جو بھنگی آتا تھا اس سے انہوں نے پوچھا کہ بھأی !خنزیر کے بارے میں اس بات پر تمہاری کیا تحقیق ہے؟
اس نے اصلیت بتلادی کہ یہ صورت ہوتی ہے
اس دن کے بعد جب وہ بھنگی آتا تو آپ اس کی تعظیم میں کھڑے ہوجاتے اور یوں کہتے کہ اس بھنگی کے ذریعے مجھے ایک علم حاصل ہوا ہے (خطبات حکیم الاسلام )
یہ ان کے رشید گنگوہی ہے ان کو اپنے جملہ اساتذہ کے ساتھ خاص انس و تادب ملحوظ تھا اکثر اپنے اساتذہ کے مناقب و محاسن بیان کرتے اور آنکھوں میں آنسو بھر لاتے (تذکرۃ الرشید )
اب بدنام زمانہ و انگریز کے خوشامد اشرف تھانوی کا دوغلاپن ملاحظہ کیجیے کہ ان سے حضرت شیخ الھند (جو ان کے مصنوعی شیخ ہیں) کے ترجمہ قرآن پاک پر تقریظ لکھنے کی درخواست کی گئی تو اس پر انہوں نے کہا تقریظ لکھنا تو اس کا حق ہےجو ایک طرف مدح پر قادر ہو تو دوسری طرف قدح کی بھی طاقت رکھتا ہواور ہم تو حضرت کے شاگرد ہیں ہم تو ان کی ہر چیز کی مدح ہی کریں گے اگر ہم تقریظ لکھیں اور مدح کریں تو گویا اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم قدح بھی کرسکتے ہیں اور اس کا حق بھی رکھتے ہیں اور اس کا قبیح وشنیع ہونا ظاہر ہے چوں کہ حضرت استاذ کی قدح گوشہ تصور میں لانا بھی سوء ادب ہے (افادات مسیح امت )
ان مذکورہ تینوں خبثاء کی اپنے اساتذہ کے تٔیں کیسی عقیدت و الفت ہے آپ نے ملاحظہ کی
لیکن جب آقاﷺ کی عظمت و شان کی بات آتی ہے تو اس میں تاویل کا ہر پہلو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں
قرآن و حدیث میں جہاں عظمت مصطفیٰﷺ کا حسین تذکرہ چھڑتا ہے تو ان کی رگ عناد پھڑک اٹھتی ہے اس کو بدبختی کے علاوه اور کیا کہا جاسکتا ہے –
اور ان کے کفریہ عقائد ڈھکے چھپے نہیں رہے کتابوں میں موجود ہیں یہاں پرصرف ان کی بے وفائی و بے مروتی کا ایک پردہ اٹھانا ہے کہ دنیا میں ان کے جیسا کویٔی غدار نہیں –
یقینا یہ ان ناہنجاروں کی بدبختی ہے کہ جنہوں نے دوحرف پڑھاۓ ان کی تو اتنی قدر کہ ان کے تذکرے سے ہی آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور جس نبی نے قرآن دیا ,حایث دی زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کیا ان کی معصوم و بے عیب ذات میں عیبوں کے جویاں رہتے ہیں جب کہ ہمارے نبی تو وہ ہیں کہ حسن و جمال ان کے در کے گدا ہیں پیارے آقاﷺ نے انہیں کلمہ اسلام جیسی لازوال نعمت سے بہرمند کیا لیکن ان بے وفاؤں نے اس کی کویٔی قدر نہیں کی
امام فرماتے ہیں :
ع ,اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیوں!کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
اور پھر انبیاء کرام ,صحابہ کرام, اولیاء کرام کے تعلق سے ان کے کیسے کیسے نظریات و افکار ہیں اظہر من الشمس ہے –
ان کی اسلاف دشمنی توہین پسندی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جس کی تفصیل کتابوں میں مذکور ہے یہاں بس ایک خفیف سا اشارہ مقصود تھا کہ ان کے جملہ امور کا مقصد توہین انبیاء و صالحین ہے ناکہ اشاعت دین و ملت کی خدمت اللہ تعالی ان کو ہدایت عطا فرماۓ آمین