امامت، خطابت اور عصری عنوانات

امامت، خطابت اور عصری عنوانات

Table of Contents

امامت، خطابت اور عصری عنوانات

تحریر: انصار احمد مصباحی

امامت، خطابت اور عصری عنوانات
امامت، خطابت اور عصری عنوانات

عوام اور علمی حلقوں میں، ائمہ حضرات کی تقریر اور خطابت سب سے زیادہ سرخی میں رہتی ہے۔
میں نے اس تعلق سے، سنجیدہ قارئین سے چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کی ہے:
(١) ایک رمضان کی بات ہے؛ شہر کی جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا، اذان سے پہلے خطیب و امام صاحب سے مل کر چند منٹ بولنے کی اجازت چاہی اور وہ نہیں مل سکی۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا:
”امید ہے حضرت! آپ نے تقریر کی مکمل تیاری کر لی ہوگی!“۔
اس پر حضرت کے غیر ذمہ دارانہ جواب سے مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ ان کا جملہ تھا، ”تیاری کیا کرنی ہے! دیکھا جائے گا، جو آئے گا بول ڈالیں گے“۔
بیان شروع ہوا تو ”وہی ڈھاک کے تین پات“، ایک لمبا سا عربی خطبہ، تمہید کے مقفٰی و مسجع جملے، مترنم درود شریف، درود پاک کی فضیلت میں چند حدیثیں، پھر ایک اور بار ……اتنا ہی نہیں……طاق (وتر) عدد کی برکت سمجھا کر ایک بار اور درود شریف۔ خدا خدا کر کے موضوع سخن پر آئے تو وہی گھسا پٹا عنوان؛ کوئی پیغام نہیں……درس عبرت نہیں……سوز و گداز نہیں……عزم و حوصلہ نہیں…… جذبہ نہ ایثار، قیادت نہ رہنمائی، نہ درد نہ طرب، بس؛ آئیں بائیں شائیں اور……وما علینا الا البلاغ۔
ان کی تقریر بنفسہ بری نہیں تھی؛ لیکن مدرسوں کی ابتدائی جماعتوں میں ”مقتضائے حال“، ”معرفت زمان“ اور ”مقام و محل“ وغیرہ کے جو اسباق پڑھائے گئے تھے، وہ کس لئے؟ بروئے کار کب لائے جائیں گے؟ منبر رسول ﷺ میں کھڑے ہو کر اتنی بڑی لاپروائی نا اہلی کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ ڈاکٹر اقبال کی نظر میں وہ قائد اور رہنما بننے میں ناکام ہیں، وہ فقط ”بے چارے دو رکعت کے امام“ ہیں اور بس۔

(٢) جب ملک بھر میں CAA جیسے دستور مخالف قانون کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے، ملک کا پورا سنجیدہ طبقہ سڑکوں پر سراپا احتجاج تھا۔ شہر میں بند اور ریلی کا پروگرام تھا، امام صاحب سے کہا: ”حضور! جمعہ میں اس تعلق سے بیداری والی تقریر کریں!“ پہلے تو وہ سراپا سوالیہ نشان بن گئے، پھر تھوڑی دیر میں کہنے لگے: ”اچھا اچھا ٹھیک ہے“۔ جب تقریر شروع ہوئی تو کبھی کربلا کا میدان تو کبھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے کار نامے، کبھی قوت مسلم تو کبھی ”گرمئی خون مسلم“۔
آپ بتائیے! وہاں عوام کو اس قانوں کی خرابیوں سے آگاہ کرنا تھا یا نمازیوں کو میدان جہاد میں کود نے کے لئے تیار کرنا!
ایک امام سب کے مقتدٰی اور رہبر ہوتے ہیں، عصری مُدّوں پر ان کی علمی دسترس مقتدیوں میں سب سے کم ہو، اس سے بڑھ کر حیران کن اور کیا ہوگا؟ علامہ اقبال کو بھی ہقینا ایسے ہی کسی امام سے سابقا پڑا ہوگا، جو انھیں کہنا پڑا۔ ؎
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام!

امامت کا عہدہ مجروح کیوں ہو رہا ہے؟
عام اور خاص دونوں طبقے میں خطابت کی پاکیزگی مسلسل مجروح ہوتی جارہی ہے، معیار گھٹ رہا ہے، کمیت بڑھ رہی ہے، کیفیت مکدر ہورہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خود خطبا میں ہے:
ہمارے ملک میں سب سے پاکیزگی اور سنجیدگی سے کسی کی بات سنی جاتی ہے تو وہ اماموں کی۔ کانفرنسوں کے لئے مہینوں تشہیر ہوتی ہے، تب جا کر بڑی مشکل سے لوگ جمع ہوتے ہیں؛ لیکن مساجد کا حال یہ ہے کہ لوگ مکمل تیاری کے ساتھ، طہارت اور نفاست کو مکمل ملحوظ رکھ کر، عمدہ کپڑے زیب تن کر کے، وقت سے پہلے ہی اپنی نششتیں لے لیتے ہیں۔ ایک بڑے شہر میں ہزاروں مسجدیں ہوتی ہیں، ایک ایک مسجد میں دو دو سو نمازی بھی آئیں تو صرف ایک متوسط شہر میں ہفتے میں کم از کم دو لاکھ لوگوں تک اہم اور ضروری پیغامات پہنچائے جا سکتے ہیں، ان کے سامنے قوم و ملت کے سرگرم مسائل رکھے جا سکتے ہیں، ان کے خوابیدہ جذبت و احساسات کو آسانی سے جگایا جا سکتا ہے۔ ائمہ اگر پوری دیانت داری سے ”قوموں سے خطاب“ کی یہ ذمہ داری انجام دیں تو دعوے سے کہ سکتا ہوں، کبھی کسی کانفرنس، جلسہ اور اجتماع کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملک کے سارے ائمہ ہر ہفتہ متعین پیغام لے کر قوم سے مخاطب ہوں تو سمجھ لیجیے اسی دن انقلاب آگیا۔ اس جانب روشن مستقبل کی پیش رفت کو، شایان شان پزیرائی ملنی چاہیے۔

اس سلسلے میں عہد رسالت کی مسجد نبوی اور اس کے شب و روز ہمارے ائمہ کے لئے سب سے پہلا اور کار آمد آئیڈیل ہو سکتے ہیں۔

مسجد نبوی اور عصر حاصر کے ائمہ:
حضور رحمت عالم ﷺ کی مسجد، اسلامی دنیا کی پہلی درس گاہ اور مسلمانوں کی اولین با ضابطہ تربیت گاہ بھی ہے۔ مسجد نبوی کی تاریخ پڑھنے سے سر سری طور پر مندرجہ باتیں معلوم ہوتی ہیں:

آقائے کائنات ﷺ اور حضور کے بعد خلفاے اربعہ مسجد نبوی میں مختصر اور جامع خطاب فرمایا کرتے، صرف کام کی باتیں کرتے اور بڑی وضاحت سے کرتے؛ وہاں لایعنی، جھوٹی اور غیر مستند باتیں کبھی نہیں ہوتیں؛ وہاں اصحاب صفہ نامی اہل اللہ کی ایک بہترین جماعت کی اعلا تربیت ہوتی؛ حضور ﷺ جب بھی خطاب فرماتے، مناسب اور زود اثر لہجہ اپناتے، نہ ضرورت سے زیادہ آواز بلند ہوتی اور نہ ہی بہت تیز بولتے، آپ کا انداز بڑا انوکھا اور فصیحانہ ہوتا؛ تقریریں نہ بے حد طویل ہوتیں نہ ہی مغلق اور غیر واضح؛ مسجد نبوی میں خطابت کی ذمہ داری سنبھالنے والوں کا اعلا کردار، ان کے گفتار کا آئینہ دار ہوتا، جو کہتے، اس پر خود سختی سے عمل پیراں ہوتے؛ ان کا سب سے بڑا اور اولین ماخذ قرآن ہوتا، پھر افعال و اقوال رسول ﷺ؛ بے ضرورت اور لایعنی قصے کہانیوں سے اجتناب کرتے۔ اِن تمام باتوں کو ائمہ ذہن میں رکھیں تو اُن کی تقریروں میں نہ صرف تاثیر کا فن پیدا ہوگا؛ بلکہ ان کی شخصیت بھی مقبول اور متاثر کن ہوتی جائے گی۔

اس کے علاوہ پیارے آقا حضور رحمت عالم ﷺ کی سیرت میں ایک کامیاب خطیب کی ساری خوبیاں کامل درجے میں موجود ہیں۔ ضرورت مطالعے کی ہے۔ محلے یا گاؤں والے اپنے بَل پر مسجد کی ساری ضرورتیں پوری کرتے ہیں، امام کے کھانے پینے رہنے کا انتظام کرتے ہیں، ان کی خبر گیری کرتے ہیں، بدلے میں ان کو کیا چاہیے! دینی رہنمائی اور بس۔ یہی تو ہمارا مشن ہے۔ تھوڑی محنت کر کے ائمہ کچھ وقت مطالعہ میں لگائیں تو دھیرے دھیرے وہ ماحول شناس، حساس اور نباض ہو جائیں گے۔ قوم کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت بھی پروان چڑھتی جائے گی۔ ؎

صداقت ہو تو دل سینوں سے کھچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی

 

امامت، خطابت اور عصری عنوانات

 

شیئر کیجیے

Leave a comment