امام احمد رضا ایک ادب شناس شاعر

Table of Contents

امام احمد رضا ایک ادب شناس شاعر

از: افتخاراحمدقادری

     یومِ ولادت 10/ شوال المکرم_1272ھ

   سرکارِ اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری رضی الله تعالیٰ عنہ محلہ سودا گران ضلع بریلی کے ایک علمی گھرانے میں 10/ شوال المکرم 1272ھ مطابق 14/جون 1856ء بروز شنبہ بوقتِ ظہر بریلی شریف میں پیدا ہوئے- ( حیات اعلیٰ حضرت_ صفحہ نمبر 12) آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے والدِ ماجد سے فرمایا- چار سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید مکمل کیا اور عربی میں ہدایتہ النحو کی شرح آٹھ سال کی عمر میں تصنیف فرمائی- جملہ علوم پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ علم فلکیات، علم ریاضی، علم سائنس دیگر علوم پر بھی آپ بیک وقت ملکہ رکھا کرتے تھے- فقہ حنفی کا مستند ذخیرہ فتاویٰ رضویہ آپ کی عدیم النظیر فقاہت کا لاجواب تحفہ ہے- ان خصوصیات کے علاوہ آپ کو نعت گوئی شعر وشاعری میں بھی امتیاز خاص حاصل تھا- آپ قادر الکلام شاعر، جلیل القدر نعت گو اور مداح رسول بھی تھے-

       امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ نے نعت گوئی میں اس وقت قدم بڑھایا جب کانفرنسوں کا اتنا زور و شور سے اہتمام نہیں تھا- چیدہ چیدہ لوگ اسے اہمیت دیتے تھے لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جو مقام امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ کو نعت گوئی میں حاصل ہے ایسے بہت کم نعت گو شعرا نظر آتے ہیں- آپ کے اشعار کو پڑھ کر دلوں کو اطمینان و سکون، روحوں کو تازگی، آنکھوں کو سرور ملا کرتا ہے- سب سے اہم بات یہ ہے! آپ کے اشعار دلوں میں پیوست ہو جاتے ہیں اور اثر انداز ہوتے ہیں قاری اور سامع جذبات کے تلاطم میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں- آپ کو سرکارِ دوعالم صلی الله علیہ وسلم سے قلبی لگاؤ تھا- آپ کی نعت گوئی قرآن وحدیث کی پاسدار اور شریعت کی جامع ہوتی ہے نعت گوئی کی ایک ہلکی سی جھلک قارئین ملاحظہ فرمائیں:
شب معراج میں حضرتِ جبرئیل نے حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم سے جو گزارش کی تھی اس منظر کا نقشہ اپنے اشعار میں آپ یوں بیان کرتے ہیں:

                پل   سے  اتارو  راہ   گزر   کو   خبر  نہ  ہو
جبریل  پر  بچھائیں  تو پر   کو  خبر  نہ ہو
کہتی تھی یہ براق سے اس کی سبکی  روی
یوں   جائیے  کہ گرد   سفر   کو خبر   نہ ہو
(حدائقِ بخشش)

     یہ دونوں اشعار بڑے ہی معنیٰ خیز ہیں ایک طرف تو امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ کا عشقِ رسول (صلی الله علیہ وسلم) چھلک رہا ہے تو دوسری طرف گزارش جبریل کی بھر پور عکاسی ہورہی ہے- آپ کے جدِ امجد حضرت مولانا رضا علی خان آپ کو ،،احمد رضا،، کے نام سے پکارا کرتے تھے لیکن حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے عشقِ صادق نے یہ گوارہ نہ کیا کہ صرف احمد رضا لکھا کریں بلکہ آپ اپنے نام کے ساتھ یا پہلے اپنی غلامی کا ثبوت دیتے ہوئے ،،عبد المصطفیٰ،، لکھا کرتے تھے- ایک نعت کے مقطع میں اس محبت کا اعتراف آپ نے تحدیث نعمت کے طور پر یوں فرمایا:
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عبد مصطفٰی
تیرے   لیے امان   ہے    تیرے   لیے   امان ہے

   اگر آپ اس شعر کے محاسن و مطالب پر صدق دل سے نظر ڈالیں گے تو عشقِ رسول کے ساتھ ساتھ دامنِ مصطفیٰ سے وابستگی بھی نظر آئے گی- حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کی تمنا ہر مسلمان اپنے دل میں لیے ہوئے ہے لوگ نظم ونثر میں اس کی ترجمانی یوں کرتے ہیں….
دکھا دے یا الہیٰ وہ مدینہ کیسی   بستی  ہے
جہاں پر رات دن مولا تیری رحمت برستی ہے

     انسان ہر طرح سے حج و زیارت کے لیے کوشش و جتن کرتا ہے کہ دربار گہربار میں حاضری ہو جائے- ہر انسان اس سعادت سے فیروز مند نہیں ہو پاتا اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہر کام کا وقت معین ہے امام احمد رضا خان قادری اپنی نعت گوئی میں فرماتے ہیں:
لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا شاد ہر ناکام ہوہی  جائے گا
اے رضا ہرکام کااک وقت ہے دلکو بھی آرام ہو ہی جائے گا
در حقیقت یہ اشعار خود انسان کی آواز کا جواب اور اضطرابِ دل کا چین ہیں گویا امام احمد رضا خان قادری نے دل کی بات کہہ دی ہے اور وقت معین کی روشن دلیل اپنی نعت میں پیش کردی ہے کوئی بھی حق شناس اس شعر سے کیسے انحراف کر سکتا ہے- بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضری کی سعادت اور فریضہ حج ادا کرنے کا طریقہ آپ نے اس کا اظہار کس اعتبار سے کیا ہے قارئین ملاحظہ فرمائیں:

حضرتِ علامہ عبد الحکیم اختر شاہجہان پوری رقم طراز ہیں:
،، امام احمد رضا خان قادری نے 1295/ہجری 1878/ عیسوی میں اپنے والدین کے ہمراہ حج ادا کیا اور حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہِ میں حاضری کی سعادت حاصل کی اس عارف کامل اور اہل نظر نے آپ کو پہچان لیا تھا اور مسلمانوں کو یہی درس دیتے رہے تھے کہ وہ بھی اسی نظر سے مولائے کائنات کے روضہ انور کو دیکھا کریں یعنی خود فرماتے ہیں:
حاجیوں  آؤ شہنشاہ  کا روضہ  دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو
امام احمد رضا خان قادری کا عاشق رسول ہونا ان کے مخالفین کے نزدیک بھی مسلم ہے ایک مرتبہ آپ نے تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا تھا ،،خدا کی قسم! اگر میرے دل کو چیر کر دو ٹکڑے کر دو تو ایک پر ،، لا الہٰ الاللہ اور دوسرے پر ،، محمد رسول الله،، لکھا ہوا پاؤ گے ،، اسی لیے آپ بارگاہِ رسالت میں اپنی تمنا یوں پیش کرتے تھے:
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ  بس ایک  جاں دو  جہاں  فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھراکروں کیاکروڑوں جہاں نہیں
مذکورہ بالا اشعار میں علمی و عملی محاسن نظر آرہے ہیں تو وہیں ان کی لگن عشقِ رسول کے سانچے میں ڈھلتی ہوئی نظر آرہی ہے- آپ کی نعت گوئی پر حضرتِ علامہ عبد المبین نعمانی صاحب قبلہ کچھ اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
،، آپ جہاں متبحر فقیہ النفس مفتی، صاحبِ عرفان شیخ اور پچاس سے زائد علوم وفنون پر تقریباً ایک ہزار کتابوں کے ماہر مصنف تھے وہیں عربی فارسی اردو کے ایک نہایت قادر الکلام اور بارگاہِ رسول کے ادب شناس شاعر بھی تھے مگر آپ کی مذہبی و علمی حیثیت چونکہ غالب تھی اس لیے فن شاعری کا کمال پردہ خفا میں رہ گیا اور بہت سے ایسے لوگوں کو تو تاریخ نے اونچا مقام دیا جو امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ کے سامنے طفل مکتب معلوم ہوتے ہیں اور امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ جیسے عظیم نعت گو شاعر کو نظر انداز کر دیتے ہیں- آپ کا کلام دیکھنے کے بعد ہر صاحبِ انصاف یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ آپ صرف شاعر نہیں بلکہ امام الشعرا تھے جن پر غالب اور اقبال سے کہیں زیادہ لکھنا چاہیے تھا: مزید آگے شاعر اسلام جناب رشید محمود لاہور اپنا تاثر لکھتے ہیں:

    ،، امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ جن پچاس سے زیادہ علوم کے منتہیٰ عالم تھے ہم میں سے اکثر کو ان کے نام تک نہیں آتے ان علوم کے متعلق وہی شخص گفتگو کر سکتا ہے جو اس کے حسن و قبح کو پرکھنے کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہو – لیکن امام احمد رضا خان قادری قادر الکلام شاعر بھی تھے اور ہم میں سخن شناس، سخن فہم، اور محقق حضرات کی کمی نہیں تو کیوں نہ ہو کہ ،،حدائقِ بخشش،، کے شعری محاسن کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے- اُنہوں نے ایسے سنگلاخ زمینوں میں مدحت مصطفیٰ کے پھول کھلائے ہیں مفاہیم و معانی کے وہ باب بپا کیے ہیں کہ ذوق عش عش کر اٹھتا ہے وجدان جھوم اٹھتا ہے ان کے یہاں فکر کی گہرائی ہے جذبوں کی سچائی ہے اور محاسن کی فراوانی ہے انہوں نے قلب کی واردات کو صوت وآہنگ کے قالب میں ڈھال دیا- نعت سنت کبریا ہے قلم و زبان کا اس راہ میں قدم رکھنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے- اس فرض سے وہی شخص بطریق احسن عہدہ بر آ ہوسکتا ہے جس کی نگاہ علم دین کے تمام شعبوں پر ہو- جو شریعت پر پوری طرح عامل ہو جو حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم سے سچی محبت رکھتا ہو اور ہمیں اس پہلو سے بھی امام احمد رضا خان قادری جیسا عالم با عمل نظر نہیں آتا امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ اُردو نعت گویوں کے بلاشبہ امام ہیں،،
(انتخاب اعلیٰ حضرت_ مطبوعہ رضوی کتاب گھر دہلی_ صفحہ نمبر/ 04 تا 05)
مذکورہ بالا عبارت کو پڑھنے کے بعد حقائق کی روشنی میں ہر ذی علم، ذی شعور، ذی فہم، ادبا و شعرا و نقاد نے آپ کی نعت گوئی کو سراہا ہے- امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ کی بارگاہ میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ہم جیسے لوگ کیا ان کی کما حقہ تعریف کر سکتے ہیں، شاعر ہی شاعروں کی مزاج دانی وفہم و فراست کو مان کر ان کے نعتیہ مجموعہ کو پڑھ کر بے ساختہ ان کی مدحت سرائی کرتا ہے- ادیب شہیر ڈاکٹر پروفیسر مسعود احمد جو بہترین قلم کار اور نقاد گزرے ہیں انہوں نے امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ کی نعت گوئی کو اپنے حسین انداز میں بیان کیا حضرتِ علامہ نعمانی انہیں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
،، امام احمد رضا خان قادری متبحر عالم دین اور بلند پایہ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ سخن فہمی وسخن سنجی اور سخن گوئی میں اپنی نظیر آپ تھے- آپ نے اس میدان میں خوب خوب داد سخن دی آپ کی نعتیں جذبات قلبیہ کا بے سروپا اظہار نہیں بلکہ آدابِ عشق و محبت کی آئینہ دار ہیں- اس حیثیت سے اُردو اَدب میں آپ نعت گو شعرا کے سراج ہیں ،،
یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہندمیں واصف شاہ ہدی مجھے شوخی طبعِ رضاکی قسم
(انتخاب اعلیٰ حضرت_ مطبوعہ رضوی کتاب گھر دہلی_ صفحہ نمبر/06)
پروفیسر جام بنارسی یوں رقم طراز ہیں: شاعری بالذات ان کا مقصد حیات نہ تھی بلکہ یہ ذریعہ تھا اس سوز دروں کے الغاس کا جس کی آگ میں ان کا وجود معنوی سلگ رہا تھا لہٰذا ان کے قلم سے نکلے ہوئے اشعار ان کے لالہ دل پر ٹپکتے ہوئے شبنمی قطرات تھے جن کی ان کو ٹھنڈک ملتی تھی وہ خود فرماتے ہیں:
ثنائے   سرکار   ہے    وظیفہ    قبول      سرکار    ہو     تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے
بلاشبہ امام احمد رضا خان قادری کا معراج نامہ اُردو نعتیہ شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اس معراج نامے میں مروجہ روش سے ہٹ کر ایک نئے انداز کا گہرہ رنگ ہے جس میں سفر معراج کی روایتی تفصیل کے بجائے ایک تاثراتی فضا پورے قصیدے پر پھیلی ہوئی ہے جس میں ساز و آہنگ کا ارتعاش روح کو بالیدگی عطا کرتاہے،،
(انتخاب اعلیٰ حضرت_ مطبوعہ رضوی کتاب گھر دہلی_ صفحہ نمبر/ 07
اس قصیدے کا اگر آپ مطالعہ کریں گے تو بہت سے معانی و مفاہیم معرض وجود میں آتے ہیں جو عام فہم انسان کے ذہن و ادراک سے کوسوں دور ہیں- لیکن امام الکلام کلام الامام کے فصاحت و بلاغت کا شعری دنیا میں کوئی جواب نہیں کہ جس کی دنیا تمثیل پیش کر سکے یہ آپ ہی کے لیے زیبا تھا کہ آپ نے اپنے حسین انداز میں حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی معراج پر ایسی نعت گوئی کا گلدستہ سجایا کہ اہل علم و شعرا ادبا ونقاد نے آپ کو فن شاعری کے اعتبار سے آپ کو اپنا پیشوا و امام تسلیم کر لیا- خود امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ اپنے لاکھوں سلام میں واقعہ معراج کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:
شبِ اسریٰ کے دولہا پہ دائم درود
نوشہ  بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام
حضرت علامہ نعمانی صاحب شاعر لکھنوی کے قلمی نقوش سے رقم طراز ہیں: امام احمد رضا خان قادری علوم و فنون کے سمندروں سے گزر کر نعت گوئی کے پل صراط پر قدم رکھتے ہیں اس لیے ان کا فکری شعور نازک سے نازک اور شدید سے شدید جذبے کو الفاظ کے ظرف میں اتارنے کے ہنر سے پوری طرح واقفیت حاصل ہے ان کے جذبے کی بے ساختگی لفظوں کے تعاقب میں نہیں پھرتی الفاظ خود بڑھ کر اور اس جذبے کو اپنی آغوش میں لے کر ان کے فکری عمل کو فنی عمل سے ہمکنار کر دیتے ہیں امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ کی نعتیہ شاعری جذبے کی پختگی کے علاوہ ایسی بے شمار فنی خوبیوں کی حامل ہے جن کی مثال اس دور کے شعرا میں بہت کم ملتی ہے- ذیل کے شعر کی جذباتی فکری اور فنی حیثیت پر غور کیجیے ایسی سنگلاخ اور سخت زمین میں ان کی فکری رسا نے جدت و ندرت کے کتنے گوشے نکالے ہیں:
طوبی میں جو سب سے اونچی نازک نکلی سیدھی شاخ
مانگو  نعت نبی  لکھنے   کو روح  قدس  سے ایسی شاخ
روح القدس سے طوبیٰ کی سب سے اونچی نازک اور سیدھی شاخ مانگنے اور اس کا قلم بنا کر نعت نبی لکھنے کی تمنا ان کی نازک خیالی، تنوع اور ندرت تفکر کا پتہ دیتی ہے امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ نعت رسول کی منزل میں اپنا مقام خوب جانتے ہیں- اُنہیں اپنے جذبہ عشق پر اعتماد ہے اس اعتماد کو وہ مختلف انداز میں اشعار کا جامہ یوں پہناتے ہیں:
اے رضا   وصف  رخ  پاک  سنانے کے  لیے
نذر دیتے ہیں چمن مرغ غزل خواں ہم کو
اے رضا جان عنادل تیرے نغموں کے نثار
بلبل     باغ     مدینہ   تیرا  کہنا  کیا ہے؟
مذکورہ بالا اشعار سے یہ ظاہر ہوتا ہے جو آپ کی مدحت سرائی میں لکھے گئے ہیں کہ نعت گوئی کے میدان میں الفاظ و بیان، فکری، پختگی، فنی عمل پیش پیش نظر آتے ہیں اور خود بڑھ کر لب بوسی و قدم بوسی کرتے ہیں جذبہ عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا نادر و نایاب ثبوت ہے اور بارگاہِ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کے نعت گو شاعر حضرتِ حسان بن ثابت رضی الله تعالیٰ عنہ جیسا فکری تخیلات بھی بھر پور آپ کی نقاشی کرہا ہے اسی شعر کے مصداق:
جب تک بکے نہ تھے تو کوئی پوچھتا نہ تھا
تم    نے    خرید   کر   مجھے انمول کر دیا
فن شاعری میں ادب و احترام فکر و تخیل کے ساتھ احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے- اس صفت میں بھی آپ کی ذات لاثانی نظر آتی ہے- ورنہ آج کل کے دور میں جسے تھوڑا سا وزن بٹھانا آگیا اور جو کسی شاعر کے بنائے ہوئے اشعار میں جوڑ توڑ کر لے وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے نہ بحروں، ردیفوں، قافیوں، تقیطع و وزنوں کا پتہ اتنے ہی میں وہ پھولے نہیں سماتے ایسی بہت سی مثالیں ہیں- لیکن بفضلہ تعالیٰ امام احمد رضا خان قادری رضی الله عنہ کی نعت گوئی کے اشعار ان تمام عیوب سے صاف و شفاف نظر آتے ہیں- بلکہ شاعری، نعت گوئی نعتیہ شاعری کے لیے جن خواص و لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے وہ تمام چیزیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں- شعری محاسن و کلام قرآن وحدیث کی روشنی میں جامع اور مرکز ومخزن نظر آتے ہیں پھر بھی اپنی انکساری کو یوں بیان کرتے ہیں:
اے  رضا    خود   صاحب  قرآں  ہے مداح  رسول
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول الله کی

از: افتخاراحمدقادری

کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com

مزید پڑھیں

اسماعیل دہلوی کے کفریات متواتر

بدلاؤ میں بقا ہے

مسلم اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کا فقدان اور نسل نو کی تباہی

شیئر کیجیے

Leave a comment