علم حدیث میں اسناد کی اہمیت و فضلیت
تحریر: شہباز احمد مصباحی(اَرْوَل)
مصطفیٰ جان رحمت ،شمعِ بزمِ ہدایت ﷺ نے حاملینِ حدیث کے لیے یوں دعا فرمائی: ” نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ “(صحیح بخاری،ص:40، کتاب العلم،باب إثم من کذب علی النبی ﷺ،رقم الحدیث: 110، مطبع: دار ابن کثیر) یعنی:اللہ عَزَّوَجَلَّ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی، پھر اسے یاد کرلیا، یہاں تک کہ دوسروں تک پہنچادیا۔
یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام میں حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن عمرو، حضرت انس بن مالک، حضرت عبد اللہ بن عمر، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور دیگر صحابہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین) نے اس فضیلت دعا کو پانے اور حکم حدیث ” بلِّغوا عنِّي ولو آيةً“ پر عمل کرنے کے لیے کثرت سے حدیثیں روایت کیں ۔ یونہی حدیث گڑھنے اور آپ کی طرف غلط بات منسوب کرنے والوں کے لیے جہنم کے عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے: مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ. جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ (مرجع سابق) یہ ارشاد پاک اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ روایت حدیث میں نہایت احتیاط برتی جائے، اسی سبب سے بہت سے کبار صحابہ مثلاً: حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اعظم، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہم وغیرہ سے بہت کم احادیث کی روایات ملتی ہیں ۔
دور تابعین میں محدثین کرام نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ تبلیغِ حدیث کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اس کے لیے وقف کردیں، مال دولت، زمین جائیداد سب کچھ قربان کردیا ۔سینکڑوں میل سفر کی مشقتیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیں ۔ اسی طرح تبلیغ حدیث کے باب میں کچھ منفی اثرات بھی سامنے آئے، وہ یہ کہ بعض لوگوں نے اپنے مذہب و مسلک کی تائید، صلاح و تقوی کی طرف منسوب بعض افراد نے نیکی و بدی کی ترغیب و ترہیب اور کچھ اسلام دشمن عناصر نے اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنے کے لیے رسول اکرم ﷺ پر ہزاروں احادیث گڑھیں، ایسے حالات میں صحیح احادیث کو غیر صحیح سے ممتاز کرنے کے لیے علم اسناد، اسماء الرجال اور جرح و تعدیل جیسے عظیم الشان علوم و فنون کا وجود ہوا ۔آئیے! ہم علم اسناد سے متعلق چند باتیں بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
سند کی لغوی تعریف: سہارا، بھروسا، معتمد۔
اصطلاحی تعریف:
هُوَ سِلْسِلَةُ الرِّجَالِ الْمُوصِلَةُ لِلْمَتْنِ. رجال کا وہ سلسلہ جو متن تک پہنچانے والا ہوتا ہے ۔
وجہ تسمیہ: سند کو سند اس لیے کہاجاتا ہے کہ متن کی اس کی طرف نسبت ہوتی ہے اور اس پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔ (تیسیر مصطلح الحدیث ،ص: 10، مطبع: مکتبۃ المدینہ)
اسناد، امت مسلمہ کی خصوصیات سے ہے:
علم اسناد امت مسلمہ کا طرۂ امتیاز ہے ۔ حدیث رسول کی حفاظت و صیانت کے لیے یہ علم وجود میں آیا ۔ انسانی تاریخ میں امت مسلمہ کے سوا کوئی قوم اور امت ایسی نہیں کہ جن کے یہاں یہ علم موجود ہو، لہٰذا ایک مسلمان کو احادیث و اخبار نقل کرتے ہوئے سند کا خوب اہتمام کرنا چاہیے ۔ امام ابوبکر محمد بن احمد رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: بَلَغَنِي أَنَّ اللَّهَ خَصَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ بِثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ، لَمْ يُعْطِهَا مَنْ قَبْلَهَا الْإِسْنَادِ وَالْأَنْسَابِ وَالْإِعْرَابِ۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اللہ پاک نے اس امت کو تین چیزوں کے ساتھ خاص کیا ہے، جو اس سے قبل کسی امت کو نہیں دی گئیں: (1)علم الإسناد (2) علم الانساب (3) اور علم الاعراب ۔ (فتح المغیث، ج:3،ص :345،مطبع: مکتبہ دارالمنھاج، بالرياض)
امام عبد اللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْقَوَائِمُ: یَعْنِي الِاسْنَادَ۔ یعنی : ہمارے (محدثین) اور دوسرے لوگوں کے درمیان قابل اعتماد چیز اسناد ہے ۔(مقدمہ مسلم، ص: 19، مطبع: دارالکتاب العربی)
اسناد کی اہمیت :
امام ابوعبد اللہ الحاکم رقم طراز ہیں: اگر اسناد نہ ہوتی، محدثین کرام اس کی طلب اور اس کی حفاظت و صیانت کا مکمل اہتمام نہ فرماتے تو مینارۂ اسلام منہدم ہوچکا ہوتا ، ملحدین اور بدعتیوں کو حدیثیں گڑھنے اور اسانید کو الٹ پلٹ کرنے پر قدرت ہوجاتی؛ کیوں کہ احادیث جب اسانید سے خالی ہوں گی تو وہ بے اعتبار ہوکر رہ جائیں گی ۔ (معرفۃ علوم الحدیث ،ص : 115)
امام عبد اللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: الِاسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ لَوْ لَاالِاسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاء مَا شَاء ۔ یعنی سند بیان کرنا دین کا حصہ ہے، اگر اسناد نہ ہوتی توجس کے دل میں جو آتا کہتا۔ (مقدمہ مسلم، ص: 19، مطبع: دارالکتاب العربی)
اسناد کی طلب اور فن اسماء رجال کا وجود
خلیفۂ ثالث، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب اختلاف و انتشار رونما ہوا تو سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں، جو بعد میں فرقے کی شکل اختیار کرلیں ۔ بعض لوگ موقع غنیمت سمجھ کر شیرازۂ اسلام کو منتشر کرنے کے درپے ہوئے اور شریعت اسلامیہ کے مصدر ثانی (احادیث طیبہ) میں خرد برد کرنی شروع کردی ۔ ہزاروں احادیث وضع کی گئیں، جن میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرایا گیا ۔ دور تابعین کے آغاز میں اس فتنے کی سرکوبی کے لیے اجلۂ محدثین کمر بستہ ہوئے، جنھوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ۔ یہ محدثین عدالت و ثقاہت، صداقت و امانت، حفظ و اتقان اور زہد و ورع میں اپنی مثال آپ تھے ۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہم جب بھی کسی سے کوئی حدیث سنیں تو اس سے سند کا مطالبہ کریں اور اس سند کے رجال کی مکمل تحقیق و تفتیش کریں۔ ابتدائی دور میں تو یہ کام بڑا دشوار گزار تھا،مگر محدثین نے اس موقع پر جس جانفشانی کا مظاہرہ کیا ہے وہ تاریخ کے سنہرے اوراق میں درج ہیں ۔ انھوں نے رجال کے طبقات بناکر ان کے مراتب متعین کیے، باقاعدہ اس فن میں کتابیں تصنیف کیں، جن میں لاکھوں راویوں کے احوال زندگی، نام و نسب، شیوخ وتلامذہ، عدالت و ثقاہت، تقویٰ و پرہیز گاری وغیرہ، ہر اعتبار سے ریکارڈ موجود ہے ۔ مشہور تابعی بزرگ، سیدنا امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنِ الْإِسْنَادِ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ، قَالُوا:سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ، فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ، وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ۔ یعنی پہلے لوگ اسناد کے پیچھے نہیں پڑتے تھے، لیکن جب دین میں فتنہ رونما ہوا تو لوگوں نے کہا: اپنی اپنی سندیں بیان کرو، لہٰذا جس حدیث کی سند میں اہل سنت سے راوی دیکھتے تو حدیث لے لیتے اور اگر بدعتی راوی دیکھتے تو چھوڑدیتے۔ (مرجع سابق)
اسناد مومن کا ہتھیار ہے:
حضرت امام سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: الَإسْنَادُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ , فَإِذَا لَمْ يَكُنْ مَعَهُ سِلَاحٌ , فَبِأَيِّ شَيْءٍ يُقَاتِلُ ؟ یعنی : اسناد، مومن کا ہتھیار ہے، جب اس کے پاس ہتھیار ہی نہیں ہوگا تو وہ کس چیز سے جنگ لڑے گا ۔( کتاب المجروحین، ص:31)
امام شعبہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ہر وہ حدیث جس میں ”حدثنا، حدثنا “ نہ ہو، وہ اس مرد کی طرح ہے جو چٹیل میدان میں اونٹ کے ساتھ تو موجود ہو، مگر اس کا لگام ہاتھ میں نہ ہو ۔ (مرجع سابق)
عالی سند کی فضیلت:
حضرات محدثین کے نزدیک علو اسناد بہت مرغوب تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صحت اورقلت خطا کے زیادہ قریب تھی۔ کیوں کہ سند کے ہر راوی سے خطا ممکن ہے، اس لیے رواۃ جتنے زیادہ ہوں گے سند اتنی ہی طویل ہوگی، جس میں خطا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور راوی جتنے کم ہوں گے امکان خطا اتنا ہی کم ہوتا ہے ۔
سیدنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :” طلبُ الإسنادِ العالی سُنَّۃٌ عمن سلف“۔ اسلاف کے نزدیک سند عالی کی طلب سنت ہے ۔ امام الجرح والتعدیل، امام یحییٰ بن معین مری حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بارگاہ میں ان کے مرض وصال میں عرض کیا گیا: آپ کو کس چیز کی خواہش ہے؟ جواب ملا: خالی گھر اور عالی سند (مقدمہ ابن الصلاح، ص: 151، مطبع : مؤسسۃ الرسالۃ ناشرون)
زاہد ،عالم محمد بن اسلم طوسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے: سند کا قرب اللہ رب العزت کا قرب ہے ۔ (مرجع سابق)
علو اسناد کی تلاش میں سفر:
سند کی دو قسمیں ہیں: (1) سند عالی (2) سند نازل ۔
”سند عالی“ اس سند کو کہا جاتا ہے جس میں راویوں کی تعداد دوسری سند کے راویوں نسبت کم ہو اور” سند نازل“ وہ ہے جس میں راویوں کی تعداد دوسری سند کی نسبت زیادہ ہو ۔
( تیسیر مصطلح الحدیث ،ص: 225، مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع، ریاض)
(سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں) سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اصحاب کوفہ سے مدینہ منورہ کا سفر کرتے تھے تاکہ اس حدیث کی سماعت براہ راست سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کریں، اسی لیے طلب حدیث کے سلسلے میں سفر کو مستحب کہا گیا ۔ کئی صحابہ نے علو اسناد کی تلاش میں سفر کیا، جن میں میزبان رسول سیدنا ابوایوب انصاری اور جابر رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی شامل ہیں(مرجع سابق)
حضرت امام حافظ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے عرض کیا گیا: ” اَیرحل الرجل فی طلب العلو؟ ” کیا کسی نے علو اسناد کی طلب میں سفر کیا ہے؟ ارشاد فرمایا : کیوں نہیں، بخدا! معاملہ اس سے بھی سخت تر ہے، امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث حضرت سیدنا علقمہ اور سیدنا اسود رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما تک پہنچی، ان دونوں نے اس پر قناعت نہیں کی، بلکہ اس کی سماعت کے لیے بارگاہ فاروقی میں حاضر ہوگئے ۔
ان دونوں جلیل القدر، تابعی بزرگان دین نے سر زمین عراق سے شہر مدینہ منورہ کے ایک ماہ کا سفر صرف اس لیے برداشت کیا تا کہ براہ راست حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیث کی سماعت کرلیں۔ ( الرحلۃ فی طلب الحدیث للخطیب بغدادی،ص:197)
کیا کوئی سند اصح الاسانید ہوسکتی ہے؟
کسی سند کے بارے میں اصح الاسانید (تمام سندوں میں سب سے زیادہ صحیح) کا قول کیا جاسکتا ہے یا نہیں، اس بارے میں محدثین کا اختلاف ہے، بعض اس کے قائل ہیں ۔ سیدنا امام جلال الدین سیوطی شافعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: مذہب مختار یہ ہے کہ کسی سند کے بارے میں جزمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اصح الاسانید ہے، وجہ یہ ہے کہ صحت کے مراتب کا تفاوت اسناد میں صحت کی شرطوں کے پائے جانے پر مرتب ہوتا ہے اور قبول کے اعلیٰ درجات کا وجود اسناد کے رجال میں سے ہر ایک میں جو ایک ہی ترجمہ میں موجود ہو، بہت کم ہے ۔ (تدریب الروای، ص: 52 ،مطبع: دارالکتب العلمیہ بیروت)
اللہ پاک کی محدثین کرام پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔ (آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)
تحریر: شہباز احمد مصباحی(اَرْوَل)
جامعۃ المدینہ–– پڑاؤ ،بنارس