بربادی گلستاں کا حال کوئی بلبل سے پوچھے

بربادی گلستاں کا حال کوئی بلبل سے پوچھے

Table of Contents

بربادی گلستاں کا حال کوئی بلبل سے پوچھے
بربادی گلستاں کا حال کوئی بلبل سے پوچھے

بربادی گلستاں کا حال کوئی بلبل سے پوچھے

تحریر: محمد شاداب رضا مصباحی

ہمارا ملک ہندوستان نہایت ہی کس مپرسی کے حالات سے گزر رہا ہے، روز بروز ملکی واقتصادی زبوں حالی کا شکار ہو رہا ہے، شر پسند جماعتوں اور نفرت انگیز میڈیائ طاقتوں کی کارستانیوں سے ہمارے وطن عزیز کی فضا مسموم ہو رہی ہے. یہ طاقتیں ہندوستانیوں کے اندر مذہب و ذات کے نام پر نفرت پھیلانے کا کام کر رہی ہیں. یہ لوگ ملک کی فضا مکدر کرنے کے لیے کوئی بھی نہیں مواقع چھوڑتے، بلکہ بعض جگہ یہ خود ساختہ مواقع پیدا کر لیتے ہیں.

ابھی حالیہ دنوں میں سی ڈی ایس انڈین آرمی کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت ہو گئی. جس سے سارے ملکیوں کو ایک بڑا دھچکا لگا اور افسوس ہوا، اور ہونا بھی چاہیے. لیکن اس موقع پر بھی شر پسند جماعتوں نے ایک جماعت کے خلاف نفرت گھولنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا، بلکہ نفرتی اور آتشی ماحول بنانے کے لیے حد درجہ مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا.

سی ڈی ایس جنرل بپن راوت کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کے درد بھرے بیانات اور تبصرے آنے لگے. وہیں کچھ تبصرے ایسے بھی تھے جو بعض جذباتی نوجوانوں کو برانگیختہ کر رہے تھے. نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں طرف سے سوشل میڈیا پر بیان بازی اور الفاظ کی شعلہ انگیزی ہونے لگی، طرح طرح کے نعرے لگنے شروع ہوئے، اور موقع پرست طاقتیں جو اسی انتظار میں رہتی ہیں انہوں نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام شروع کردیا اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہو کر ہمارے ملک کی موجودہ زہر آلود فضا میں مزید اضافہ کیا.

یہی نفرتی ماحول متھرا کی شاہی مسجد کے لیے بھی پیدا کیے جا رہے ہیں. ہر جمعہ کو وہاں دل خراش نعرے بازیاں ہو رہی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے کا کام کیا جا رہا ہے. شر پسند جماعتوں کی دلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ نفرت کی آگ برابر لگی رہے، کبھی بجھنے نہ پائے، اسی سے انہیں اپنے ایجنڈے میں کامیابی ملتی ہے، اور ان کی دلی حسرتیں پوری ہوتی ہیں، بربادی گلستاں کا حال کوئی بلبل سے نہیں پوچھتا ہے. کسی کے چمن ویران ہو جانے سے دوسروں کو احساس تک نہیں ہوتا ہے، سب اپنے فائدے سمیٹ کر رفو چکر ہو جاتے ہیں. بسا اوقات یہی نفرت آمیز کلمات و نعرے فرقہ وارانہ فسادات کا شاخسانہ ہوتے ہیں، جن کا خمیازہ کئی والدین اپنے جگر پارے کو کھو کر بھگتتے ہیں، نہ جانے کتنی عورتوں کے سہاگ اجڑ جاتے ہیں، کتنے بچے اپنے والد کے سایہ شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں، وہ لوگ جو اپنوں کو ناز و نعمت سے پالتے ہیں اور مستقبل میں بہت ساری امیدیں ان سے وابستہ ہوتی ہیں ان کی ساری امیدیں خس و خاشاک ہو جاتی ہیں، نہ جانے کتنے نوجوان جن سے گھر، خاندان، معاشرہ اور ملک کو ترقی و بھلائی کی امیدیں ہوتی ہیں وہ ان کی امیدیں پوری کرنے سے تو رہے الٹا خار بن کر سب کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور ملک و معاشرے کیلئے ناسور بن جاتے ہیں. ظاہر سی بات ہے کہ ایک ایسا انسان جسے صرف نفرت و کدورت کا جام پلایا گیا ہو وہ اپنوں سے بھی محبت نہیں کر سکتا ہے. آزادی ہند کے بعد جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں، ان کے انجام فوراً یا دیر سے ہی سہی کف افسوس مل کر ہی ہوئے ہیں. یعنی بعد میں ان میں کسی طرح بھی شریک ہونے والے کے دلوں میں ندامت و پشیمانی کا احساس ہوا ہے. اور اگر وہ احساس ندامت کا اظہار نہیں کرتے تو ان کا ضمیر ہمیشہ ان پر ملامتیں کر رہا ہوتا ہے. جب فصلیں جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں تب پانی کی بارشیں کی جاتی ہیں ، ان سے کیا فائدہ؟ فائدہ تو جب ہی ہوگا جب پانی چشمہ کی صورت میں بہے تو اسی وقت بند باندھ دیا جائے ورنہ سیلاب آجانے کی صورت میں پانی پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے.

ایسے پر آشوب ماحول میں ہمارے نوجوانوں کو بلکہ ہر امن پسند ہندوستانی کو اپنے ملک کے موجودہ حالات و مواقع کو سمجھنا ہوگا، اور انہیں اپنے جذبات پر بھی قابو رکھنا ہو گا. ہم جذباتی ہو کر کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے ہماری آپسی بھائی چارگی متاثر ہو اور ہمیں جانی ومالی نقصانات اٹھانے پڑیں . ہر ہر قدم پر احتیاط کی ضرورت ہے. دعا ہے کہ ہمارے ملک کے کسی بھی حصے میں ایسے ناگفتہ بہ حالات پیدا نہ ہوں جن کی زد میں کوئی ہندوستانی فرد آئے، اور کسی کی قسمت کا ستارہ گردش میں آئے. دشمن اپنے ہر منصوبے میں ناکام و نامراد ہو اور ہمارے ملک کی بے قرار فضا میں پر امن بہار آئے.

تحریر: محمد شاداب رضا مصباحی

البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ

 

مزید پڑھیں

اِمام!کی محبت مسجد سے، اِنتظامیہ کی محبت امام!سے

کتابیں پڑھنے والا انسان ایک زندگی میں سو زندگی جی لیتا ہے

مساجد اور ائمۂ مساجد کا احترام دینی واخلاقی فریضہ

حضور حجۃ الاسلام اور قانون تحدید عمر ازدواج

شیئر کیجیے

Leave a comment