حافظ الحدیث علامہ حکیم قادر بخش سہسرامی
طفیل احمد مصباحی
سر زمینِ سہسرام زمانۂ قدیم سے علم و حکمت اور معرفت و روحانیت کا مرکز رہی ہے ۔ یہاں کی خاک سے بڑے بڑے اساطینِ علم و روحانیت اور اصحابِ فضل و کمال آفتاب و ماہتاب بن کر نمو دار ہوئے اور اپنی علمی و روحانی شعاؤں سے ملک کے ذرے ذرے کو منور بنایا ۔ صوبۂ بہار کا یہ با برکت خطہ دینی علوم و فنون کے علاوہ نظم و نثر اور شعر و ادب کے معاملے میں بھی کافی نمایاں رہا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں کے کنکر پتھر بھی شاعری کرتے ہیں ۔ کتاب ” رجالِ سہسرام ” میں راقم کے دعویٰ کی صداقت ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ مادرِ سہسرام نے جن نام ور جیالوں کو وجود بخشا ،
ان میں ایک اہم نام حافظ الحدیث حضرت علامہ الحاج حکیم قادر بخش محدث سہسرامی ( متوفیٰ : 1340 ھ ) کا بھی ہے ۔ آپ ایک جلیل القدر عالم و فاضل ، مایۂ ناز محدث ، ہر دل عزیز خطیب ، کامیاب مصنف اور قادر الکلام شاعر تھے ۔ ” عاصی ” تخلص تھا ۔ ” حافظ الحدیث ” حافظِ احادیثِ کثیرہ ” اور ” طوطیِ ہند ” کے لقب سے ملقب تھے ۔ آپ مجددِ اسلام ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی کے معاصر اور عاشقِ صادق تھے ۔ والد کام نام مولانا حکیم حسن علی حسن سہسرامی ہے ، جو اپنے وقت کے جید عالم و فاضل ، ممتاز ادیب و شاعر اور طبیبِ حاذق تھے ۔
حضرت علامہ قادر بخش سہسرامی 1272 یا 1273 ھ میں پیدا ہوئے ۔ عربی و فارسی کی ابتدائی کتب اور علمِ طب اپنے والدِ گرامی سے پڑھا ۔ بعد ازاں مدرسہ خانقاہ کبیریہ ، سہسرام میں داخلہ لیا اور وہاں کے جلیل القدر اساتذہ سے متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد لکھنؤ گئے اور حضرت علامہ عبد الحئ فرنگی محلی و حضرت علامہ محمد نعیم فرنگی محلی سے معقولات و منقولات کی منتہی کتب پڑھ کر سندِ فراغت حاصل کی اور خصوصیت کے ساتھ حضرت علامہ الحاج حافظ عبد الرحمٰن محدث پانی پتی سے علومِ حدیث میں اکتسابِ فیض کیا ۔ علاوہ ازیں حضرت علامہ سید احمد زینی دحلان مکی سے بھی سندِ حدیث حاصل کی ۔ جامعِ شریعت و طریقت حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی علیہ الرحمہ کے مرید ہوئے اور بعد میں اجازت و خلافت سے نوازے گئے ۔ ” تذکرہ علمائے اہل سنت ” میں آپ کو قطب العصر حضرت مولانا شاہ عبد اللطیف ستھنی علیہ الرحمہ کا مرید و خلیفہ بتایا گیا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب !
آپ نہایت ذہین ، ذکی ، صاحبِ فکر و تدبر اور قوی الحافظہ عالم و خطیب تھے ۔ خدا نے آپ کو غیر معمولی قوتِ یاد داشت عطائی فرمائی تھی ۔ جو کتاب ایک بار پڑھ لیتے ، اس کے مباحث ہمیشہ کے لیے ذہن کی اسکرین پر نقش ہو جاتے اور وقت ضرورت کتاب کے صفحات اور سطر تک بتا دیتے ۔ ” رجالِ سہسرام ” میں لکھا ہے کہ ایک بار آپ راستہ بھول گئے ، راہبر کی تلاش تھی ۔ دریں اثنا حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور آپ کی رہنمائی فرماتے ہوئے دعاؤں سے نوازا ۔ اس دعا کے طفیل اللہ رب العزت نے آپ کی قوتِ حافظہ میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ جس کتاب کی جس عبارت کو ایک بار بغور پڑھ لیتے تھے ، وہ آپ کو حفظ ہو جاتی تھی ۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ سہسرام کی ایک مسجد میں ختمِ تراویح سنانے کے لیے حافظ صاحب وقت پر نہ آ سکے ، علامہ قادر بخش سہسرامی نے اہلِ محلہ سے روزانہ ایک پارہ حفظ کر کے تراویح سنانے کا وعدہ کر لیا اور آپ نے ایک ایک پارہ کر کے نصف قرآن تراویح سنا دیا ۔ جب حافظ صاحب تشریف لے آئے تو آپ رک گئے ۔
( رجالِ سہسرام ، ص : 328 ، ناشر : خدا بخش لائبریری ، پٹنہ )
حضرت علامہ قادر بخش سہسرامی کی محدثانہ عظمت اور مہارتِ علم حدیث کا ایک جہاں قائل ہے ۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں :
مولانا قادر بخش سہسرامی کے دیکھنے والے تو شاید اب بھی موجود ہوں گے ، جو صحاح ( بخاری و مسلم ، ترمذی و ابی داؤد وغیرہ ) کے ورق ورق زبانی سناتے چلے جاتے تھے ۔ بخاری کی حدیثیں سند کے ساتھ بیان کر کے فتح الباری ( شرحِ بخاری ) ، عینی ( عمدۃ القاری ) وغیرہ شروح کی عبارتیں تک مولانا زبانی سناتے تھے ۔
( ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت ، جلد اول ، ص : 196 ، مطبوعہ : مکتبۃ الحق ، جوگیشوری ، ممبئی )
مصنفِ ” رجالِ سہسرام ” حاذق ضیائی لکھتے ہیں :
( الف ) آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا حافظ حاجی عبد الرحمٰن صاحب محدث پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے ، جن سے خصوصیت کے ساتھ فنِ حدیث کی تعلیم پائی اور انجام کار خود بھی ” حافظ الحدیث ” کے نام سے مشہور ہوئے ۔
( ب ) مولانا ( قادر بخش سہسرامی ) کو اپنی زندگی میں زیارتِ حرمین شریفین کا بھی موقع ملا ۔ مشہور ہے کہ جب انہوں نے بیت اللہ شریف وغیرہ میں عربی زبان میں متعدد تقریریں کیں تو علمائے عرب نے بھی ان کے محدثانہ تبحر و کمال کی داد دی ۔
( رجالِ سہسرام ، ص : 326 / 327 ، مطبوعہ : خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ، پٹنہ )
تصنیفی خدمات :
حضرت علامہ قادر بخش محدث سہسرامی بیک وقت متعدد اوصاف سے متصف تھے ۔ عالم و فاضل ، مقرر و واعظ ، حکیم و طبیب ، ادیب و شاعر اور مصنف و مؤلف تھے ۔ صاحبِ نزھۃ الخواطر ( الاِعلام بمن فی تاریخ الھند من الاَعلام ) نے تعارف و تذکرہ کے ساتھ آپ کے مندرجہ ذیل کتب و رسائل شمار کرائے ہیں :
الشیخ العالم الفقیہ قادر بخش بن حسن علی الحنفی السھسرامی احد العلماء المذکرین ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ و من مصنفاتہ :
( 1 ) التقریر المعقول فی فضل الصحابۃ و اہل بیت الرسول ۔
( 2 ) الاربعین فی اشاعتِ مراسم الدین ۔
( 3 ) ضرب القادر علیٰ رقبۃ الواعظ الفاجر ۔
( 4 ) رفع الارتیاب عن المغترین بشرف بشرف الانساب ۔
( 5 ) غایۃ المقال فی رویۃ الھلال ۔
( 6 ) تحفۃ الاتقیاء فی فضائل آل العبا ۔
( 7 ) جور الاشقیاء علیٰ ریحانۃ سید الانبیاء
( الاِعلام بمن فی تاریخ الھند من الاَعلام ، ص : 1331 ، مطبوعہ : دار ابن حزم ، بیروت )
” التقریر المعقول ” 168 / صفحات پر مشتمل ہے اور اپنے موضوع پر نہایت عمدہ اور محقق و مدلل کتاب ہے ۔ مولانا محمد ادریس نگرامی کے بقول : مؤلف کے مطالعہ میں رسالہ تقریرِ معقول گذرا ہے ، فی الواقع بہت محقق و مدلل ہے ۔
( تذکرہ علمائے حال ، ص : 67 ، مطبوعہ : منشی نول کشور ، لکھنؤ )
مولانا قادر بخش سہسرامی کی دو اہم تصنیف ” کتاب الاربعین فی اشاعتِ مراسم الدین ” اور ” التقریر المعقول فی فضل الصحابۃ و اہل بیتِ الرسول ” کا نمونۂ نثر بالتربیب ملاحظہ فرمائیں ، جسے ڈاکٹر سید مظفر اقبال گیاوی ثم بھاگل پوری نے اپنی تحقیقی کتاب ” بہار میں اردو نثر کا ارتقا ” میں نقل کیا ہے ۔
الف :
فضائل تلاوتِ قرآن کے احادیث میں بکثرت وارد ہیں ۔ ترمذی نے روایت کی ہے کہ جو شخص ایک حرف قرآن کا پڑھے گا ، ہر چند کلمہ و لفظ پورا نہ ہو ، ایک نیکی اس کے حق میں لکھی جائے گی اور ادنیٰ ثواب نیکی کا دہ گونہ ( دس گنا ) ہوتا ہے ۔ پس ایک حرف قرآن کا پڑھنا مستوجب ( حق دار ) دس نیکیوں کا بلا تامل ہوتا ہے ۔
( ب ) حضرتِ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت اصرار کیا ضرار سے کہ تم صفاتِ حضرت علی بیان کرو ۔ جب وہ اصرار سے معذور ہوئے تو کہنے لگے کہ حضرتِ علی واسع العلوم و المعارف یعنی علم و معرفت بہت وسیع رکھتے تھے کہ آپ کے علم و معرفت کی غایت ، دریافت سے ہم لوگوں کے باہر تھی ۔ دین کی تائید میں شدید القویٰ تھے ۔ کلام آپ کا فاصلِ حق و باطل ہوا کرتا تھا ۔ حکم کرتے تھے ساتھ انصاف کے ۔ جاری تھے چشمے علم کے آپ کی ہر جانب سے اور باتیں حکمت و دانش مندی کی آپ کے ہر ناحیہ سے یعنی تمام اعضا و جوارح آپ کے منبعِ علم و حکمت تھے ۔ گھبراتے تھے آپ دنیا اور اس کی تازگی سے ۔ انس رکھتے تھے رات اور تاریکی سے اس کی ۔ جاری رہتا تھا اکثر اشک آپ کی آنکھوں سے بخوفِ خدا ۔ اکثر آپ متفکر رہا کرتے تھے ۔
( بہار میں اردو نثر کا ارتقا ، ص : 130 / 131 ، ناشر : کتاب خانہ ، ترپولیا ، پٹنہ )
آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ کھگڑہ ، ضلع پورنیہ ، بہار میں گذرا ۔ آپ پیری مریدی بھی کرتے تھے ۔ ضلع پورنیہ میں آپ کا قائم کردہ خانقاہ بھی ہے ۔ صوبۂ بہار کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی آپ کے مریدین تھے ۔ آپ تا دمِ حیات درس و تدریس ، وعظ و تقریر ، تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف رہے اور قال اللہ و قال الرسول کی صدائے دل نواز سے دلوں کو گرماتے رہے ۔ آپ ہر سال شبِ معراج کے موقع پر ایک صاحب کے گھر تقریر کیا کرتے تھے ۔ تقریر کی تیاری میں مشغول تھے کہ چیچک کے دانے نکل آئے ۔ بایں ہمہ دین کی تبلیغ سے باز نہ آئے ۔
معراج شریف کے عنوان پر آپ زور دار آواز سے تقریر کر رہے تھے کہ دریں اثنا آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ” تذکرہ علمائے اہل سنت ” میں آپ کا سنِ وفات شعبان 1337 ھ لکھا ہے ۔ موروثی قبرستان میں تالاب شیر شاہ سوری سے پورب ٹریننگ اسکول ، سہسرام سے متصل بجانب شمال ایک احاطہ میں آپ کا مزار ہے ۔ آپ کے لوحِ تربت پر حضرت علامہ فرخند علی فرحت سہسرامی ( بانی مدرسہ خیریہ نظامیہ ، سہسرام ) کا تحریر کردہ قطعۂ وفات درج ہے ۔ بعدِ وصال ایک بزرگ نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ جنت میں ایک تخت پر جلوہ افروز ہیں اور ہزاروں افراد کے ہجوم میں معراج کے عنوان پر تقریر کر رہے ہیں ۔ سبحان اللہ و بحمدہٖ سبحان اللہ العظیم ۔