حافظ ملت تدریس کی روشنی میں
ہم سے جمالِ یار کی تابندگی نہ پوچھ
ہم تو بتانے والوں پہ قربان ہو گئے
از قلم : محمد معین الحق و ثیقی مصباحی
استاذ مدرسہ اسلامیہ برکت العلوم نواری بازار ، جہاں گیر گنج ، امبیڈ کر نگر
موبائل نمبر : 9452930618
تاریخ عالم کے مطالعے سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ قدرت کی بساط تخلیق پر ہمیشہ کچھ نہ کچھ ایسے نقوش ابھرے ہیں جو خود تو کسی دور کی پیداوار نہیں ہوتے لیکن ان سے ایک عہد جنم لیتا ہے انہیں عبقری اشخاص میں شہنشاہ علم و حکمت، چاره ساز قوم و ملت ، استاذ العلما، جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی قدس سرہ العزیز بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور بھی ہیں، جن کی پوری زندگی علم و عرفان سے معمور اور گم گشتگان راہ کے لیے مینارۂ نور ، جن کا وجود مسعود طالبان علوم دینیہ کیلئے قلب و جگر کا سرور تھا چنانچہ ہم جب آپ کی علمی و عملی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو حیات پاک کے مختلف اہم گوشے ابھر کر سامنے آتے ہیں جن کی عطر بیزیوں سے ہر قاری کی مشام جاں معطر ہو جاتی ہے ؛ لہذا میں آپ کی تصنیفی و تدریسی خدمات پر خامہ فرسائی کی جرات کر رہا ہوں آپ کی خدمات دینیہ کو رخسار قرطاس پر ثبت کرنے سے پہلے ممدوح علیہ الرحمہ کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تاکہ آنے والی تحریر سے آپ کی ذات وصفات اور خدمات عالیہ سے اچھی طرح روشناسی ہو سکے۔
ولادت:
حافظ ملت علامہ شاه عبد العزیز قدس سرہ مراد آباد ضلع کے ایک مشہور قصبہ بھوجپور میں ١٣١٤ھ مطابق ١ 1894 ء کو پیدا ہوئے اور آپ نے مادری مہر بانیوں اور پدری شفقتوں میں پل کر شباب کی دہلیز پر قدم رکھا ، تو آپ کی اعلی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا چونکہ آپ کے والد ماجد حضرت حافظ غلام نور صاحب بہت ہی سیدھے سادھے دیندار انسان تھے اس لئے انہوں نے اپنی ہی طرح پہلے حضرت حافظ ملت کو حفظ قرآن کرایا پھر آپ نے کچھ ابتدائی تعلیم حاصل کی جلد ہی تنگدستی کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا مگر آپ کی خوش بختیوں کا ستارہ اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ طلوع تھا کہ اسی عالم میں آل انڈیا سنی کانفرنس ALL INDIA SUNNI CONFERENCE کا انعقاد ہوا آپ کو حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ عبقری میں زانوئے ادب طے کرنے کا موقع میسر ہوا آپ نے صدرالشریعہ سے مزید تعلیم کی خواہش ظاہر کی حضرت نے از راہ شفقت و عنایت آپ کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا آپ حضرت صدرالشریعہ کے علمی فیضان سے شاد کام ہونے کیلئے مدرسہ معینیہ عثمانیہ (احاطۂ نور ) اجمیر معلیٰ پہونچ گیے اور دیار غریب نواز میں حاضر ہو کر علم وادب کے آب زلال سے خوب سیرابی حاصل کی ۔ آپ نے بارگاہ خواجہ غریب نواز اور صدر الشریعہ کی شفقت میں رہ کر بڑی جانفشانی و عرق ریزی اور دلسوزی سے تعلیم کی تکمیل کی۔
مبارک پورمیں تشریف آوری:
جب آپ کا دور طالب علمی ختم ہوا تو حضرت صدرالشریعہ نے ضلع اعظم گڑھ (یوپی) کے ایک غیر معروف قصبہ مبارک پور کے "مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم” (میں خدمت تدریس کے لیے)گلشن کی منبت کاری کے لئے آپ کا انتخاب فرمایا ، آپ اپنے ہمراہ گلستان رضا کے چند گل تر (طلبہ) لے کر ٢٩ شوال ١٣٥٢ھ مطابق ١٤ جنوری ۱۹۲۳ء کو مبارک پور تشریف لائے۔(صدر الشریعہ حیات وخدمات باب تلامذۂ صدرالشریعہ صفحہ ٤٠٢)
سب سے پہلے آپ نے مدرسے کا نظم ونسق اور تعلیمی سلسلہ درست اور مضبوط کیا تو یہ کام کچھ شر پسندوں کو اچھا نہ لگا مگر آپ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے یہاں تک کہ اس کار خیر سے باز رکھنے کیلئے مخالفتوں و رکاوٹوں کا ایک سیلاب امنڈ پڑا، نیز معاندین و مخالفین نے بڑی افترا پردازی اور ملمع سازی سے کام لیا اس راہ میں بڑی ریشہ دوانی کی مگر آپ ہیں کہ دین کا کام بڑی لگن اور دلجمعی سے کرتے رہے خود آپ گوہر افشانی کرتے ہیں۔ ” میرے نزدیک ہر مخالفت کا جواب کام ہے " ( ارشاد حافظ ملت )
علم کی پھلواری:
حافظ ملت نے اہل مبارک پور کو ایک وسیع دینی درسگاہ کے قیام کی ضرورت کا احساس دلایا تو مبارک پور کے بعض صاحبان خیر نے گولہ بازار میں مدرسے کے قیام کیلئے زمین فراہم کی جب آپ نے گولہ بازار میں مدرسہ قائم کر دیا تو چند سالوں کے بعد وہاں بھی طلبہ کی کثرت سے جگہ تنگ ہو گئی پھر آپ نے اپنی دور اندیشی اور مستقبل شناسی سے قصبہ کے باہر زمین کا انتظام کیا اور چند سالوں کے بعد الجامعۃ الاشرفیہ کا قیام عمل میں آیا جو آج مجوزہ عربی یونیورسٹی کی شکل میں نگاہوں کے سامنے ہے بے شک یہ سب آپ کے خوابوں کی حسین تعبیر ہے۔
تدریس:
درس و تدریس کا مشغلہ بہت سی افادیت کا حامل ہوتا ہے اس میدان میں اچھے اچھے بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں کیوں کہ اس میدان میں صاحب صلاحیت ، ذی استعداد افراد درکار ہوتے ہیں خطیب و مقرر تو بہت نظر آئیں گے مگر نباض و حاذق مدرس بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن حافظ ملت قدس سرہ ایسی شخصیت کے مالک تھے جو دل پزیر خطیب و بے باک مناظر کے ساتھ ساتھ ایک ماہر مدرس اور شفیق استاد بھی تھے اور کیوں نہ ایک عظیم مدرس ہوتے جب کہ آپ کو صدر الشریعہ سے نسبت تلمذ حاصل تھا۔ آپ نے اپنے استاد محترم سے خوب خوب سیرابی حاصل کی تھی۔ اور صدر الشریعہ نے بھی آپ کوتدریس کا ملکہ عطا فرما دیا تھا ۔
میں آفتاب علم کی کچھ کرنوں کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ حضرت حافظ ملت کی تدریسی مہارت عیاں ہو جائے ۔ میں تو یہ کہوں گا کہ میدان کے کسی رخ سے بھی آپ کے علمی مقام ومرتبے کو دیکھا جا سکتا ہے آپ حدیث و تفسیر، فقہ، معانی ، بیان ، بدیع ، فلسفہ، منطق، نحو، صرف، حساب ، ہیئت ، ریاضی ، ہندسہ، تاریخ و جملہ مروجہ علوم و فنون پر یکساں نہ صرف عبور رکھتے تھے بلکہ ایسا پڑھاتے تھے جیسے طلبہ کو گھول کر پلا رہے ہوں ۔ چناں چہ کچھ لوگ پہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت کو تدریسی خدمات سے زیادہ تصنیفی خدمات میں آنا چاہیے ۔ تو میں عرض کروں گا کہ آپ کا دور اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی دھوم دھا م مچانے والی کتابوں اور ان کی اشاعت کا دور تھا اس لیے آپ نے تصنیفی میدان میں خاطر خواہ توجہ نہ دیا بلکہ تدریسی خدمات کو فوقیت بخشی تا کہ اپنی درسگاہِ فیض سے کچھ ایسے افراد پیدا کئے جائیں جو اکابر ملت کی کتابوں کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کر سکیں اور اندر و باہرکی یلغار سے مذہب و ملت کو محفوظ رکھ سکیں ۔ اگر آپ صرف تصنیفی میدان کی طرف متوجہ ہو جائیں تو ایک عظیم پیمانہ کا دارالمصنفین قائم کر سکتے تھے۔ یا خود اپنے قلم سے تصنیفات کا ایک انبار چھوڑ سکتے تھے ۔ مگر نہیں
دیوانے کی نظروں کو جہاں دیکھ رہا ہے
دیوانہ خدا جانے کہاں دیکھ رہا ہے
حافظ ملت کی نگاہ ولایت مستقبل کے ہند و پاک پر تھی کہ میری بارگاہ کے خوشہ چینوں سے بساط علم و تہذیب کی لالہ کاری ہونے والی ہے اور میری بارگاہ کے فیض یافتگاں سے لوح و قرطاس کی کتنی بزم آرائیاں ہونے والی ہیں اور آج بھی اکناف عالم میں تدریس و تقریر، تصنیف وتالیف کے جو اساطین پائے جاتے ہیں ان میں اکثر آپ ہی کی درس گاہ کا فیض ہے میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ آپ ایک نباض مدرس اور مشفق استاذ تھے۔ اگر آپ کی شفقت نہ ہوتی تو فقیہ ہند شار ح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کہاں سے پیدا ہوتے بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب کا وجود کہاں سے ہوتا دنیا محدث کبیر علامہ ضیاءالمصطفیٰ جیسی شخصیت کہاں سے پاتی اہل جہاں رئيس التحرير علامہ ارشد القادری کے وجود سے محروم رہ جاتے نیز حضور سید مدنی میاں ، مفکر ملت ، خیر الاذکیا ، محقق مسائل جدیدہ اور اس طرح کے تمام اساطین قوم و ملت سے محروم رہ جاتے ، بلا مبالغہ آپ کا وجود ہی اہل نظر کے لیے ایک درس کامل تھا آپ کی تدریسی و تعلیمی مہارت ایسی کہ اغیار بھی گرویدہ ہو جاتے چنانچہ علم اخلاص کا رہین منت ہے، جب کسی صاحب دل پر علم نبوی کا پَرتو پڑتا ہے تو ایک تنہا انسان خدمات درس و تدریس اور علمی کارناموں کی پوری انجمن پر بھاری ہو جاتا ہے پھر اس کا ہر اقدام کسی پوشیدہ قوت کے مقناطیسی اشاروں پر متحرک ہوتا ہے اور یہی شخص جب مسند تدریس پر جلوہ آرا ہوتا ہے تو درس گاہوں سے فکر غزالی ، شعور رازی کا انعکاس ہوتا ہے۔ اور جب حافظ ملت کی درسگاہ کو دیکھتے ہیں تو یہی منظر نگاہوں کے سامنے رقص کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ آپ کی بارگاہ میں فکر غزالی ، شعور رازی و نکتہ سعدی کاحسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے ۔
انداز تدریس :
حافظ ملت تدریس کے میدان میں اپنے وقت کے مجتہد تھے ، بالخصوص صرف و نحو کی کتابیں اور ان کے مسائل پڑھانے اور انہیں مستحضر کرا دینے کا آپ کا ایک منفرد انداز تھا ، طریقہ تدریس ایسا فطری بتایا جاتا ہے کہ پہلے طالب علم عبارت پڑھواتے اسی سے ترجمہ کرواتے عبارت و ترجمہ کی درستگی کے بعد تشریحی و توضیحی تقریر فرماتے آپ کی تقریر اتنی جامع ہوتی کہ وارد ہونے والے تمام اعتراضات خود بخود دفع ہو جاتے اور کبھی کبھی اونچی اونچھی کتابوں میں خود ہی اہم مقامات پر محاکمہ بھی فرماتے اور درسی تقریر کا انداز ایسا دل پزیر ہوتا کہ ذہن پر مرتسم ہو جاتا تھا۔ جب آپ مسند تدریس پر جلوہ فرما ہوتے ایسا پڑھاتے کہ ہزاروں غبی الذہن افراد کو علم وفن کے خزانے کی کنجی عطا فرماتے تھے اگرچہ اس مہتاب درس و تدریس کو غروب ہوئے عرصہ ہو چکا ہے مگر اب بھی ہند و پاک میں اس کے تلامندہ علوم دینیہ کی ضیا باری کر رہے ہیں آپ کی خدمات درسی کو سراہتے ہوئے حضرت شارح بخاری رقمطراز ہیں :
” درس نظامی میں شرح جامی کی جو اہمیت ہے اور جو اس کی حیثیت ہے وہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ جو طالب علم شرح جامی سمجھ کے پڑھ لے وہ ضرور بہت بڑا عالم ہوگا ، حافظ ملت شرح جامی ہمیشہ خود پڑھاتے تھے اور شرح جامی کے سارے حواشی کے قیل و قال اور یقال و یجاب کو بھی بیان فرماتےتھے ۔ ” (ماہ نامہ اشرفیہ مئی ، جون 1977 ء )
بیشک یہ صحیح ہے کہ حافظ ملت ایک مستقبل شناس مدرس تھے ان کو معلوم تھا کہ شرح جامی جو درس نظامی کا یہ دل ودماغ اور بروح ہے اگر کسی دوسرے استاذ کے پاس چلی گئی تو اگر خاص توجہ سے یہ کتاب نہ پڑھائی گئی تو طلبہ کا مستقبل تاریک ہو جائیگا اور یہ علم میں مہارت حاصل نہ کر پائیں گے یہی وجہ ہے کہ آپ سر ح جامی کا درس بہت ہی انہماک سے دیتے تھے اور خوب سمجھات تھے یہاں تک کہ آنے والے تمام اعتراضات ، ابہامات اور اشکالات از خود دفع ہو جاتے تھے حضرت شارح بخاری گوہر افشانی کرتے ہوئےآگے ارشاد فرماتے ہیں :
"ایک صاحب یہاں (جامعہ اشرفیہ ) سے ملا حسن پڑھ کر دوسرےمدرسے میں گئے اور وہاں پھر ملاحسن پڑھنا شروع کیا اور ہم لوگوں کو خط لکھا کہ تین دن سے صرف سبحانہ پر تقریر ہو رہی ہے ہم نے حضرت سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا میں چھ دن تقریر کرسکتا ہوں میرے پاس بھی قاضی کے متعدد حواشی ، فضل حق عبد الحق و غیره ہیں ان سے ابھی نہیں جب ملاقات ہو تو پوچھنا یاد کتنا ہے ؟ (صرف) تقریر سننے سے کیا حاصل!” (ماہ نامہ اشرفیہ مئی ، جون 1977 ء )
حضرت حافظ ملت ہمیشہ طلبہ کا خاص خیال رکھتے تھے اور آپ اتنی لمبی چوڑی تقریر سے گریز فرماتے جو طلبہ کے ذہن سے بالا ہو اور نباض مدرس ماہرفن کی یہی پہچان ہوتی ہے آپ کی تقریر ہمیشہ مختصر مگر بہت جامع و مانع ہوتی ، نکات و لطائف و غیر ضروری باتوں سے خالی اور اتنی سادہ کہ عام آدمی بھی بغیر غور و فکر کئے آسانی سے سمجھ لے۔ آپ کےذہن کے استحضار کا یہ عالم کہ کوئی مسئلہ ہو کہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو آپ آن واحد میں گتھیاںسلجھا دیا کرتے ہے حافظ ملت صرف و نحو کی صرف کتابیں نہیں پڑھاتے تھے بلکہ ہر ہر قاعدہ اور اصول کی مثالوں کے ساتھ مشق کراتے تھے اور عربی عبارت پڑھنے کا طلبہ کے اندر کے ملکہ پیدا کر دیتے تھے اور قواعد عربیہ کا اجرا و انطباق بھی کراتے تھے تاکہ طلبہ کے لیے عبارت خوانی و مطلب فہمی بالکل سہل ہو جائے ۔ حافظ ملت کے انداز تدریس کی شیر ینی کے سلسلے میں شارح بخاری کے رشحات قلم کی جو لا نیت میںملاحظہ فرمائیں:
” شرح جامی بحث اسم کا سبق تھا میرا اتفاق سے بعد ظہر پہلا گھنڈ تھا گھنٹہ سن کر جلدی سے کلی کر کے منہ دھو کر پڑھنےبیٹھ گیا عبارت شروع کی ھٰذا ردٌ کو میں نےھٰذا ردَّ ماضی پڑھا رَدَّ منہ سے نکلتےہی کنپٹی پر ایسا بھر پور جھا نپڑاور ساتھ ہی ساتھ ایک گر جدار ڈانٹ’ رَدَّ ‘ہے یہی مطالعہ کیا ہے کھیلتا رہتا ہے ، سوتا رہتا ہے، نیز جھا نپڑ کے ساتھ انگوٹھی کی چوٹ پڑی کہ کتاب کے نقوش غائب اور چودہ طبق روشن ہو گئے مگر قربان جائیں اس شان کی ڈانٹ ڈپٹ کہ میرے چہرے پر نظر ڈالی اور فرمایا پڑھو سمجھ میں آگیا تھا کہ یہ ماضی مطلق رَدَّ نہیں بلکہ رَدٌ مصدر ہے جب روندھی ہوئی آواز میں ھٰذارَدٌّ پڑھا تو پھر ڈانٹ کے انداز میں فرمایا مطالعہ کیا ہوتا تو یہی پہلے سمجھ میں نہیں آیا ہوتا ۔ اور اس کے بعد شارح بخاری نے فرمایا کہ اس کا ثمرہ یہ نکلا کہ شرح جامی کے بعد عبارت میں شاید با ید غلطی ہوتی ۔ بلا مبالغہ حافظ ملت پڑھاتے نہیں تھے بلکہ علم گھول کر پلاتے تھے ۔ (ماہ نامہ اشرفیہ مئی ، جون 1977 ء )
مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ملت اتنے شگفتہ و لطیف انداز میں درس دیتے کہ کوئی بھی غبی الذہن ہو وہ بھی سمجھ لے اور عبارت خوانی کراتے وقت آپ زیادہ توجہ دیتے تاکہ کوئی طالب علم غلط عبارت نہ پڑھے اور اگر غلط پڑھے تو اس کی اصلاح کر دی جائے تاکہ طلبہ کے اندر علمی استعداد پیدا ہو جائے اور یہ دین و مذہب کی خدمت کر سکیں ۔
ایک مرتبہ آپ درس نظامیہ کی اہم کتاب قاضی مبارک پڑھا رہے تھے معمول کے مطابق درس ختم کر کے کتاب بند کرنی چاہی ایک ذکی طالب علم نے اپنے ہم درس سے اشاروں میں کہا حضرت کا مطالعہ یہیں ختم ہو گیا پھر حضرت نے کتاب کھول دی اور عبارت پڑھنے کو کہا ایک طالب علم نے عبارت خوانی کی حضرت نے پھر اسی انداز میں تقریر شروع کر دی اب اس طالب علم نے کتاب بند کرنی چاہی حضرت نے فرمایا پڑھو عبد العزیز کو قاضی پڑھانے کے لیے مطالعہ کی حاجت نہیں بفضلہ تعالی ایک نشست میں پوری قاضی پڑھا سکتا ہوں ۔
بیشک یہ آپ کا حق ہے کہ دعوی کر کے پڑھا سکتے ہیں جیسا کہ مقولہ ہے: ” کل اناء یترشح بما فیہ ” برتن سے وہی چھلکتا ہے جو برتن میں ہوتا ۔ صحیح ہے کہ آپ علم کے نور سے معمور تھے اور پڑھانے کا ملکہ بھی رکھتے تھے آپ کو حضور صدر الشریعہ نے سب کچھ عطا فر ما دیا تھا ۔ مذکورہ تمام حقائق سے حضور حافظ ملت کی درسی صلاحیتوں کا پورے طور سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر یہ بات واضح رہے کہ حافظ ملت صرف مدرس ہی نہیں بلکہ ایک صاحب طرز ادیب اور عدیم المثال مصنف بھی تھے جنہوں نے اپنی زندگی قوم و ملت کی نگہبانی کرتے ہوئے صرف کر دی آپ کی تحریری و تقریری خدمات کا تصور کرتے ہی ذہن و دماغ میں ایسی شمامہ نواز خوشبو پہونچتی ہے جو تخیلات کو رباعیات خیّا م کی بوستانی فضا سے معمور کر دیتی ہے ۔
وفات:
یکم جمادی الآخرہ 1396 ھ مطابق 31 مئی 1976 ء دو شنبہ ، دن بھر کا تھکا ہو نیّر افلاک اپنے مستنیر چہرے پر دبیز نقاب اوڑھ کر رو پوش ہو گیا اور رات اپنی شبنمی زلفیں بکھیر کر ہر چہار جانب سنّاٹوں کا پہرا جما دیا ابھی نصف شب گزری تھی کہ مبارک پور کی گلیوں میں گریہ وزاری ، چیخ و پکار کی بے ہنگم آوازوں کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہر طرف غم و الم ، در دو کرب اور غم و کلفت سے فضائیں بو جھل ، ہر شخص پُرنم، ہر آنکھ اشکبار پوچھنے پر کسی نے سرگوشی کی کہ دنیائے اسلام کی عظیم ترین شخصیت دین کا محافظ مسلک اہل سنت کا ترجمان ، استاذ العلماء جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی قدس سرہ اس دارفانی سے کوچ فرما گئے ہیں۔ ورطہ حیرت میں ڈوب کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ۔
فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر