عید الفطر کے فضائل و مسائل مع طریقہ
از قلم:عبدالرشیدامجدی
عید الفطر کے فضائل و مسائل مع طریقہ:عید کادن مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت کا دن ہے۔اسلام نے عید الفطر کے موقع پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے مل جل کر خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں دیکھا کہ لوگ دو دنوں کو تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جب اہل مدینہ سے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں جن میں وہ کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں؟ تو انصار نے جواب دیا کہ ہم لوگ زمانہٴ قدیم سے ان دونوں دنوں میں خوشیاں مناتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سن کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دودنوں سے بہتر دو دن مقرر فرمایا ہے ،ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ۔ (ابوداؤد شریف)
لہٰذا خوشی کے اس موقع پر رمضان المبارک کے روزوں کے اختتام اور تروایح کے اتمام پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے ، دانستہ یا نادانستہ کوتاہیوں پر مغفرت طلب کی جائے اور دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو شرف قبولیت بخشے۔
عید کی نماز کہاں پڑھیں؟
مسجد میں عید کی نماز پڑھنا خلافِ سنت ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ رہی ہے کہ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلی جگہ میں ادا فرماتے تھے ، خلفائے راشدین کا بھی اسی پر عمل رہا ہے۔ اسی لیے علماء نے بغیر کسی عذر کے مسجد میں عید کی نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحرا اور میدان میں نمازِ عید پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ _مجمع الزوائد، جلد دوم_
شرعی عذر:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ نے نمازِ عید مسجد میں پڑھائی۔
مقامِ غور ہے کہ مسجد نبوی میں ایک نماز پچاس ہزار نماز کا ثواب رکھتی ہے۔ پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو چھوڑ کر عید کی نماز باہر پڑھتے تھے۔ معلوم ہواکہ نمازِ عید میدان اور صحرا میں پڑھنی چاہئے۔ بلا عذر مسجد میں نمازِ عید پڑھنا خلافِ سنت ہے۔
عید کی نماز سے پہلے مسواک کرنا، غسل کرنا ، خوشبو استعمال کرنا اور اچھے سے اچھا کپڑا پہننا چاہیے۔ _ابن ماجہ_
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ نمازِ عید کے لیے پیدل جایا جائے۔ *ترمذی شریف*
عید الفطر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ آواز سے یہ تکبیر پڑھتے رہنا چاہیے *اَللہُ اَکْبَرْ ، اَللہُ اَکْبَرْ ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ ، اَللہُ اَکْبَرْ ، وَ لِلہِ الْحَمْد* _دار قطنی و البیہقی_
عـیدکی نماز کا مکـمل طریقہ:
_نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت واجب عید الفطر، یا عید الاضحٰی، کی نیت کرے_
_نیت کی میں نے دو رکعت نماز واجب عید الفطر یا عید الاضحٰی کی زائد چھ تکبیروں کے واسطے اللہ تعالی کے پیچھے اس امام کے منہ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر کہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللٰہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے۔پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہ کر چھوڑ دے۔پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہ کر ہاتھ باندھ لے_
_یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے اس کے بعد دو تکبیروں میں ہات لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے اس کو یوں یاد رکھیں کہ جہاں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لیے جائیں اور جہاں پرھنا نہیں وہاں ہاتھ چھوڑ دیے جائیں۔ جب چوتھی تکبیر پر ہاتھ باندھ لے تو امام اعوذ باللہ، و بسم اللہ آہستہ پڑھ کر زور سے الحمد اور سورۃ پڑھے پھر رکوع کر کے ایک رکعت پوری کرے_
_جب دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو پہلے الحمد اور سورة پڑھے پھر تین بار کان تک ہاتھ لے جا کر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے_
اس سے معلوم ہو گیا کہ عیدین میں زائد تکبیریں چھ ہوئیں تین تکبیریں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے اور تکبیر تحریمہ کے بعد اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں قرأت کے بعد اور رکوع کی تکبیر سے پہلے اور چھ تکبیروں میں ہاتھ اٹھائے جائیں گے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان تین تسبیح پڑھنے کے برابر سکتہ کرے اور عیدین میں مستحب یہ ہے کہ پہلے رکعت میں الحمد کے بعد سورہ جمعہ پڑھےاور دوسری میں سورہ منافقون یا پہلی میں سبح اسم اور دوسری میں ھل اَتٰک
نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے۔ اور جمعہ کے خطبے میں جو چیزیں سنت ہیں وہ عیدین کے خطبے میں بھی سنت ہیں اور جو باتیں جمعہ کی خطبے میں مکروہ ہیں وہ عیدین کے خطبے میں بھی مکروہ ہیں۔ صرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ ہے کہ جمعہ کے پہلے خطبہ سے قبل خطیب کا بیٹھنا سنت تھا اور اس میں نہ بیٹھنا سنت ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خطبہ سے قبل نوبار، اور دوسرے خطبہ سے قبل سات بار، اور ممبر سے اترنے کے پہلے چودہ بار، اللہ اکبر کہنا سنت ہے اور جمعہ میں نہیں۔
نَمازِ عید کس پر واجِب ہے؟
عیدَین یعنی عیدُالْفِطْر اور بَقَر عید کی نَماز واجِب ہے مگر سب پر نہیں صِرف ان پر جن پر جُمُعہ واجِب ہے۔ عِیدَین میں نہ اذان ہے نہ اِقامت
_بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹_
نمازِ عید کا وقت:
ان دونوں نمازوں کا وَقت سورج کے بقدر ایک نیزہ بلند ہونے یعنی طلوعِ آفتاب کے 20 مِنَٹ کے بعد سے ضَحوۂ کُبرٰی یعنی نِصفُ النّہارشرعی تک ہے مگر عیدُالْفِطر میں دیر کرنا اور عیدُالْاَضحٰی جلد پڑھنا مُستَحَب ہے
_بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۱_
عید کی جماعت نہ ملی تو کیا کرے؟
امام نے نَماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامِل ہی نہ ہوا تھایا شامِل تو ہوا مگر اُس کی نَماز فاسد ہو گئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ بِغیر جماعت کے نہیں پڑھ سکتا ۔ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شَخص چار رَکْعَت چاشت کی نَماز پڑھے۔
_دُرِّمُختار ج۳_
نَمازِعید کیلئے جانے سے قَبل کی سنَّت:
حضرتِ سیِّدُنا بُرَیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حُضورِ نبئ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عِیدُ الفِطْر کے دِن کچھ کھا کر نَمازکیلئے تشریف لے جاتے تھے اور عیدِ اَضحٰی کے روز نہیں کھاتے تھے جب تک نَماز سے فارِغ نہ ہو جاتے ۔
*سُنَنِ تِرمِذی ج۲ ص۷۰*
اور بخاری شریف کی رِوایت حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رضی اللہُ تعالٰی عنہ سے ہے کہ عِیدُ الفِطْر کے دِن تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کَھجوریں نہ تَناوُل فرما لیتے اور وہ طاق ہوتیں۔
_بُخاری شریف جلد اول_
عید کی مبارک باد دینا:
نمازِ عیدکے بعد اپنے دوستوں، ساتھیوں اور پڑوسیوں کو عید کی مبارکباد دینا جائز ہے خصوصاً جس جگہ یہ رسم چلی آرہی ہو لیکن اسے عبادت کی حیثیت نہ حاصل ہو بلکہ صرف عادت کے طور پر لوگ کسی بھی خوشی کے موقع پر آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہوں جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ عید سے واپس ہوتے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنْكَ اللہ تعالیٰ ہم سب کی عید اور دیگر اعمال صالحہ قبول فرمائے _مجمع الزوائد جلد ۲_
لاک ڈاؤن میں عید کے نماز کا مسئلہ:
عیدین کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انہیں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں
صرف اتنا فرق ہے کہ
جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر برا کیا۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے اور عیدین کا بعد نماز، اگر پہلے پڑھ لیا تو برا کیا، مگر نماز ہوگئی لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت صرف دو بار اتنا کہنے کی اجازت ہے۔ *” الصلوٰۃ جامعة “*
*( بہار شریعت حصہ چہارم )*
موجودہ صورتحال میں لاکڈاؤن کے سبب لوگوں کو اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں ہے
اس لئے لوگ مجبور ہیں اس وجہ سے ان پر نماز جمعہ وعیدین فرض نہیں- کہ بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا، یہ جمعہ وعیدین کےلئے شرط ہے
اب لوگوں کا یہ سوال کرنا کہ گھر میں پڑھ لیں معلوم ہونا چاہئے کہ *” مصر یا فنائےمصر“* کا ہونا بھی شرط ہے دیہات وغیرہ میں جمعہ وعیدین کی نماز نہیں ہوگی
موجودہ صورت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے جمعہ کی نماز چند لوگ مسجد میں ادا کرتے ہیں بقیہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز ظہر تنہا تنہا پڑھتے ہیں عید میں بھی وہی طریقہ اختیار کریں جتنے لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے وہ عید کی نماز پڑھیں بقیہ لوگ معذور ہیں ان پر عید کی نماز واجب نہیں وہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں چاشت کی نماز پڑھیں چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں
از قلم گوہر رقم_
_تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین و خلیفہ ارشد ملت_
*عبدالرشیدامجدی ارشدی دیناجپوری*
خادم…… *تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال*
_مقیم حال حیدرآباد_