عید غدیر کی حقیقت
کالم نگار: محمد ندیم عطاری
میداں میں آگئے ہو ، تو کُھل کے بات ہو
ہم علی کے ساتھ ہیں تم کس کے ساتھ ہو؟
روافض کے ہاں 18 ذی الحج کو ایک عید ہوتی ہے جسے ” عید غدیر ” کہا جاتا ہے ، ان کے باطل عقیدے کے مطابق اس روز نبی علیہ السلام نے حضرت علی کو امامت سونپی اور اپنا جانشین مقرر فرمایا ۔ لہذا یہ لوگ اس دن طرح طرح کے کھانے بناتے ، ایک دوسرے کو تحفے دیتے ، اور اسے ایک بڑے تہوار کے طور پر مناتے ہیں ۔
رافضی یہ دن کب سے مناتے چلے آرہے ہیں اس پر فی الحال کچھ نہیں لکھا جاسکتا ، لیکن اتنا ضرور پتا ہے کہ کچھ عرصہ سے بعض تفضیلیوں اور منہاجیوں نے رافضیوں کے دیکھا دیکھی اس دن کو منانا شروع کردیا ہے ۔
جی ہاں یہ وہی منہاجی ہیں ، جو کل تک اسٹیجوں پر اچھل اچھل کر یوم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ منانے کی دلیلیں مانگتے اور کہتے تھے : کہ تیرہ صدیوں میں کسی نے بھی یہ دن نہیں منایا ۔ آج یہی منہاجی ذکر علی رضی اللہ عنہ کیلئے رافضیوں کے طریقے چاٹ رہے ہیں ۔
پہلے تو ہم اِن منہاجیوں سے پوچھتے ہیں کہ تیرہ سو سالہ تاریخ میں کن ائمہ اہل سنت نے یہ جشن غدیر منایا؟
جو منہاجی چیخ چیخ کر عرس معاویہ کی نظیر کا مطالبہ تیرہ صدیوں سے کررہے تھے وہ آج یہ بھی بتادیں: کہ رافضیوں کا تخلیق شدہ یہ "جشن غدیر ” اہل سنت نے کب سے منانا شروع کیا ہے؟
کیا مولا علی کا ذکر خیر کرنے کیلئے رافضیوں کے نقش قدم پر چلنا اور ان کے طریقے اپنانا ضروری ہے؟
18 ذی الحج جو کہ خلیفہ راشد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے عین اُس دن یہ جشن غدیر منا کر تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟
ارے ! ہمارے اسلاف تو اس اعلان غدیر کو مولا علی کی محبت کا درس سمجھتے رہے ، لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اہل سنت کہلانے والے بعض ایسے بھی ہوں گے جو "من کنت مولاہ ۔۔۔۔۔۔الخ” کے مطلب کا حلیہ ہی بگاڑ دیں گے ، اور اس اعلان کو نہ صرف رفض کا لباس پہنا دیں گے ، بلکہ عوام اہل سنت کو اس لباس کو چومنے کی تلقین بھی کریں گے ۔
مگر ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے ، کہ ہمارے سامنے ہمارے اکابرین کی تعلیمات موجود ہیں کہ وہ حدیث غدیر سے کیا معنی اخذ کرتے تھے ۔صرف چار حوالوں پہ اکتفاء کرتا ہوں ۔
1– امام بزدوی علیہ الرحمہ المتوفی 493ء عقیدہ اہل سنت پر مشتمل اپنی مشہور کتاب "اصول الدین ” میں من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے تحت لکھتے ہیں :
رہی بات حدیث ولایت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تو اس سے بھی استدلال کرنا درست نہیں ، اس لئے اس میں لفظ مولیٰ کو ذکر کیا گیا ہے اور عربی کلام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ مولی کوذکر کرکے اس سے مدد گار مراد لیا جاتا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔اس حدیث میں لفظ مولیٰ سے آقا اور غلام آزاد کرنے والا تو مراد نہیں لیا جا سکتا ، ہاں البتہ مددگار اور مُحبّ مراد لیا جاسکتا ہے ، اور محب و محبوب کے الفاظ سے استحقاق خلافت کا ثبوت نہیں فراہم ہوتا ، اسی وجہ سے ہم بھی یہی کہتے ہیں: اس حدیث سے جناب علی المرتضی کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا استحقاق ثابت نہیں ہوتا۔
(اصول الدین مترجم ص 512،پروگریسو بکس لاہور)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی رفض توڑ کتاب ” تحفہ اثناء عشریہ ” میں اس روایت کا مطلب حضرت علی کی دوستی کو واجب ٹھہرانا اور دشمنی سے ڈرانا لکھا ہے ۔
(انظر تحفہ اثناء عشریہ مترجم ص418)
2– قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ اس پر قرینہ ہیں ، حدیث میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں ، جو اس بات کا قرینہ بن سکے کہ مولا سے مراد امام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا: کہ "میں جس کا مولا ہوں” اس سے بعد والی بات کو سامعین کے ذہن میں پختہ کرنے کی غرض سے ہے ، اگر آپ اس موقع پر امامت علی ہی کا اعلان فرما رہے ہوتے ، تو اس سے صریح اور واضح تر لفظ میں امامت کا اعلان کر سکتے تھے۔
(السیف المسلول مترجم ص 244 فاروقی کتب خانہ ملتان)
3– شیخ الاسلام امام احمد رضا خان قادری محدث بریلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
"جس کا میں مولا اس کا یہ مولا ، دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اسے جو اس سے دشمنی کرے۔ حدیث صحیح ہے ، اور اس میں بعض علمائے شان نے جو کلام کیا مقبول نہیں ، مگر تفضیلیہ یا رافضیہ کا مطلب اس سے کچھ نہیں نکلتا۔
(مطلع القمرین ص70 کتب خانہ امام احمد رضا راولپنڈی)
4– فخر سادات، مامور من الرسول حضرت سید پیر مہر علی شاہ گیلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
خُم غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد "من کنت مولاہ فعلی مولاہ” بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھا اس کا مطلب یہ ہے ، کہ علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے لکھتے ہیں :
بریدہ اسلمی کے بیان واقعات و مبشرات اور اپنے مقام پر بیان شدہ نصوص قرآنیہ سے واضح ہوجاتا ہے ، کہ خُم غدیر والی حدیث کو سیدنا علی کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید لکھتے ہیں :
سیدنا علی حدیثِ خُم غدیر کو اپنی خلافت کے لئے سند نہیں سمجھے ہوئے تھے ۔
(تصفیہ مابین سُنّی و شیعہ ص 33-34 )
ان حوالہ جات سے پتا چلا کہ اس حدیث سے مولا علی کی محبت کا درس ملتا ہے نہ کہ کسی قسم کی خلافت یا جانشینی کا ۔۔۔۔جیسا کہ رافضی سمجھتے ہیں اور منہاجی بھی جشن منا کر اس کی بھرپور تائید کررہے ہیں ۔۔۔۔۔
کالم نگار: محمد ندیم عطاری
فیضان مدینہ، اوکاڑہ پنجاب