دین کی دعوت وقت کی اہم ترین ضرورت

دین کی دعوت وقت کی اہم ترین ضرورت

Table of Contents

دین کی دعوت وقت کی اہم ترین ضرورت

مولانا محمّد شمیم احمد نوری مصباحی!

 

بلاشبہ دین کی دعوت دینا یہ ایک اہم دینی فریضہ اورامّت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے علما اور امّت کے باشعور طبقہ پر بالخصوص اور پوری امّت محمّدیہ پر بالعموم علیٰ حسب طاقت وحیثیت فرض ہے کہ وہ دعوتِ دین کاکام انجام دیں

دعوت وتبلیغِ دینِ متین کامشن ہر زمانے میں جاری رہا ہے اور موجودہ حالات میں بھی اس کی اتنی ہی ضرورت ہے حضور نبی کریم صلّی اللّہ علیہ وسلّم کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے امتیوں کے مشن کوبیان کرنے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا

قل ھٰذہ سبیلی ادعوا الیٰ اللّٰه علیٰ بصیرةٍ انا ومَن اتّبعنی وسبحان اللّه وماانامن المشرکین (یوسف:۱۰۸)

۔[اے محبوب] آپ فرما دیجئے یہ میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ، میں اور میرے ساتھی بھی اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں)۔

یہی امت مسلمہ کا اصل مشن ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امت مسلمہ میں ہر دور میں کم از کم ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو عام لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے[الحمدللّٰہ!اس وقت عالم اسلام میں بہت ساری تحریکات اپنے اپنے طور پر دعوت وتبلیغ کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں]۔

دعوتِ دین کامطلب ومفہوم

دعوتِ دین کامطلب یہ ہے کہ اللّٰہ وحدہ لاشریک نے گناہ، نیکی اور خیر وبھلائی کی جوچیزیں بتلائی ہیں ان کے بارے میں نوع انسانی کوآگاہ کرنا،بُرے کاموں سے بچنے کی تلقین کرنا اور نیکی کا حکم دینا دعوت دین سے مراد اللّٰہ عزّوجل پر ایمان لانے کی دعوت دینا اور تمام انبیا و رسل کی تصدیق کے ساتھ ساتھ ان کی بتلائی ہوئی ہدایات اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کی دعوت دینا ہے

اس دعوت میں یہ تمام امور شامل ہیں:

اقرار شہادتین، اقامۃ صلاۃ، ایتائے زکوۃ، صوم رمضان، حجِّ بیت اللہ اور اللہ پر، فرشتوں پر، اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کی دعوت دینا

دین کی دعوت کا یہ بھی مطلب ہے

کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اور دین اسلام کی دعوت تمام نوعِ انسانی تک پہنچانا جسے عام الفاظ میں “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے-

دینی دعوت کی اہمیت

دین اسلام کی دعوت دینا یقیناً بہت بڑی اوراہم ذمہ داری ہے،اور اس سے وابستہ اہل ایمان کثیرفضائل وامتیازات کے حامل ہوتے ہیں اسی سے دین کی بقاہے اسی سے امت مسلمہ کا قرار اور اسی سے عظمت رفتہ کا حصول باقاعدہ ممکن ہوسکتا ہے

دعوتِ دین ہی کے ذرہعہ لوگوں کو اخلاق حسنہ کا پیکر بنایا جاسکتا ہے

اسی کے ذریعہ فتنہ وفساد اور ظلم وستم اور برائیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے،اور اس کی بدولت دنیاکو امن و سکون کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے، اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی امورکی اصلاح وبہتری بھی اس طریق سے بہت حدتک ممکن ہے

اس کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ کہ دعوتِ دین دینا یہ ایک ربّانی عمل ہے چناں چہ خود پروردگار عالم نے اپنی مخلوق کو حصول جنت کی بارہا دعوت دی اور دعوتِ دین یہ اللّٰہ کے مقرّب بندے انبیا ورسل کاراستہ ہے، چناں چہ تمام انبیاے کرام نے یہ ذمہ داری اداکی!۔

قارئین کرام

جس طرح ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ عزّوجل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور ان کے بتلاے ہوے نیکی اور پرہیزگاری کے اس سیدھے اور روشن راستے پر چلیں جس کا نام”اسلام“ہے

اسی طرح ہم پر یہ بھی[حسب استطاعت] فرض ہے کہ اللہ کے جو بندے اس راستے سے بے خبر ہیں،یا اپنی طبعیت کی برائی کی وجہ سے اس پر نہیں چل رہے ہیں ان کوبھی اس سے واقف کرنے کی اور اس پر چلانے کی کوشش کریں،یعنی جس طرح اللہ نے ہم پر یہ فرض کیا ہے کہ ہم اس کے اچھے، فرماں بردار، عبادت گزار اورپرہیزگار بندے بنیں

اسی طرح اس نے یہ بھی فرض کیا ہے کہ اس مقصد کے لیے ہم اس کے دوسرے بندوں میں بھی کوشش کریں اسی کانام دین کی خدمت اوردین کی دعوت ہے۔

اللہ تعالی کے نزدیک یہ کام اتنابڑا ہے کہ اس نے ہزاروں پیغمبر اس دنیا میں اسی مقصد کے لیے بھیجے اوران پیغمبروں نے طرح طرح کی مصیبتیں اٹھا کے اور دکھ سہہ کے دین کی خدمت ودعوت کا یہ کام انجام دیا اور لوگوں کی اصلاح وہدایت کے لیے کوششیں کیں (اللہ تعالی ان پر اوران کا ساتھ دینے والوں پر بے حساب رحمتیں نازل فرمائے)۔

پیغمبری کا یہ سلسلہ خدا کے آخری اورمحبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ختم ہوگیا

اور اللہ تعالی نے انہیں کے ذریعہ اپنے اس خاص فیصلے کا اعلان بھی کرا دیا کہ دین کی تعلیم ودعوت اور لوگوں کی اصلاح وہدایت کے لیے آئندہ اب کوئی نیا پیغمبر نہیں بھیجا جائے گا، بلکہ اب قیامت تک یہ کام انہیں لوگوں کو کرنا ہوگا،جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کوحق کو مان چکے ہیں اور ان کی ہدایت کو قبول کرچکے ہیں۔

الغرض نبوت ورسالت ختم ہونے کے بعد دین کی دعوت اورلوگوں کی اصلاح وہدایت کی تمام تر ذمہ داری ہمشہ کے لیے اب حضورنبی کریم ﷺ کی امت کے سپرد کردی گئی ہے اور دراصل اس امت کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے بلکہ قرآن شریف میں اسی کام اور اسی خدمت ودعوت کو اس امت کے وجود کا مقصد بتلایاگیا ہے،گویا کہ یہ امت پیدا ہی اس کام کے لیے کی گئی ہے، جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ (آل عمران:۱۱۰)

(اے امت محمدی) تم ہی ہو وہ بہترین جماعت جو اس دنیا میں لائی گئی ہے انسانوں کی اصلاح کے لیے تم کہتے ہونیکی کو اور روکتے ہو برائی سے اور سچاایمان رکھتے ہو اللہ پر۔

اس آیت سے معلوم ہوا

کہ یہ امت محمدیہ دنیا کی دوسری تمام امتوں اورجماعتوں میں اسی لحاظ سے ممتاز اورافضل تھی کہ خود ایمان اور نیکی کے راستے پر چلنے کے علاوہ دوسروں کوبھی نیکی کے راستے پر چلانے اوربرائیوں سے بچانے کی کوشش کرنا اس کی خاص خدمت اورخاص ڈیوٹی تھی اور اسی لیے اس کو”خیرامۃ” قراردیاگیا

اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا

کہ یہ امت اگردین کی دعوت اورلوگوں کی اصلاح وہدایت کا یہ فرض ادانہ کرے تو وہ اس فضیلت کی مستحق نہیں،بلکہ سخت مجرم اورقصوروار ہےکہ اللہ تعالی نے اتنے بڑے کام کی ذمہ داری اس کے سپرد کی اور اس نے اس کو پورا نہیں کیا،اس کی مثال بالکل ایسی ہےکہ کوئی بادشاہ سپاہیوں کے کسی دستہ کو شہرمیں اس کام پر مقررکرے کہ وہ برائیوں اور بد معاشیوں کو روکیں،لیکن وہ سپاہی اس خدمت کو انجام نہ دیں بلکہ خود بھی وہ سب جرائم اوربدمعاشیاں کرنے لگیں جن کی روک تھام کے لیے بادشاہ نے ان کی ڈیوٹی لگائی تھی تو ظاہر ہے کہ یہ مجرم سپاہی انعام یا نوکری پانے کے مستحق تو کیا ہوتے سخت سزا کے قابل ہونگے؛بلکہ اگران کو دوسرے مجرموں اور بدمعاشوں سے زیادہ سزا دی جائے تو بے جانہ ہوگا۔

افسوس اس وقت امت محمّدیہ کاحال

کچھ یوں ہی ہے کہ دین کی خدمت ودعوت اوردنیا کی اصلاح وہدایت کا کیا ذکر خود ان میں دس پانچ فیصدی سے زیادہ ایسے نہیں رہے ہیں جو صحیح معنوں میں مومن ومسلم ہوں، نیکیاں کرتے ہوں اوربرائیوں سے بچتے ہوں،ایسی حالت میں ہماراسب سے مقدم فرض یہ ہے کہ دین کی دعوت اوراصلاح وہدایت کاکام پہلے اس امت ہی کے ان طبقوں میں کیا جائے جو دین وایمان اورنیکی وپرہیزگاری کے راستے سے دور ہوگئے ہیں۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے

کہ جولوگ اپنے کو مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں خواہ ان کی عملی حالت کیسی ہی ہو وہ بہرحال ایمان واسلام کا اقرار کرکے خداورسول اوران کے دین کے ساتھ ایک قسم کا رشتہ اورایک طرح کی خصوصیت پیدا کرچکے ہیں اور اسلامی سوسائٹی اور برادری کے ایک فرد بن چکے ہیں اس واسطے ہمارے لیے ان کی اصلاح وتربیت کی فکر بہرحال مقدم ہے- جس طرح کہ قدرتی طورسے ہر شخص پر اس کی اولاد اور اس کے قریبی رشتہ داروں کی خبرگیری اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ ہوتی ہے۔

اورایک دوسری وجہ یہ بھی ہے

کہ دنیا کے عام لوگ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اسلام کی خوبی اور بہتری کو کبھی نہیں سمجھ سکتے،بلکہ الٹے اس سے متنفراوربیزار ہوتے ہیں،ہمیشہ سے عام لوگوں کا یہی طریقہ رہا ہےاور اب بھی یہی طریقہ ہے کہ کسی دین کے ماننے والوں کی حالت اور ان کے اعمال اوراخلاق دیکھ کرہی اس دین کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کی جاتی ہے۔

جس زمانہ تک مسلمان عام طور سے سچے مسلمان ہوتے تھے اورپوری طرح اسلام کے احکام پر چلتے تھے ،دنیا کے لوگ صرف ان کو دیکھ دیکھ کے اسلام کے گرویدہ ہوجاتے تھے اور علاقے کے علاقے اورقومیں کی قومیں اسلام میں داخل ہوجاتی تھیں،لیکن جب سے مسلمانوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہوگئی جو اپنے کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر ان کے اعمال اوراخلاق اسلامی نہیں ہیں اوران کے دل ایمان اور تقویٰ کے نور سے خالی ہیں، اس وقت سے دنیا اسلام ہی سے بدظن ہوگئی ہے۔

بہرحال

ہمیں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ امت مسلمہ کی طرززندگی اورمسلمان قوم کی عملی حالت ہی اسلام کے حق میں سب سے بڑی شہادت اورگواہی ہے، وہ اگراچھی ہوگی تو دنیا اسلام کے متعلق اچھی رائے قائم کرے گی اور خودبخود اس کی طرف آئے گی اور اگروہ بری ہوگی تو پھر عام دنیااسلام ہی کو براجانے گی اورپھر ان کو اسلام کی دعوت اگردی بھی جائے گی تو اس کا کوئی خاص اثر نہ ہوگا ۔

لہٰذا دوسروں میں اسلام کی دعوت کا کام بھی اسی پر موقوف ہے کہ امت مسلمہ میں اسلامی زندگی یعنی ایمان اور عمل صالح عام ہو؛بہرحال اس لحاظ سے بھی یہی ضروری ہے کہ پہلے مسلمانوں ہی کی اصلاح وہدایت کی فکر کی جائے اور ان میں دینی زندگی کو عام کرنے کے لیے پوری قوت سے جدوجہد کی جائے، بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاد صرف اس جنگ کا نام ہے جو دینی اصول واحکام کے مطابق اللہ کے راستے میں لڑی جائے

 

لیکن صحیح بات یہ ہے

کہ دین کی دعوت اور بندگان خدا کی اصلاح وہدایت کے لیے جس وقت جو کوشش کی جاسکتی ہو،وہی اس وقت کا خاص جہاد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت کے بعد تقریباً بارہ تیرہ برس مکہ معظمہ میں رہے،اس پوری مدت میں آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا جہاد یہی تھا کہ مخالفتوں اورطرح طرح کی مصیبتوں کے باوجود خود دین پر مضبوطی سے جمے رہے اور دوسروں کی اصلاح وہدایت کی کوشش کرتے رہے اور بندگان خداکو خفیہ وعلانیہ دین کی دعوت دیتے رہے۔

الغرض

اللہ سے غافل اور راستے سے بھٹکے ہوئے بندوں کو اللہ سے ملانے کی اورصحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرنا اور اس راہ میں اپنا مال ودولت خرچ کرنا اور وقت اورچین وآرام قربان کرنا یہ سب اللہ کے نزدیک “جہاد” ہی میں شمار ہے بلکہ اس وقت کا “خاص جہاد”یہی ہے۔

دین کی دعوت وتبلیغ کرنے والوں کو آخرت میں جو اجر وثواب ملنے والا ہے اور نہ کرنے والوں کے لیے اللہ کی لعنت وغضب کے جو خطرے ہیں ان کا کچھ اندازہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے ہوسکتا ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص لوگوں کو صحیح راستے کی دعوت دے اور نیکی کی طرف بلائے تو جولوگ اس کی بات مان کر جتنی نیکیاں اوربھلائیاں کریں گے اور ان نیکیوں کا جتنا ثواب ان کرنے والوں کو ملے گا اتنا ہی ثواب اس شخص کو بھی ملے گا جس نے ان کو نیکی کی دعوت دی اور اس کی وجہ سے خود نیکی کرنے والوں کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی (مسلم،بَاب مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَيِّئَةً وَمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى أَوْ ضَلَالَةٍ،

اس حدیث سے معلوم ہوا

کہ اگربالفرض آپ کی دعوت اورکوشش سے دس بیس آدمیوں کی بھی اصلاح ہوگئی اوروہ خدا اوررسولﷺ کو پہچاننے لگے اور دینی احکام پر چلنے لگے ،نمازیں پڑھنے لگے اور اسی طرح دوسرے فرائض ادا کرنے لگے اور گناہوں اور بری باتوں سے بچنے لگے،تو ان چیزوں کا جتنا ثواب ان سب کو ملے گا،ان سب کے مجموعے کے برابر تنہا آپ کو ثواب ملے گا؛ اگر آپ غورکریں، تو معلوم ہوگا کہ اس قدر اجروثواب کمانے کا کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں کہ ایک آدمی کو سیکڑوں آدمیوں کی عبادتوں اور نیکیوں کا ثواب مل جائے۔

ایک دوسری روایت میں ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے علی! قسم اللہ کی اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت ہوجائے تو تمہارے حق میں اس سے بہتر ہے کہ بہت سے سرخ اونٹ تمہیں مل جائیں(واضح رہے کہ اہل عرب سرخ اونٹوں کوبہت بڑی دولت سمجھتے تھے) (مسند احمد،حدیث ابی مالک سہل بن سعد)۔

درحقیقت اللہ کے بندوں کی اصلاح وہدایت اور ان کو نیکی کے راستہ پر لگانے کی کوشش جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا بہت اونچے درجے کی خدمت اور نیکی ہے اورانبیاء علیہم السلام کی خاص وراثت اورنعمت ہے؛پھر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی دولت کی بھی اس کے مقابلہ میں کیا حقیقت ہوسکتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اورحدیث میں لوگوں کی اصلاح وہدایت کے کام کی اہمیت کو ایک عام فہم مثال کے ذریعہ بھی سمجھا یا ہے، آپ کے ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ

فرض کرو ایک کشتی ہے جس میں نیچےاور اوپر دودرجے ہیں اور نیچے کے درجہ والے مسافروں کوپانی اوپر کے درجے سے لانا پڑتا ہے جس سے اوپر والے مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے، اور وہ ان پر ناراض ہوتے ہیں ،تواگرنیچے والے مسافر اپنی غلطی اوربیوقوفی سے نیچے ہی سے پانی حاصل کرنے کے لیے کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگیں اور اوپر کے درجہ والے ان کو اس غلطی سے روکنے کی کوشش نہ کریں

تونتیجہ یہ ہوگا کہ کشتی سب ہی کو لے کر ڈوب جائے گی اور اگر اوپر والے مسافروں نے سمجھا بجھاکر نیچے کے درجہ والوں کو اس حرکت سے روک دیا،تو وہ ان کو بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے، حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بالکل اسی طرح گناہوں اوربرائیوں کا بھی حال ہے

اگر کسی جگہ کے لوگ جہالت کی باتوں اور گناہوں میں مبتلا ہوں اور وہاں کے نیک اور سمجھ دارقسم کے لوگ ان کی اصلاح وہدایت کی کوشش نہ کریں تو نتیجہ یہ ہوگاکہ ان گناہ گاروں اور مجرموں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوگا اور پھر سب ہی اس کے لپیٹ میں آجائیں گے اور اگر ان کو گناہوں اوربرائیوں سے روکنے کی کوشش کرلی گئی تو پھر سب ہی عذاب سے بچ جائیں گے۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَر)۔

ایک اور حدیث میں ہے

حضورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید کے ساتھ اورقسم کھاکر فرمایا: اس اللہ کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم اچھی باتوں اورنیکیوں کو لوگوں سے کہتے رہو اور برائیوں سے ان کو روکتے رہو،یادرکھو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر کوئی سخت قسم کا عذاب مسلط کردے اور پھر تم اس سے دعائیں کرو اور تمہاری دعائیں بھی اس وقت نہ سنی جائیں (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَ،)۔

بھائیو! اس زمانہ کے بعض خدارسیدہ اور روشن دل بزرگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں پر ایک عرصہ سے جو مصیبتیں اورذلتیں آرہی ہیں اور جن پریشانیوں میں وہ مبتلاہیں ،جو ہزاروں دعاؤں اورختموں اوروظیفوں کے باوجود بھی نہیں ٹل رہی ہیں، اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ ہم دین کی خدمت ودعوت اورلوگوں کی اصلاح وہدایت کےکام کوچھوڑے ہوئے ہیں جس کے لیے ہم پیدا کئے گئے تھے اور ختم نبوت کے بعد جس کے ہم پورے پورے ذمہ دار بنائے گئے تھے، اور دنیا کا بھی ایسا ہی قانون ہے کہ جو سپاہی اپنی خاص ڈیوٹی ادانہ کرے اس کو معطل کردیا جاتا ہے اوربادشاہ جو سزااس کے لیے مناسب سمجھتاہے دیتا ہے۔

آؤ ائندہ کے لیے اس فرض اور اس ڈیوٹی کو انجام دینے کا ہم سب عہد کریں اللہ تعالی ہمارا مدد گار ہواور ویسے بھی اس کا وعدہ ہے کہ وَلَیَنْصُرَنَّ اللہ مَنْ یَنْصُرُہٗ (الحج:۰۴)۔

اللہ ان لوگوں کی ضرور مددکرے گاجو اس کے دین کی مددکریں گے)۔ اللّٰہ عزّوجل تمام اہل اسلام کو [اپنی طاقت کے مطابق]انفرادی اور اجتماعی سطح پر دعوت واصلاح کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے- آمین!

محمّد شمیم احمد نوری مصباحی

دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)۔


مزید پڑھیں: 

سیدنا صدیق اکبر اور خدمت حدیث

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت

صفائی نصف ایمان!ہے-مسلمان اور صفائی؟

شیئر کیجیے

Leave a comment