عظمت رسول ﷺ پر حملہ آخر قوم کے ذمہ داران خاموش کیوں ؟

عظمت رسول ﷺ پر حملہ آخر قوم کے ذمہ داران خاموش کیوں ؟

Table of Contents

عظمت رسول ﷺ پر حملہ آخر قوم کے ذمہ داران خاموش کیوں ؟

از قلم : ابوصالح مصباحی اتر دیناج پور

عظمت رسول ﷺ پر حملہ آخر قوم کے ذمہ داران خاموش کیوں ؟
عظمت رسول ﷺ پر حملہ آخر قوم کے ذمہ داران خاموش کیوں ؟

 

وہ پھر سے زہر اگل رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، لگتا زہر افشانی اس کی گٹی میں پلائی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، پتا نہیں اسے کس کی پشت پناہی حاصل تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، کس کے ہاتھوں میں اس کا لگام تھا ؟ وہ آئے دن لوگوں کے جزبات کا مذاق اڑاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔، اور شاید یہ کسی کی آزمائش کی گھڑی تھی، لگتا ہے قدرت حقیقی محبت کا معیار واضح کرنا چاہتی تھی ۔

جو بھی ہو اس طرح کی بے باکی اور کسی کی حرمت پر انگشت نمائی ایک بڑے طبقے کے لوگوں کا آبگینہ دل پارہ پارہ کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، اس فحش گو کا ہر لفظ کسی کے جسموں کو چھلنی کررہاتھا ، اس کے زہر آلود بیانات بہت سے لوگوں کی بے قراری کی وجہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، بہت سے لوگوں کا چین و سکون غارت ہواجارہا تھا ،

ان کے پاس اس ظالم کے خلاف تحریری اور تقریری احتجاج کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا حتی کہ ان میں سے کسی نے اس ظالم کو دعوت مباہلہ تک دے ڈالا تھا یعنی اگنی پریکھچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، نیز یہ لوگ حکومتی سطح پر بڑی بے بسی کاشکار تھے ، چاہ کر بھی اس فحش گو اور ظالم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکتے تھے ،

ان کی یہ بے بسی ان کے محبوب کے آگے بڑی شرمندگی کی وجہ تھی ، انہیں یہ سوچ اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی کہ آج نہیں تو کل چہرہ والضحی کا سامنا ہوگا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مازاغ نگاہوں کے سامنے حاضری ہوگی ، ————والیل زلفوں کی بوسہ لیتی ہوئیں ہوں گی اور وہ لوگ ہوں گے ———-پھر شب بھر ان کی خاطر اشک باری کرنے والے غمگسار آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لب وا ہوں گے ———-سوال ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اے میری محبت کے دم بھر نے والے !میری آبرو کی تحفظ میں تم نے کون سا اقدام کیا تھا ؟ ؟؟؟؟؟میرے حق میں مغلظات بکنے والے کے خلاف تمہارا رد عمل کیا تھا ؟؟؟؟؟؟؟

حرمت پیمبر پر جاں کی بازی لگادینے والے اسی تخیل و تصور میں زندگی بسر کررہے تھے ———–انہیں اپنے محبوب ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حضور پیشگی کا خو ف ستارہا تھا ———–ایسا بھی نہیں کہ یہ لوگ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہستی کی توہین سن کر خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے———بلکہ یہ سراپا احتجاج تھے ——-

مگر ایسے وقت میں انہیں اگر شکایت تھی تو ان مصلحت پسندوں سے تھی جو اسٹیجوں پر ایک خاص رقم کے عوض ان کے محبوب کی عظمت بیان کرتے نہیں تھکتے ———جو بھاری نذرانے وصول کرکے انہیں مکین گنبد خضری صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر مرمٹنے کی دعوت دیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان غلاموں کی دلی آرزوں تھی کہ کاش قوم کے ذمہ داران آج انہیں بے سہارا نہ چھوڑتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عظمت حبیب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہرہ دینے کے وقت گوشہ گمنامی میں پناہ گزیں نہ ہوتے ۔

از قلم : ابوصالح مصباحی اتر دیناج پور

مزید پڑھیں

دور حاضر کا دجال ”سنت رامپال

ناموسِ رسالت پر آپسی اتحاد وقت کا تقاضہ اور ضرورت

پیغمبر اسلام کی توہین اور انتظامیہ کی بےحسی

شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی ناقابل معافی جرم

شیئر کیجیے

Leave a comment