عصر حاضر میں دعوت و تبلیغ کا فقدان اور امت مسلمہ کی بد حالی
شھباز نصیری مصباحی
بحیثیت انسان ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ دوسروں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے جیسا کہ اگر ہم کسی کو کنویں میں گرتا دیکھیں تو اسے بچانا ہمارا فرض ہے اسی طرح اگر ہم کسی بھاٸی کو جہنم میں گرتا دیکھیں تو اسے بھی بچانا ہمارا فرض ہوتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(كنتم خير امة اخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر) اسی لیے جہاں ہم پر یہ ضروری ہے کہ ہم خود کو برائیوں سے دور رکھیں وہی ہمارا مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دوسروں کو بھی دینی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کرکے انہیں برائیوں سے روکنے کی سعی محمود و مطلوب کریں۔
اب جب ہم یہ جان لیے کہ دین اسلام کی تبلیغ ہمارا مشترکہ فریضہ ہے تو اب دعوت و تبلیغ کے حوالے سے قرآنی اصول و طریق کار بھی ملاحظہ کریں :قرآن کہتا ہے: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو ( سورت النحل) اس آیت مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں تبلیغ دین کے لئے ہمیشہ کوشاں رہنا چاہیے اور خوبصورت و پرکشش پیرایہ بیان اور عمدہ و مؤثر طریقہ اپنانا چاہیے اور اگر ہم کسی سے مباحثہ کریں تو شائستہ انداز گفتگو اختیار کرنا چاہیے۔
اور بحیثیت مسلمان ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک اشاعت اسلام بھی ہے اور شاید کہ اس بات سے کوئی بھی نہ آشنا نہیں ہے کہ دنیا میں انبیا و رسل کی جلوہ گری کا بنیادی مقصد سماج و معاشرے کی اصلاح ہی تھا چاہے عقیدے کی اصلاح ہو یا عمل کی .آپ سوچیں جب بھی دنیا میں برائی عام ہوٸی معاشرہ تباہی کی طرف مائل ہوا تو اللہ تعالی نے امت کی اصلاح کے لیے کسی نبی کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اس کے درمیان دین حق کی تبلیغ اور معرفت الہی کا تمغہ فراہم کرے نیز جب بھی کسی نبی کو کسی قوم کی طرف بھیجا گیا تو بڑی بڑی قوتوں کے مقابلے میں تن تنہا اور بغیر کسی ظاہری اقتدار کے بھیجا گیا ۔ اللہ تو مالک کل ہے وہ چاہتا تو تمام انبیائے کرام کو ان بڑی بڑی قوتوں کے مقابلے باطنی قوت کے ساتھ ساتھ ظاہری قوت و طاقت کے ساتھ بھیجتا لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ وہ تنہا آئے اور بلاخوف و خطر اپنے فرائض انجام دیے۔بلاشبہ اس راہ میں ان نفوس قدسیہ کو طرح طرح کی مشقتوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا,مایوس کن و اعصاب شکن حالات سے دوچار ہوئے۔باطل قوتوں نے سر اٹھایا مگر انہوں نے اپنی ذمہ داری سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سامنے خود کو جھکایا۔
علما و مبلغین کے لیے انبیائے کرام کی زندگیاں درس ہیں کہ اگر ہم حق کے ساتھ دین حق کی تبلیغ اور معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں تو کوئی بھی طاقت ہمیں روک نہیں سکتی۔ آج ہم تبلیغ کو آسان تصور کرتے ہیں اور بڑی آسانی کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ ہر گز یہ کام اس قدر آسان نہیں ہے بلکہ آپ کو تکالیف برداشت کرنے پڑیں گے۔ آپ اس کام کے لیے نکلے ہیں تو آپ کو انبیاء کرام کی سنتوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا, گوناگوں قربانیاں پیش کرنی پڑیں گی، آپ انبیاۓ کرام کی تاریخ کا مطالعہ کریں کوٸی بھی نبی ایسا نہیں ہے جو اصلاح امت کی کوشش کی ہو اور اسے آتشکدوں سے نہ گزارا گئے ہوں, ان پر مصائب وآلام کے پہاڑ نہ ڈھائے گئے ہوں۔آپ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھیں آپ پر تو ظلم و ستم کی انتہا کر دی گئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کے لیے جس زمین پر بھیجا گیا تھا وہ زمین درندہ صفت انسانوں سے بھری ہوئی تھی زہر آلود فضا سے مملو وہاں کا ماحول تھا لیکن حضور نے اس انداز میں تبلیغ کے فرائض انجام دیے کہ ان سخت پتھر دل انسانوں کو احساس انسانیت و باہمی اخوت و محبت سے مالا مال کردیا اور انہیں معرفت خداوندی کی نعمت سے بہرہ مند کیا۔ افسوس! ہم نے تبلیغ کے تمام تر پہلوؤں کو نظر انداز کرکے تبلیغ کا ایک پہلو اپنا لیا ہے وہ ہے مروجہ دینی جلسہ و جلوس اور اسی کو اپنا ذریعہ معاش بنا رکھا ہے ہمارے مقررین حضرات کا تو کہنا ہے” وما علينا إلا البلاغ "یعنی ہمارا کام صرف پہنچا دینا ہے چاہے مائیک توڑ کے ہو یا کرسی توڑ کے، آج ہمارے خطبا صرف جارحانہ اسلوب اختیار کرتے ہیں دلی خیر خواہی کا جذبہ ان سے نکلتا جا رہا ہے اور نام و نمود کے خوگر بنتے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم بدحالی کا شکار ہو چکے ہیں ۔سماج میں پھیلی برائیوں کا سیلاب تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔آئے دن ہماری تباہی و بربادی کے نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں کوئی ایسی سرزمین نہیں ہے جہاں پر مسلمان امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوں۔ سیریا,عراق,فلسطین اور شام کو دیکھیں, امام غزالی, جنید بغدادی, امام اعظم اور رابعہ بصری کی سرزمین کو دیکھیں یہ وہ مقدس سرزمین ہیں جو انبیائے کرام و اولیاۓ کرام کی آماجگاہ رہی ہیں مگر آج وہاں کے افسوس ناک حالات دیکھیے اور خون کے آنسو روئیے۔ آج ان زمینوں پر اغیار قسم قسم کے مظالم ڈھا رہے ہیں, امت مسلمہ کا خون اس قدر سستا ہوگیا ہے کہ آئے دن سینکڑوں لاشیں تڑپتی ہیں ۔ آخر ایسا کیوں یہ ہمارے تبلیغ نہ کرنے کا نتیجہ ہے
طریقہ مصطفی کو چھوڑنا ہے وجہ بربادی
اسی سے قوم دنیا میں ہوٸی بےاقتدار اپنی
اگر ہم آج بھی تبلیغ کے سلسلہ کو جاری رکھتے اصلاح امت کی کوشش کرتے تو ہمارے مسلمانوں کا خون اس قدر نہ بہایا جاتا۔ جن زمینوں سے دنیا کو اسلام کا شعور ملا ہے, اسلام کی آبیاری ہوئی ہے آج ان جگہوں پر اغیار کی اقتدار ہے اور وہ پوری طرح سے اسلامی تعلیمات کو روندتے نظر آرہے ہیں ہم امت مسلمہ کے لیے یہ ایک بڑا المیہ ہے جس کے حل و تدارک کے لیے ہمارے ذمہ دار افراد کو کمربستہ ہونا چاہیے۔
شھباز نصیری مصباحی
اتر دیناج پور(بنگال)