اعلیٰ حضرت مخالفین کی نظر میں
از: محمد زاہد رضا
چودھویں صدی کے مجدد، اعلیٰ حضرت، عظیم المرتبت، قاطع شرک و بدعت، شہنشاہ شعر و سخن، امام اہل سنن،فاضل جلیل، عالم نبیل،محدث عدیل،فخر اکابر،الشاہ مفتی امام احمد رضا خان محدث بریلوی حنفی رحمتہ اللّہ علیہ ایک جید اور مخلص عالم تھے، آپ کے اندر محبت رسول اور عشق نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، تمام علوم و فنون میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھا، آپ نے جس میدان میں قدم رکھا فتوحات کے علم نصب فرمائے۔ آپ نے "فتاوٰی رضویہ” اور "الدولۃ المکیہ” جیسی ضخیم اور عظیم کتاب تصنیف فرما کر بدعقیدوں کے صدور میں نوکیلا خنجر پیوست کردیا، جس کے درد سے آج بھی یہ لوگ تڑپ رہے ہیں اور علاج کے لیے دوا ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہندوستان میں جب گستاخان رسول، وہابی،دیوبندی،مودودوی اور اہل حدیث نے اپنے سر کو بلند کیا تو آپ نے اپنے نوک قلم سے ان کی سرکوبی کی اور لوگوں کو ان کے شر اور مکر و فریب سے بچایا، اپنے تو اپنے اغیار بھی آپ کے علمی کارناموں اور تبلیغی خدمات سے متاثر ہوئے اور آپ کی تعریف و توصیف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
زیر نظر مضمون میں ان اشخاص کا ذکر کیا جارہا ہے جو آپ کے مخالفین میں سے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کے علمی کارناموں کی بنیاد پر، آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کی تعظیم و تکریم کرتے. قارئین ملاحظہ فرمائیں:
بانی دیوبندی مذہب مولانا قاسم نانوتوی صاحب:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب بیان کرتے ہیں: کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحب دہلی تشریف لائے اور ان کے ساتھ مولانا احمد حسن امروہوی اور امیر شاہ خان صاحب بھی تھے۔ رات کو جب سونے کے لیے لیٹے تو ان دونوں نے اپنی چار پائی ذرا ہٹ کر بچھائی اور باتیں کرنے لگے۔امیر شاہ صاحب نے مولوی حسن سے کہا:کہ صبح کی نماز ایک برج والی مسجد میں جاکر پڑھیں گے، سنا ہے کہ وہاں کے امام صاحب قرآن شریف بہت عمدہ پڑھتے ہیں۔
مولوی(حسن) صاحب نے کہا: کہ ارے پٹھان! جاہل ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو ہمارے مولانا نانوتوی صاحب کی تکفیر کرتا ہے، مولانا نانوتوی صاحب نے سن لیا اور زور سے فرمایا: احمد حسن میں تو سمجھتا کہ تو پڑھ لکھ گیا ہے مگر تُو تو جاہل ہی رہا پھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے، ارے! کیا قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا؟ میں تو اس سے اس کی دین داری کا معتقد ہوگیا، اس نے میری ایسی کوئی بات سنی ہوگی جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی، گو روایت غلط پہنچی ہو تو یہ راوی پر الزام ہے تو اس کا سبب دین ہی ہے، اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا،اور صبح کی نماز مولانا نانوتوی صاحب نے اعلیٰ حضرت کے پیچھے پڑھی۔ (افاضات الیومیہ ج،۴،ص، ٣٩۴)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے خلیفہ مفتی محمد حسن بیان کرتے ہیں: کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا: کہ اگر مجھے مولانا احمد رضا خان صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو میں پڑھ لیتا۔ (حیات امداد ص، ٣٨)
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں: کہ میں علما کے وجود کو دین کی بقا کے لیے اس درجہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سارے علما ایسے مسلک کے بھی ہوجائیں جو مجھ کو کافر کہتے ہیں(بریلوی صاحبان) تو میں پھر بھی ان کی بقا کے لیے دعائیں مانگتا رہوں گا، کیوں کہ وہ بعض مسائل میں غلو کریں اور مجھ کو برا کہیں لیکن وہ تعلیم تو قرآن و حدیث ہی کی کرتے ہیں۔
ایک صاحب نے حضرت تھانوی صاحب کی خدمت میں ایک مولوی صاحب کا ذکر کیا کہ انھوں نے تو جناب کی ہمیشہ بڑی مخالفت کی، تو بجاے ان کی شکایت کے یہ فرمایا کہ میں اب بھی کہتا ہوں کہ شاید ان کی مخالفت کا منشا حب رسول ہو۔(افاضات الیومیہ ج، ١۰،ص، ٢۴۵)
حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کی اطلاع جب حضرت تھانوی کو ملی، تو حضرت نے "اِنّا لِلّہ وَاِنّااِلیہ راجعون” پڑھ کر فرمایا: فاضل بریلوی نے ہمارے بعض بزرگوں یا ناچیز کے بارے میں جو فتوے دیے ہیں وہ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے سے مغلوب و محجوب ہو کر دیے ہیں، اس لیے اِن شاء اللٰہ تعالیٰ عند اللہ معذور، مرحوم اور مغفور ہوں گے، میں اختلاف کی وجہ سے ان کے متعلق تعذیب کی بدگمانی نہیں کرتا۔(امسلک اعتدال ص، ٨٧)
دیوبندی محدث انور شاہ کشمیری صاحب
دیوبندی محدث انور شاہ کشمیری صاحب لکھتے ہیں:
جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروحات لکھ رہا تھا، تو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے ضرورت پیش آئی،تو میں نے شیعہ حضرات، اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگر ذہن مطمئن نہ ہوا، بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہوگیا کہ اب بخوبی احادیث کی شروحات بلا جھجک لکھ سکتا ہوں، تو واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریں شستہ اور مضبوط ہیں، جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا خان صاحب ایک زبر دست عالم دین اور فقیہ ہیں۔(رسالہ دیوبند. ص، ٢١ جمادی اولیٰ ١٣٣۰ھ)
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب
دیوبندی قطب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب نے کئی مسائل میں اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمہ کے فتاوٰی بعینہ درج کیے ہیں اور آپ کے کئی فتاوٰی کی تصدیق کی ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ، ص، ٢۴۵)
دیوبندی شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب
دیوبند کے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں: مولانا احمد رضا خان کو تکفیر کے جرم میں برا کہنا بہت ہی برا ہے، کیوں کہ بڑے عالم دین اور بلند پایہ محقق تھے، مولانا احمد رضا خان کی رحلت عالم اسلام کا ایک بڑا سانحہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔(رسالہ ہادی دیوبند ص، ٢۰)
سید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں:
اس احقر نے مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب کی چند کتابیں دیکھیں تو میری آنکھیں خیرہ کی خیرہ رہ گئیں، حیران تھا کہ واقعی مولانا بریلوی صاحب مرحوم کی ہیں جن کے متعلق کل تک یہ سنا تھا کہ وہ صرف اہل بدعت کے ترجمان ہیں اور صرف چند فروعی مسائل تک محدود ہیں، مگر آج پتا چلا کہ نہیں ہر گز نہیں یہ اہل بدعت کے نقیب نہیں بل کہ یہ تو عالم اسلام کے اسکالر اور شاہکار نظر آتے ہیں،جس قدر مولانا مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے اس قدر گہرائی تو میرے استاذ مکرم جناب شبلی صاحب اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اور حضرت شیخ التفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں ہے، جس قدر مولانا بریلوی کی تحریروں کے اندر ہے۔(ماہنامہ ندوہ اگست، ١٩٣١،ص، ١٧)
مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب
مولانا ابوالحسن علی ندوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر جوان(فاضل بریلوی) کو جو عبور حاصل تھا اس زمانہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔(نزہۃ الخواطر، ج،٨،ص، ۴١)
مولانا ابو الاعلیٰ مودودوی صاحب
جماعت اسلامی کے مولوی ابو الاعلیٰ مودودوی صاحب لکھتے ہیں: مولانا احمد رضا خان صاحب کے علم و فضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے، فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی نظر رکھتے تھے اور ان کی فضیلت کا اعتراف ان لوگوں کو بھی جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔
نزاعی مباحث کی وجہ سے ہے جو تلخیاں پیدا ہوئیں وہی در اصل ان کی علمی کمالات اور دینی خدمات پر پردہ ڈالنے کی موجب ہوئیں۔( ہفت روزہ شہاب ٢۵ نومبر، ١٩۶٢ء)
صحافی منظور الحق
جماعت اسلامی کے مشہور صحافی منظور الحق لکھتے ہیں: جب ہم امام احمد رضا خان کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنی علمی فضیلت اور عبقریت کی وجہ سے دوسرے علما پر اکیلا ہی بھاری ہے۔(ماہنامہ حجاز جدید نئی دہلی، جنوری ١٩٨٩ ص،۵۴)
قارئین! مندرجہ بالا مضمون پڑھنے کے بعد معلوم ہوگیا کہ اعلیٰ حضرت کی ذات کتنی معتبر اور عظیم تھی، اعلیٰ حضرت نے تعلیم نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کی نشر و اشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کردی اور آپ کے علم کا ڈنکا صرف ہندوستان ہی میں نہیں بل کہ بیرونی ممالک میں بھی بج رہا ہے،اگر بر وقت اعلیٰ حضرت اپنے قلم کو اٹھا کر بدعقیدوں کے خلاف فتوے نہ دیتے اور ان کا آپریشن نہ کرتے تو آج ہم گمراہیوں کے سمندر میں غوطہ زن رہتے اور عشق رسول بھی ہمارے دلوں سے محو ہوجاتا، لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اعلیٰ حضرت نے بر وقت اپنا قلم اٹھا کر ہم لوگوں کو بد عقیدوں کے مکر و فریب اور ان کی گمراہیوں سے بچایا اور سچا عاشقان رسول بنایا۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو مسلک اعلیٰ حضرت پر چلنے اور ان پر دائم و قائم رہنے کی توفیق و رفیق عطا فرمائے۔ آمین
از: محمد زاہد رضا، دھنباد
متعلم،جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
(رکن:مجلس علماے جھارکھنڈ)