آنگن میں آفتاب
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
___________چاروں طرف گھنا اندھیرا…اتنا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے….… جدھر دیکھا گھٹا ٹوپ تاریکی…زمین سے لیکر آسمان تک صرف اندھیرے کا بسیرا۔اس اندھیرے میں سورج نہ چاند، چراغ نہ بتّی…گہراتے اندھیروں کا احساس دل پر بوجھ بن رہا تھا… سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر اتنا اندھیرا کیوں ہے؟دور دور تک کسی روشنی کی کرن نظر نہیں آرہی تھی…اندھیروں کا زور بڑھتا ہی جارہا تھا… اس کے راستے میں آنے والی ہر گھڑی اندھیرے کا حصہ بن رہی تھی…اچانک آنگن میں آفتاب اتر پڑا… اس کی کرنیں پھوٹنے لگیں…ہر لمحہ بڑھتی روشنی سے اندھیرا چھٹنے لگا…آنگن میں اترے سورج کی روشنی صرف گھر اور آنگن تک ہی محدود نہ رہی… لمحہ بہ لمحہ بڑھتی رہی…گھر آنگن کے بعد آس پاس کے مکان بھی روشن ہونے لگے…اندھیروں کے سائے سمٹنے لگے…دیکھتے ہی دیکھتے پاس پڑوس کے سارے مکان روشن ہوگئے… مگر روشنی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی…آفتاب کی کرنیں دَم بدَم تیز ہورہی تھیں…بڑھتی ہوئی روشنی سے پورا شہر روشنی میں نہا اٹھا…کچھ وقت پہلے تک سارے ماحول پر راج کرنے والا اندھیرا اب چھپتا چھپاتا اور بچتا بچاتا پھر رہا تھا…کبھی اس گلی تو کبھی اس گلی…اس مکان تو کبھی اس مکان…مگر پورے شہر میں گلی تو کجا کسی ایک مکان میں بھی اندھیرے کو پناہ نہ ملی…یہاں تک اندھیرا روشنی سے ہار گیا اور شہر کا ایک ایک مکان آفتاب کی روشنی سے جگ مگا اٹھا۔
_______ویسے تو آفتاب آسمان سے روشنی لٹاتا ہے مگر یہ انوکھا آفتاب تھا جو اُس خاتون کے آنگن میں اترا تھا…وہ آفتاب مکانوں کے ساتھ ساتھ اس خاتون کے دل کو بھی روشن کر چکا تھا…ایک میٹھا سا احساس دل میں جگہ بنا چکا تھا…مٹھاس اور روشنی کا احساس دل کو گُد گُدا ہی رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی…تب احساس ہوا کہ جو کچھ دیکھا وہ تو ایک خواب تھا…بستر اور باہر سے آتی ہلکی ہلکی روشنی نے بتا دیا کہ وہ خواب ہی تھا اور کچھ نہیں، مگر دل سے آواز آرہی تھی کہ یہ خواب ایسا خواب نہیں لگتا جو ہوا کی طرح آئے اور بادل کی طرح اڑ جائے…دل ودماغ میں عجیب سی جنگ جاری تھی…دماغ خواب و خواب سمجھنے کی تلقین کر رہا تھا تو دل اسے آنے والے وقت کی اٹل حقیقت بتا رہا تھا…کہنے کو وہ خاتون نہایت زیرک، ہوش مند اور عقل مند تھیں مگر آج نہ جانے کیوں دل دماغ کو جھٹلا رہا تھا… جب دل ودماغ کے مابین فیصلہ کرنا مشکل ہوا تو سوچا کیوں نہ کسی عالم وفاضل سے خواب کی تعبیر پوچھ لی جائے تاکہ دماغ کو بھی اطمینان ہوجائے اور دل کو بھی قرار آئے… یہی سوچ کر اس خاتون نے ایک فاضل زمانہ کی خدمت میں اپنا خواب بیان کیا… جیسے جیسے فاضل دانش ور خواب سنتا گیا، چہرے کے اثرات بدلتے گئے… ایک خاص قسم کے اثرات سے چہرہ چمکنے لگا، آخر وہ فاضل بول اٹھا:
اے نیک بخت خاتون بہت بہت مبارک ہو!
کیسی مبارک باد؟
اسی خواب کی جو تم نے مجھ سے بیان کیا۔
ذرا تفصیل سے بتائیں کہ آخر اس کی تعبیر کیا ہے؟
خاتون نے بڑی بے قراری سے کہا۔
اے طاہرہ! عنقریب تمہیں ایسے عظیم شوہر کی رفاقت میسر آئے گی جو زمانے کی تمام تر اچھائیوں کا پیکر اور عدل وانصاف کا آفتاب ہوگا۔جس کے کردار کی روشنی سے پورا شہر فیض یاب ہوگا۔ظلم اور ناانصافی کے اندھیرے اس کی صداقت کے نور سے ہار جائیں گے۔اِس شہر کا کونا کونا اُس کے عدل وانصاف سے بھر جائے گا۔
معبر کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اُس خاتون کے دل پر مانو رم جھم پھُہار کی طرح برس رہے تھے…دل نے سرگوشی کی، کیا میں واقعی اتنی خوش نصیب ہوں کہ زمانے کی تمام خوبیوں کا مالک میرا شوہر ہوگا…احساس یقین میں نہ بدلتا اگر کہنے والا عام نجومی ہوتا مگر کہنے والا بڑا معتبر اور یکتائے زمانہ تھا اس لیے خاتون کو یقین ہوگیا کہ ایسا ہی ہوگا۔اس یقین کا دل میں اترنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا مانو زمانے بھر کا سکون دل میں سما گیا اور اب وہ نیک خاتون اسی خواب کی تعبیر میں سراپا انتظار بنی ہوئی تھی۔
آپ جانتے ہیں یہ نیک خاتون کون تھیں؟؟
یہ نیک خاتون ہم اہل ایمان کی ماں، طیبہ، طاہرہ، ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنھا تھیں۔
جو عام الفیل سے (حضور ﷺ کی ولادت سے) قریب پندرہ سال پہلے مکہ مکرمہ کے ایک معزز شخص خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی کے گھر میں پیدا ہوئیں۔پانچویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضور پاکﷺ کے نسب سے جڑ جاتا ہے۔
آپ ہی نے یہ مبارک خواب دیکھا کہ اندھیروں کے بیچ ایک آفتاب ان کے آنگن میں اتر آیا ہے اور سارے زمانے میں اُنہیں کے گھر سے نور پھیل رہا ہے۔خواب کی تعبیر بتانے والے عالم وفاضل اُن کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل تھے۔جیسا انہوں نے بتایا ویسا ہی ہوا۔ملک شام کے دوسرے سفر کے بعد وہ خوب صورت گھڑی بھی آگئی جب سیدہ خدیجہ نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئیں۔اس طرح آپ کو آفتاب نبوت کی زوجیت اور رفاقت کی سعادت حاصل ہوئی۔
یہ سیدہ خدیجہ ہی تھیں جو اُس زمانے میں طاہرہ (بلند کردار والی) کہلاتی تھیں جب آوارگی کا چلن عام تھا۔
آپ ہی کے مال نے اسلام کی اس وقت کفالت کی جب اسلام بہت کمزور تھا۔
آپ ہی کے بطن اقدس سے سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہن جیسی مقدس شہزادیوں نے جنم لیا۔
آپ ہی کے گلشن میں سیدنا عبد اللہ اور سیدنا قاسم جیسے نایاب پھول مہکے۔
آپ ہی کی راحت جاں سیدہ فاطمہ زہرا جنتی خواتین کی ملکہ قرار پائیں تو آپ کے نواسے حسنین کریمین کو جنتی جوانوں کی سرداری ملی۔
آپ کی دامادی کا شرف پا کر سیدنا عثمان غنی ذوالنورین اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما باب مدینۃ العلم کے رتبے سے سرفراز ہوئے۔
آپ ہی نے پیغمبر آخر الزماں کی سب سے پہلے تصدیق کی اور ایمان لائیں۔
اپنا سارا مال ودولت آپ پر اور دین کی تبلیغ پر خرچ کیا۔
جنہیں آفتاب نبوت کے ساتھ پچیس سال تک بلا شرکت غیرے رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
جنہوں نے اپنے خواب کی تعبیر کے طور پر اپنے گھر سے ہدایت وصداقت کی روشنی سے مکے کے گھروں کو روشن ہوتے دیکھا۔
جن کی رفاقت نے تاج دار کائنات ﷺ کو ہر غم سے بے نیاز رکھا۔
جو پیغمبر اسلام کی غم خوار اور امت کی مادر مشفقہ تھیں۔
جن کے مال سے حضرت زید کو نبی اکرمﷺ کی رفاقت نصیب ہوئی۔
اپنا سب کچھ آفتاب نبوت پر نچھاور کرکے شفقت ومحبت کی پیکر، تقوی وطہارت کی مورت، سید عالم ﷺ کی قلب پاک کی راحت، سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا ہجرت سے تین سال قبل ہی خدا کی مہمان ہوگئیں۔
آپ کی جدائی کا غم صاحب لولاکﷺ پر اس قدر بھاری گزرا کہ وہ سال "غم کا سال” مانا گیا۔
جو بعد وصال بھی پیغمبر اسلام کی یادوں کا اٹوٹ حصہ رہیں یہاں تک کہ ان کے تئیں حضور پاک ﷺ کی لازوال محبت دیکھ کر سیدہ عائشہ صدیقہ رشک فرماتی تھیں۔
سِیّما پہلی ماں، کہف امن و اماں
حق گزار رفاقت پہ لاکھوں سلام
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
١٢ جمادی الآخرہ ١٤٤٤ھ
5 جنوری 2023 بروز جمعرات