اسماعیل دہلوی کے کفریات متواتر
طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
(1)امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا کہ اسماعیل دہلوی کے کلمات کفر اعلی درجہ کے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔
ایسی صورت میں یہ دعویٰ کرنا کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کو دہلوی کے کفریات تواتر کے ساتھ موصول نہ ہو سکے٫لہذا آپ نے دہلوی کی تکفیر کلامی نہیں کی۔یہ ایک مغالطہ ہے۔
نیز صحیح تکفیر کلامی کے بعد اس سے اختلاف کی کوئی صورت نہیں۔ہمارے رسالہ:”مسئلہ تکفیر اور تحقیق و تصدیق”میں اس کی تفصیل ہے۔
(2)حضرت علامہ خیر آبادی قدس سرہ العزیز سے تقویۃ الایمان کے مسائل پر اسماعیل دہلوی سے جامع مسجد دہلی میں مناظرہ کا دعویٰ ایک مغالطہ ہے۔
حضرت علامہ خیر آبادی قدس سرہ العزیز اس مناظرہ میں شریک نہیں تھے اور اس وقت اردو تقویۃ الایمان لکھی نہیں گئی تھی۔نیز دہلوی اس مناظرہ میں خاموش تھا اور درمیان بحث بھاگ نکلا۔وہ مناظرہ عبد الحی بڈھانوی سے ہوا تھا۔
ہمارے رسالہ:”معروضات وتاثرات”(حصہ چہارم)میں تفصیل ہے۔
بالفرض اگر مناظرہ ثابت ہوتا تو بھی یہ کہنا درست نہ ہوتا کہ اسماعیل دہلوی کے کلمات کفر اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کو خبر واحد سے ملے٫لہذا آپ نے دہلوی کی تکفیر کلامی نہیں کی٫کیوں کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے خود ہی رقم فرمایا ہے کہ دہلوی کے کفریہ کلمات اعلی درجہ کے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔
ان کلمات کفر سے مناظرہ میں صادر ہونے والے کلمات کفر کو مستثنی کرنا غلط ہو گا٫کیوں کہ وہ مجمع عام میں مناظرہ ہوا تھا۔
(3)یہی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسماعیل دہلوی کی تکفیر کلامی کی بات صرف سیف الجبار میں مرقوم تھی اور یہ ایک عالم کی تصنیف ہے٫لہذا امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کو تواتر کے ساتھ دہلوی کی تکفیر کلامی کی خبر نہ پہنچ سکی٫لہذا آپ نے دہلوی کی تکفیر فقہی کی۔تکفیر کلامی نہیں کی۔
جواب یہ ہے کہ نماز پنج گانہ کا ثبوت اعلی درجہ کے تواتر کے ساتھ ہے٫لیکن اس کا ذکر اخبار آحاد میں ہے۔اسی طرح کسی امر کے متواتر ہونے کے لئے اس کا کتابوں میں مرقوم ہونا ضروری نہیں ہے۔
احادیث طیبہ قریبا ایک صدی بعد مجدد صدی اول و خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے ضبط تحریر کی جانے لگیں٫اس کے باوجود محدثین بہت سی حدیثوں کو متواتر کہتے ہیں٫پس ثابت ہو گیا کہ کسی امر کے متواتر ہونے کے لئے اس کا کتابوں میں مرقوم ہونا لازم نہیں۔
اسماعیل دہلوی برصغیر میں وہابیت کا ناشر اول تھا۔علامہ خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے اس پر جو حکم کفر عائد فرمایا٫اس کا خوب شہرہ ہوا۔یہاں تک کہ وہابیہ اپنی باتوں کی تاویل کرنے لگے۔عوام وخواص کے درمیان اس کی تکفیر کی خبر خوب مشتہر ہوئی۔یہاں تک کہ سرحدی علاقوں کے سنی مسلمانوں کو بھی اس تکفیر کی خبر ہو گئی اور اسی خبر کی بنیاد پر سنی علما وعوام اسماعیل دہلوی کی حمایت سے جدا ہوئے اور بالا کوٹ میں سنی مسلمانوں کے ہاتھوں پیر ومرید کا قتل ہوا۔
وہ جسے وہابیہ نے لقب دیا ہے شہید وذبیح کا
وہ شہید لیلی نجد تھا وہ ذبیح تیغ خیار ہے
علما کو ضرور معلوم ہو گا کہ دہلوی کی تکفیر کلامی ہوئی ہے٫پھر آج تک دہلوی کی تکفیر کی خبر اعلی درجہ کے تواتر کے ساتھ برصغیر میں مشتہر ہے۔اہل علم اس سے واقف ہیں۔
ایسی صورت میں یہ کہنا کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کو تواتر کے ساتھ دہلوی کی تکفیر کلامی کی خبر نہ ہو سکی٫یہ ایک قبیح مغالطہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سرحدی علاقوں کے علما وعوام کو خبر ہو جائے اور وہ اسی وجہ سے دہلوی سے جدا ہو کر اس سے جہاد کریں اور اسے قتل کریں اور دہلی سے قریب بریلی کے ایسے عالم کو دہلوی کی تکفیر کلامی کی خبر تواتر کے ساتھ نہ ملے جو خود اور ان کے والد ماجد زندگی بھر رد وہابیہ فرماتے رہے ہوں۔یہ تعجب بالائے تعجب ہے۔
(4) علامہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ العزیز تو علامہ فضل حق خیر آبادی قدس سرہ العزیز کے ہم عصر تھے٫وہی سیف الجبار کے مصنف ہیں۔وہ بھی زندگی بھر رد وہابیہ کرتے رہے٫انہوں نے بھی دہلوی کی تکفیر کلامی نہیں کی۔کیا ان کو بھی دہلوی کی تکفیر کلامی کی خبر تواتر کے ساتھ نہ مل سکی؟
(5)عہد حاضر میں جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے دہلوی کی تکفیر کلامی تھی.ان کو تواتر کے ساتھ یہ خبر موصول ہوئی یا نہیں؟
اگر تواتر کے ساتھ موصول ہو گئی ہے تو اس پر لازم ہے یا نہیں کہ وہ دہلوی کو کافر کلامی مانیں؟
اگر وہ اس کو کافر کلامی نہ مانیں تو اس پر کوئی شرعی حکم وارد ہو گا یا نہیں؟
(6)حقیقت یہ ہے کہ زبان وقلم سے غلط بات ظاہر ہو گئی تو اب اس کو صحیح بتانے کے واسطے اسلام کے اصول و ضوابط کی بے جا تاویل کی جاتی ہے۔شیطان اور نفس امارہ حق بات قبول کرنے سے مانع ہوتا ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:23:اپریل 2023