عظمتِ اسلام و مسلم صرف قربانی میں ہے
ابرار احمد القادری، مصباحی
قربانی دین کی شان ہے اسلام کا ایک عظیم نشان ہے۔ انبیاء سابقین کی سنت ہے۔ قربانی ایک عالم گیر عبادت ہے۔ مذہب اسلام کے دیگر مذاہب و دھرم میں بھی قربانی کی روایت پائی جاتی ہے۔ صرف ناموں کا فرق ہے۔ کسی نے قربانی کو "بلیدان” کہا، تو کسی نے "نروان” کا نام دیا تو کسی نے "اضحیہ” اور قربانی سے اس عبادت کو موسوم کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی تاکہ وہ اللہ کا نام لے اس کے دیئے ہوئے بے زبان چوپایوں پر اور تمہارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے آگے سر جھکاؤ اور خوشخبری سنا دو تواضع اختیار کرنے والوں کو۔ [سورہ حج /آیت ٣٤]
مذکورہ ارشاد باری تعالیٰ سے واضح ہو گیا کہ قربانی ایک پرانی رسم ہے گزشتہ قوموں میں بھی یہ قربانی کا رواج تھا ہر ایک امت اپنے اپنے مذہبی اصول کے مطابق فریضئہ قربانی ادا کرتی تھی۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
یہ سچ ہے کہ ما سبق میں بعض انبیائے کرام کے دور کی قربانیاں شرارے دار آگ کے ذریعے جلا دی جاتی تھیں۔ قربانی کے ذبح شدہ جانوروں کی طرح مال غنیمت میں بھی اسی طرح بارگاہ خداوندی میں پیش کیے جاتے تھے اور اختلاف کی صورتوں میں اسی طریقے سے مقبول اور غیر مقبول قربانیوں میں فرق بھی کیا جاتا تھا۔ جو اپنی بات میں سچا ہوتا اس کی قربانی کو آگ جلا ڈالتی تھی۔ چناں چہ ہابیل و قابیل کا ایک عورت عقیمہ کے بارے میں اختلاف ہوا کہ وہ کس کے لیے حلال ہے؟ تو ان دونوں نے قربانیاں ہی پہاڑ پر رکھیں اور ہابیل کی قربانی مقبول ہوئی اور بہت سے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والتسلیم اسی طرح قربانیاں اللہ عزوجل کے حضور پیش فرماتے رہے۔ (تفسیر نعیمی ج: ٤/ص/٤٢٦)
مذکورہ اقتباس سے دو باتیں بالخصوص معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ رسمِ قربانی گزشتہ اقوام میں بھی پائی جاتی تھی اور بہت سے انبیائے کرام اپنے رب کی بارگاہ میں قربانی کا تحفہ پیش کیا کرتے تھے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ گزشتہ امتوں میں قربانی پیش کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی کے گوشت پہاڑ پر رکھ دیے جاتے تھے اور جو اپنی بات میں سچا ہوتا اس کی قربانی آگ جلا ڈالتی تھی۔
جب قربانی کی روایت پچھلی امتوں میں رائج تھی تو پھر امت محمدیہ جو خیر امت ہے تو اس فضل و شرف اور قربانی جیسی عظیم الشان عبادت سے کیسے محروم رہ سکتی تھی؟ اس لیے امت محمدیہ پر بھی قربانی واجب کی گئی تاکہ دوسری قوموں کے ساتھ امت محمدیہ اس مقدس و مبارک فریضہ پر عمل کرنے سے محروم نہ رہ جائے۔
اور پھر قربانی کے بے شمار فضائل و برکات ہیں ہمارے نبی ﷺ کو قربانی کا حکم دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے "فَصَلِّ لِرَبِّك وَالنَّحَرْ” اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ (سورہ الکوثر)
حدیث پاک میں قربانی کی بڑی فضیلت آئی ہے "ابن ماجہ نے زید ابن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللهﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: "تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے” لوگوں نے عرض کیا اس میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے تو آپ نے فرمایا: "ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے” عرض کی اون کا کیا حکم ہے فرمایا: "ہر اون کے بدلے نیکی ہے” (سنن ابن ماجہ)
قربانی ایک عظیم عبادت ہے
اور جب تک اہل ایمان، مسلمانوں نے قربانی کی عظمت و رفعت اور اس کی حقیقت و اہمیت کو سمجھا اور اس کے تقاضوں پر عمل کرتے رہے_____ اسلام اور مسلمانوں کا دور دورہ رہا_____ حکومت و اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا______ دنیا پر ہماری حکمرانی تھی۔ لیکن جب سے مسلمانوں کے اندر قربانی کا یہ جذبئہ صادقہ ماند پڑ گیا، مسلمانوں کی ذلت و پستی کا دور دورہ شروع ہو گیا اور عظمت و سرخروئی کے بجائے ذلت و رسوائی مسلمانوں کا مقدر بن گئ۔
آج اگر مسلمان اس گرداب و بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں تو یہ کسی اور کی مسلط کردہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی اپنے ہاتھوں کی کرتوت ہے_____
آج بھی اگر مسلمان قربانی کی اصل روح یعنی ہر کام اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے کریں تو پھر وہ دن دور نہیں کہ مسلمانوں کے جھنڈے فضاۓ بسیط میں لہرانے لگیں_____اور قرآن و سنت کے مطابق اگر مسلمان اپنی انا، ضد، نفرت، کینہ، حسد، بغض، اور تعصبات کے صنم خانے کو توڑ کر قربان کر دیں تو پورا عالم اسلام بحرانوں سے نجات پا کر اپنی عظمت رفتہ کو بحال کر لے گا۔