کیا رمضان المبارک کی خوشخبری دینے سے جنت واجب ہوتی یا جہنم حرام ہوتی ہے ؟
دو طرح کی جھوٹی روایتیں آج کل چل رھی ہے اس جھوٹی روایتوں سے بچئیں ۔۔۔۔۔
پہلی :من أخبر بخبر رمضان أولا حرام عليه نار جهنم
جو رمضان کی خبر سب سے پہلے دے گا اس پر جھنم حرام ہو جاتی ہے۔
دوسری: جسکا مفہوم یہ ہے:جو رمضان کےآنےپر سب سے پہلےخوشخبری دےاس کلیلیےجنت واجب ہو جاتی ہے ”
ان روایتوں کی کیا حقیقت ہے ؟
ایسی کوئی روایتیں نہ کبھی سنی ہے ، نہ پڑھی ہے ، نہ ہی تلاش کرنے سے کسی کتاب میں ملی ہے ،
سوشل میڈیا پر رمضان کی فضیلت کے بارے میں یہ بات گشت کررہی ہے ۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ اس جملہ کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کی جاتی ہے جبکہ یہ صحیح نہیں ہے، یعنی یہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ و سلم کا فرمان نہیں ہے۔ اور ایسی باتوں کو شیئر کرنے سے ھمیں بچنا چاہیۓ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ھے:
قَالَ أَنَسٌ إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَنْ تَعَمَّدَ عَلَىَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے.
(صحیح بخاری: ١۰۸)
اسی طرح علماء کرام اہلسنت نے بھی فتاوےجاری کئیےہیں ۔
میں یہاں دارالافتا اہلسنت ( دعوت اسلامی ) کا ایک فتویٰ شامل کرتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فتویٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا رمضان کی مبارک باد دینے سے جنت واجب ہو جاتی ہے؟
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی
فتوی نمبر: Pin-5605
تاریخ اجراء:20رجب المرجب1439ھ07اپریل 2018ء
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آمدِ رمضان کے متعلق یہ روایت بیان کی جا رہی ہے کہ جس نے سب سے پہلے کسی کو رمضان کی مبارک باد دی، اس پر جنت واجب ہو جائے گی۔ کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے؟ اور کیا اسے شیئر کر سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ماہِ رمضان المبارک بہت فضائل کا حامل ہے۔ اس کی آمد کی خوشخبری دینا اور فضائل بیان کرنا نہ صرف جائز، بلکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں:
واللفظ للاول:’’ قال نبي اللہ صلى اللہ عليه وسلم وهو يبشر اصحابه: قد جاءكم رمضان شهر مبارك، افترض عليكم صيامه، تفتح فيه ابواب الجنة و تغلق فيه ابواب الجحيم وتغل فيه الشياطين، فيه ليلة القدر خير من الف شهر، من حرم خيرها فقد حرم‘‘
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ( ماہِ رمضان کی آمد پر ) خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: تحقیق تمہارے پاس مبارک مہینا رمضان آ گیا ہے۔ اس کے روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں۔ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں ایک ایسی رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، جو اس میں بھلائی سے محروم رہا، تحقیق وہ محروم ہو گیا۔ ‘‘
( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصیام، جلد 2، صفحہ 419، مطبوعہ ملتان)
اس حدیث کے تحت علامہ ابن رجب حنبلی علیہ الرحمۃ ( متوفی 795ھ) فرماتے ہیں:
’’ قال بعض العلماء: هذا الحديث اصل في تهنئة الناس بعضهم بعضا بشهر رمضان ‘‘
ترجمہ: بعض علماء فرماتےہیں: یہ حدیث لوگوں کا ایک دوسرے کو رمضان کی مبارک باد دینے پر دلیل ہے۔‘‘
( لطائف المعارف، وظائف شھر رمضان، صفحہ 148، دارالکتب العلمیہ)
لیکن جہاں تک سوال میں مذکور روایت کا تعلق ہے، تو ایسی کوئی روایت نظر سے نہیں گزری، نہ علماء سے سنی، بلکہ ایسی باتیں عموماً من گھڑت ہوا کرتی ہیں اور یاد رہے! من گھڑت بات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قصداً منسوب کرنا حرام ہے۔ حدیث مبارک میں اس پر سخت وعید ارشاد فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’من کذب علی متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار‘‘
ترجمہ : جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد 1، صفحہ 21، مطبوعہ کراچی)
نیز بغیر تحقیق و تصدیق ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلانا بھی نہیں چاہیےکہ حدیث پاک میں ایسے شخص کو جھوٹا فرمایا گیا ہے۔
چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے:’’کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع‘‘ ترجمہ : انسان کے جھوٹا ہونے کو یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے ۔ ‘‘
(الصحیح لمسلم، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع، جلد 1، صفحہ 9،مطبوعہ کراچی)
لہذا ایسی روایات پر مشتمل میسجز اور پوسٹیں شیئر کرنے سے بچنا بہت ضروری ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
Dar-ul-IftaAhlesunnat (Dawat-e-Islami)
www.daruliftaahlesunnat.net daruliftaahlesunnat DaruliftAhlesunnat Dar-ul-Ifta AhleSunnat feedback@daruliftaahlesunnat.net
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی جھوٹی روایتوں کو بےتحقیق آگےشیئر کرنے کی سب سےبڑی وجہ جھالت ہے کہ ہمیں حدیث کا مفہوم ہی معلوم نہیں ہوتا کہ حدیث کہتے کسے ہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتااور ہر دینی بات کو حدیث کانام دےکر بیان کرہے ہوتے ہیں حلانکہ وہ یاتو کسی عالم یا خطیب صاحب کا قول ہوگا یا کسی کتاب سے کچھ باتیں پڑھی لی ہوں اور آگےحدیث کے نام سے شئیر کرتے ہیں ۔
اس لیئے پہلے حدیث کی تعریف جاننا ضروری ہے ۔
حدیث کی تعریف
حدیث اسکو کہتےہیں جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جائے چاہے وہ قول ہو،فعل ہو ،تقریر ہو،یاصفت ہو ۔
( تیسیر مصطلح الحدیث : ص 9 مکتبہ المدینہ کراچی )
لوگوں کے اقوال کو حدیث نہیں کہتے تو برائے مہربانی ایسی باتوں کو آگےشئیر مت کیجئے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمیں کیسےپتہ لگےگا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے یا نہیں ہے ۔
اس حوالےسے یہ عرض ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی احادیث ہیں سب کو کتابوں کی صورت میں محدثین ( علم حدیث کے ماہر علماءکرام ) نے دےدئیےہیں ۔
لہٰذا اگر کوئی حدیث یا روایت آپ کو پہنچھے تو اس کی تحقیق کریں یعنی کسی کتاب کا حوالہ مانگیں واقع وہ حدیث ہے تو آگئےشئیر کریں جبکہ اس پر حوالہ بھی درج ہو ورنہ کسی صحیح العقیدہ سنی عالم دین سے اس کے بارے معلومات لیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق دے اور اگر کبھی اس طرح کی روایت شئیر کی ہو تو اللہ تعالیٰ سےدعاکرتےہیں کہ ہمیں معاف فرمائے۔
آمین ۔
وما علینا الاالبلاغ المبین ۔۔۔۔