حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی سیرت کے چند تابناک گوشے
از: ابرار احمد القادری، کوشامبی
خالق کائنات نے تخلیق کائنات کا مقصد حقیقی اپنی معرفت اور اپنے نافذ کردہ احکام کی بجا آوری کو قرار دیا ہے، مگر دین اسلام کی معرفت اور احکام خداوندی کی بجا آوری، جذبئہ ایثار کو تصلب فی الدین کہا جاتا ہے۔
انسان کے اندر جس قدر تصلب فی الدین ہوگا، اسی قدر دینی غیرت و حمیت ہوگی۔ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔۔۔۔ دینی تصلب ایک ایسا اعلی درجہ کا وصف کمال ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر فضل خاص فرماتا ہے، اسے اس وصفِ عظیم سے سرفراز فرماتا ہے۔
خاص فرماتا ہے، اسے اس وصفِ عظیم سے سرفراز فرماتا ہے۔
تصلب فی الدین کا نمونہ عہدِ صحابہ و تابعین میں کامل طور سے نظر آتا ہے__ چنانچہ اصحابِ رسول ﷺ دینی معاملات میں کسی بھی قسم کی خارجی پیش رفت جائز نہیں سمجھتے تھے_رسول پاک ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد کچھ عرب مرتد ہو گۓ اور انہوں نے زکات دینے سے انکار کر دیا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ حضور ﷺ کے زمانے میں جتنی زکات دے رہے تھے اس میں میں سے ایک رسی بھی دینے سے انکار کریں گے تو میں اس کے لیے بھی ان پر جہاد کروں گا۔۔ اس پر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے خلیفہ رسول ﷺ!! ان لوگوں کے ساتھ نرمی کیجیے تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخت جلال میں آ گۓ اور ارشاد فرمایا: "کیا زمانۂ جاہلیت میں تم بہت بہادر تھے اور اسلام لاکر بزدل اور پلپلے ہو گۓ…؟ یقینا وحی رباّنی ختم ہو چکی اور دین اسلام مکمل ہو گیا۔ کیا میرے زندہ رہتے ہوۓ اس دین میں کچھ کم کیا جا سکتا ہے
سر زمین ہند اس اعتبار سے بہت ذرخیز ہے کہ بے شمار اولیائے کرام اور صوفیاء عظام اور ایک سے بڑھ کر ایک مجاہد اس چمنستان ہند پر جلوہ افروز ہوۓ اور انھوں نے دین اسلام کی نشر و اشاعت اور دینی استحکام کی مکمل کوشش کی۔
انھیں جلیل القدر اکابر اہل سنت میں سے مرجع العلماء، جامع کمالاتِ ظاہریہّ و باطنیہ، عالم رباّنی، شیخ الاسلام و المسلمین، سراج السالکین، امام التارکین، سلطان المناظرین، رئیس اعظم اڑیسہ حضور مجاہد ملت علامہ شاہ الحاج حبیب الرحمن قادری، عباسی قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی بھی ہے جن کی پوری زندگی تصلب فی الدین اور احقاق حق و ابطال باطل کے لیے وقف تھی۔ (تبلیغ سیرت، مجاہد ملت نمبر صــ٣٧٢)
حضور مجاہد ملت علم و عمل، عشق و عرفان، اور ایمان و یقین کی اس منزل پر فائز تھے جہاں پہنچنے کی فکر میں بڑے بڑے صاحب فضل و کمال کے شاہین عقل کے بال و پر جلتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ علوم و فنون کی کوئی ایسی شاخ نہیں، عشق و عرفان کی کوئی ایسی سرحد نہیں، جرأت ہمت کی کوئی ایسی فصیل نہیں اور زہد و پارسائی کی کوئی ایسی منزل نہیں جہاں آپ نے اپنے وجود مسعود کا احساس نہ دلایا ہو۔۔۔۔۔ آپ کی زندگی کا ہر ورق چاند کی چاندنی سے زیادہ صاف و شفاف اور سورج کی طرح درخشاں و تابندہ ہے۔۔۔ آپ نے جماعت اہل سنت کو جو وقار و اعتبار بخشا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، باطل قوتیں آپ کے وجود سے ہراساں رہا کرتی تھیں۔ بلا ضرورت شرعیہ کسی بھی باطل قوت سے اشتراک کے سخت مخالف تھے۔ آپ کی زندگی کا ہر تیور اس شعر کا آئینہ دار تھا کہ
قین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہے مردوں کی شمشیریں
حضور مجاہد ملت جس زمانے میں پیدا ہوئے وہ زمانہ مذہب و مسلک کے لیے بڑا پر خطر و پر آشوب اور بڑا نازک تھا۔۔۔ مسلمان دینی، ملی، سیاسی اور صنعتی اعتبار سے مایوسیوں کا شکار تھا۔ اسلامی اقتدار کو کھلے عام نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ تقدیس الوہیت و رسالت کو شدید خطرہ لاحق تھا۔ درس گاہوں اور خانقاہوں کا وقار داؤ پر لگا ہوا تھا۔ مسلمانوں سے ان کا تصلب و تشخص چھینا جا رہا تھا-ایسے پر خطر ماحول میں آپ نے قوم مسلم کو آبرو مندانہ زندگی گذارنے کا حوصلہ بخشا اور باطل کی ہر شازش کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بے نقاب فرمایا
حضور اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے باطل قوتوں سے مقابلے کے لیے جو ہتھیار تیار کۓ تھے حضور مجاہد ملت اسی ہتھیار سے لیس ہو کر میدان عمل اترے اور باطل کے ناپاک عزائم کو زمیں بوس کر دیا۔ آپ نے قوم مسلم کو بامقصد زندگی گذارنے کے طریقے بتائے اور حکومت وقت سے اپنے جائز مطالبات منوانے اور اجتماعی طور پر منظم رہنے کے لیے پر زور تحریکیں چلائیں۔ مسلم مسائل کو اٹھانے کی بنیاد پر آپ ہمیشہ حکومت وقت کی نگاہوں میں کھٹکتے رہے۔ آپ نے بہت ہی عمدہ اور قائدانہ سیاست بھی کی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپ ہی جیسی شخصیت پر ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر چسپاں ہوتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پید
حضور مجاہد ملت کے جود و سخا کی ایک جھلک
آپ ایک مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے پر آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ فقر و سادگی سے عبارت ہے۔۔۔۔۔ آپ رئیس وقت تھے لیکن رئیسی کو کبھی محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ رئیسی کو دین کی چوکھٹ پر قربان کر دیا۔ آپ کی ریاست ”روفیہ اسٹیٹ“ سے مشہور و معروف تھی۔ آپ کی دولت و ثروت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ سالانہ 49 ہزار روپیے برٹش گورنمنٹ کو ٹیکس ادا کرتے تھے اگر 49 ہزار سے آج کی کرنسی خریدی جاۓ تو ایک کروڑ سے زائد رقم بنتی ہے دینی شوکتوں کے نفاذ کے لیۓ جب بھی کوئی آواز دیتا آپ بغیر کسی تاخیر کے وہاں حاضر ہو جاتے۔ اور چلتے وقت جب کوئی آپ کو کچھ پیش کرتا تو لینے سے انکار کر دیتے۔۔۔۔۔” پر آج کے مصلحین امت اپنی قیمت طے کر لیتے ہیں اور قیمت بھی انسانیت سوز ہوتی ہے۔ پھر قیمت کی نصف رقم پہلے وصول کر لیتے ہیں پھر شرکت کی رضا مندی دیتے ہیں۔ ایسے مصلحین امت کے لیے حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی ذات مبارکہ درس عبرت ہے۔
حضور مجاہد ملت کے تبحر علمی کی ایک جھلک
علامہ مشتاق احمد نظامی لکھتے ہیں
”ہماری درسگاہوں میں ”میر قطبی“ کے بعد ”ملا حسن“ پڑھائی جاتی ہے لیکن علوم و معارف کے اس بحر ذخار نے جب درسگاہ سنبھالی تو ملا حسن کی جگہ شرح مرقاۃ جیسی معریٰ کتاب کو جس پر ایک شطر کا بھی حاشیہ نہیں اسے آپ نے داخل نصاب کیا اور اسی کتاب میں ملا حسن، ملا جلال، قاضی حمد اللہ تک کے مباحث کھنگال دیتے، جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ انھیں معقولات پر کس حد تک ید طولی حاصل تھا۔“
حضور مجاہد ملت کے علمی تبحر کے بارے میں پرفیسر شاہد اختر رقم طراز ہیں
سرکار مجاہد ملت کی حیات مبارکہ کا ایک بڑا حصہ چونکہ ملّی سربلندی اور سرفرازی کی کوششوں نیز بد عقیدگی کے خلاف گذرا۔ اس لیے لوگوں کو ان کے تبحر علمی کا کما حقہ اندازہ نہ ہو سکا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آٹھویں دہائی تک مختلف علوم و فنون میں اپنے ہم عصر علماء میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ معقولات پر ان کی دسترس کا عالم یہ تھا کہ ان کے زمانے کے بڑے بڑے عالم کو ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں تھ
حضور محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بھی سرکار مجاہد ملت کے تبحر علمی کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا تھا ”مجاہد ملت شاہ حبیب الرحمن علم کے بادشاہ ہیں۔“
حضور مجاہد ملت کی زندگی کے دو مضبوط پلیٹ فارم تھے۔
ایک مذہبی اور دوسرا سیاسی۔ چونکہ آپ کے عہد میں مسلمان مذہبی اور سیاسی دونوں اعتبار سے زوال کا شکار تھا۔ ملک کی دوسری قومیں مسلمانوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں بے دست و پا کر دینا چاہتی تھیں۔ انھیں یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر مسلمان سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر خود کفیل ہوں گے تو ان سے نپٹنا بہت مشکل ہوگا۔ اور آج بھی اگر دیکھا جائے تو حکومتی سطح پر یہ کوشش جاری و ساری ہے۔ بلکہ آج مسلمانوں کے حال کل سے بھی زیادہ بدتر ہیں جسے ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور آنے والا دور اور بھی زیادہ برا ہوگا۔(اللہ رحم فرمائے) آج حکومت اپنے مشن میں پورے طور پر کامیاب ہو چکی ہے۔ حکومت کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کی مؤثر نمائیندگی ہو۔ کل حضور مجاہد ملت جیسی عظیم اور مستحکم قیادت مسلمانوں میں موجود تھی۔ آج مسلمانوں میں کوئی مجاہد ملت نہیں۔ حضور مجاہد ملت کو حکومت کی بد نگاہی کا خوب احساس تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے آخر وقت تک اپنے مدرسے کو سرکاری نہیں کروایا تھا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آنے والے وقت میں حکومت علمائے کرام سے وہ کام لے گی جو ان کی شایانِ شان کے خلاف ہوگی۔ آج دیکھو حکومت علما سے کچھ اس طرح کے کام لے رہی ہے۔ آج حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی بات صادق آ رہی ہے۔
اسی لیۓ آپ ہمیشہ مسلمانوں میں جنونِ عشق کو تیز کرنے کی تا حیات جدو جہد کرتے رہے۔ آپ کو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا مشن سونپا تھا۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اغیار کے عزائم کو بھانپ لیا تھا۔ اعلی حضرت نے جس تحریک کی بنیاد رکھی تھی، علم و عرفان، شعور و آگہی کا جو چراغ روشن کیا تھا اسی چراغ کی لَو کو تیز کرنے کے لیے آپ نے (اعلی حضرت) بعد وصال حضور مجاہد ملت کا انتخاب فرمایا تھا۔ اعلی حضرت کے زمانے میں علما، مشائخ اور مذہبی رہنماؤں کی کمی نہیں تھی لیکن دین کے نام پر متاعِ کائنات لٹا دینے کا جو جذبہ حضور مجاہد ملت کے اندر تھا وہ دوسروں میں نہ تھا۔
حضور مجاہد ملت نے سرکار اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کے انتخاب کو کبھی داغدار نہیں ہونے دیا۔ آپ نے نائب اعلی حضرت کی حیثیت سے پورے عرب و عجم میں یہ کہتے ہوئے پیغام رضا، فکر رضا اور مسلک اعلی حضرت کی دھوم مچادی کہ
کیوں رضــاؔ آج گلی سونی ہے
اٹھ میرے دھوم مچانے وال
حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی 78 سالہ زندگی کے 28 سال اگر نکال دۓ جائیں تو 50 سال بچ جاتے ہیں یعنی آپ نے پورے پچاس سال تک پورے حوش و حواس کے ساتھ مذہب و مسلک، قوم و ملت کی خدمات انجام دیتے رہے۔ جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی آپ نے ملک و ملت کے لیۓ خود کو پیش کر دیا۔ آپ کے وجود کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو دینی، ملی، علمی اور سیاسی جذبے سے خالی ہو ۔۔۔۔اللہ ہم سبھی کو حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے مشن پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ان کے فیوض و برکات سے مالامال فرمائے_
گداۓ حضور مجاہد ملت
ابرار احمد القادری، کوشامبی