علامہ عبد الحکیم اختر شاہ جہاں پوری علیہ الرحمه
مرتب: محمد سلیم انصاری ادروی
ولادت: علامہ عبد الحکیم اختر شاہ جہاں پوری علیہ الرحمه مذہباً حنفی اور مشرباً نقش بندی مجددی تھے۔ آپ کی ولادت با سعادت سنہ ١٩٣۵ء میں ہوئی۔ آپ کسی علمی گھرانے کے چشم و چراغ نہیں بلکہ ایک صاحب دل زمیں دار کے فرزند تھے۔ آپ شہرت سے بہت بھاگتے تھے شاید ہی کسی نے آپ کو اسٹیج پر دیکھا ہو۔ گم نامی کی زندگی بسر کرنا، قناعت کے ساتھ جینا اور چند روزہ زندگی کو اعلاے کلمة الحق کے لیے وقف کر دینا ہی آپ کی سوانح حیات ہے۔
بیعت وخلافت: آپ مفتی اعظم دہلی مفتی مظہر اللہ دہلوی علیہ الرحمه سے "سلسلۂ عالیہ نقش بندیہ مجددیہ” میں بیعت تھے۔ علاوہ ازیں علامہ شاہ جہاں پوری کو شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی اعظمی علیہ الرحمه سے اجازت وخلافت بھی حاصل تھی۔
قلمی دنیا میں آمد: سنہ ١٩٦٢ء میں علامہ شاہ جہاں پوری پوری طرح قلمی میدان میں آئے اور انتھک محنت اور خدا داد صلاحیتوں کے باعث آپ اس دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کرتے چلے گئے۔ اور آج پاک و ہند کا شاید ہی کوئی صاحب علم سنی ہوگا جو قلمی کارناموں کی روشنی میں انہیں نہیں جانتا ہو بلکہ حق تو یہ ہے کہ ماہر رضویات ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی اور علامہ شاہ جہاں پوری علیہما الرحمه نے اپنے اپنے انداز میں سنی قلم کاروں کو کام کرنے کا ڈھنگ، ولولہ، شعور اور عشق دیا ہے۔
مجلس رضا لاہور: سنہ ١٩٦٦ء کے اوائل تک مرکزی مجلس رضا لاہور کے اندر صرف حکیم اہل سنت حکیم موسیٰ امرت سری علیہ الرحمه تھے۔ یا محترم محمد عارف قادری رضوی ضیائی، اراکین مجلس کو کام کرنے والے اور سنی قلم کاروں کی اشد ضرورت تھی۔ حکیم صاحب کو مفتی غلام معین الدین نعیمی علیہ الرحمه کی معرفت یہ پتہ لگا کہ لاہور ہی کہ مضافات میں اختر شاہ جہاں پوری نامی کوئی سنيت کا درد رکھنے والا اور صاحب قلم شخص ہے۔ ١٣ اپریل سنہ ١٩٦٨ء کو حکیم صاحب نے علامہ شاہ جہاں پوری کے نام خط لکھا اور چند روز میں دونوں حضرات کی ملاقات ہو گئی۔ پہلی ملاقات ہی میں مجلس رضا لاہور کے اراکین کی تعداد تین ہو گئی۔ اور علامہ شاہ جہاں پوری مجلس رضا کے جنرل سیکریٹری مقرر ہوئے۔ علامہ شاہ جہاں پوری جب تک مجلس رضا میں رہے سارا علمی اور قلمی کام ماسوائے خطوط نویسی کے وہی کرتے تھے۔ اور خوب والہانہ انداز سے کرتے تھے۔
علامہ شاہ جہاں پوری سنہ ١٩٦٢ء سے سنہ ١٩٦٨ء تک مضامین لکھتے اور مسلک اہل سنت کی حقانیت کو اجاگر کرتے رہے۔ آپ چھ سالوں میں اپنے مضامین کے ذریعے اپنے قلم کی سحر کاری کا لوہا منوانے کے بعد تصنیف وتالیف کی جانب متوجہ ہو گئے۔ چناں چہ سب سے پہلے امام احمد رضا محدث بریلوی پر لکھا اور اتنا لکھا کہ لکھتے چلے گئے۔ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمه پر جتنے مقالے انہوں نے دو تین سالوں کے اندر لکھ دیے تھے اتنے مقالے مجلس رضا کے جملہ اراکین سولہ سالوں میں بھی نہیں لکھ پائے۔ سنہ ١٩٦٩ء سے سنہ ١٩٧٢ء تک لگاتار چار سالوں تک لکھنے کے بعد جب دیکھا کہ ایک مقالے کے سوا شائع کچھ نہ ہو سکا۔ شاید لکھنے کی یہی لگن تھی جس نے انہیں سنہ ١٩٧٢ء میں مجلس رضا لاہور سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔
سنہ ١٩٧٢ء میں آپ مکتبہ حامدیہ گنج بخش روڈ لاہور کے قریب ہو گئے، ان دنوں لاہور جیسے عظیم شہر میں اہل سنت وجماعت کے پانچ چھ مکتبے تھے۔ جو ناشر کم اور کتاب فروش زیادہ تھے۔ اگر وہ کلک اختر کے بانکپن کو محسوس کر لیتے تو جہاں اہل سنت کا یہ مایہ ناز قلم کار آج عالم گیر شہرت اختیار کر جاتا وہیں اہل سنت وجماعت کے تصنیفی واشاعتی سرمایے میں ایک گراں قدر اضافہ بھی ہوتا۔ علامہ شاہ جہاں پوری کو جب احساس ہو گیا کہ سنی ناشرین کو اس بات کا قطعاً احساس نہیں ہے کہ وہ اپنے قلم کاروں کو منظر عام پر لائیں تو آپ نے اپنی تصانیف کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرنے کے بجائے اہل سنت وجماعت کے دیگر مصنفین کی شائع ہونے والی کتابوں پر دیباچے لکھنے شروع کر دیے۔ جتنی باتیں آپ ایک ضخیم کتاب کی شکل میں منظر عام پر لانا چاہتے تھے، انہیں دیباچے میں سمو دیتے تھے جو بر وقت شائع ہو جاتا تھا۔ اور اس طرح بہت سی کتابوں پر دیباچے لکھتے ہی چلے گئے۔
آپ نے سب سے پہلے مولانا محمد سعید احمد نقش بندی رحمه الله (سابق خطیب مسجد داتا دربار لاہور) کی کتاب "مسلک امام ربانی” پر دیباچہ لکھا۔ کتاب کے ساتھ جب یہ معلوماتی دیباچہ شائع ہوا تو اہل علم نے تو تعریف کی ہی ایسے لوگ بھی اس دیباچے کی سراہنا کرنے لگے جو تعریف کرنے میں انتہائی بخل سے کام لیتے تھے۔
سنہ ١٩٦٨ء سے سنہ ١٩٨١ء کے درمیان آپ نے تقریبا دو درجن تحقیقی کتابیں لکھیں اور تقریبا ایک درجن کتابوں کے ترجمے کر دیے۔ مگر ان ١٣ سالوں کے درمیان آپ کی صرف چار کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آسکیں۔ یعنی ایک مقالہ ایک تصنیف اور دو ترجمے، جن کی تفصیل درج ذیل ہیں:
● اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام
(شائع كرده مرکزی مجلس رضا لاہور سنہ ١٩٧١ء)
● ترجمه جواہر البحار جلد اول
(شائع كرده مکتبہ حامدیہ گنج بخش روڈ لاہور سنہ ١٩٧۵ء)
● تجلیات امام ربانی
(شائع كرده مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور سنہ ١٩٧٨ء)
● ترجمه کتاب الشفاء جلد اول
(شائع كرده مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور سنہ ١٩٧٩ء)
سنہ ١٩٦٩-٧٠ء میں جب کہ مجلس رضا لاہور کے حالات بہت خراب تھے، مجلس رضا کے اراکین نے ارادہ کیا کہ ہم "انوار رضا” کے نام سے ایک تحقیقی مجموعہ منظر عام پر لائیں گے، جس میں ایسے مضامین ہوں کہ ان سے امام احمد رضا محدث بریلوی کے حالات و کمالات کے مختلف پہلو اجاگر ہو جائیں۔ اس کے لیے ان لوگوں نے پاک و ہند کے مختلف علماے کرام سے بذریعۂ خطوط معلوماتی مضامین طلب کیے، لیکن ان حضرات نے مایوسی کے سوا اراکین مجلس رضا کو کچھ نہ دیا۔ لیکن مبارک باد کے لائق ہیں علامہ شاہ جہاں پوری جنہوں نے مجلس رضا کے اراکین کے خواب کو مسمار نہ ہونے دیا۔ اور امام احمد رضا کے تعلق سے آٹھ مقالے لکھنے کا بوجھ اپنے سر اٹھا لیا۔ یہ آٹھ مقالے آپ نے قلیل مدت میں سنہ ١٩٧٠ء میں مکمل کر دیے۔
معارف رضا: سنہ ١٩٧٢ء میں علامہ شاہ جہاں پوری نے امام احمد رضا محدث بریلوی کے تجدیدی کارناموں کے موضوع پر چار جلدوں پر مشتمل "معارف رضا” کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کی ہر جلد کم و بیش ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ سنہ ١٩٧۵ء میں ترجمان اہل سنت کراچی نے چاروں جلدوں کا علاحدہ علاحدہ تفصیلی تعارف شائع کیا، علاوہ ازیں مختلف کتب میں بھی”معارف رضا” کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مکتبۂ حامدیہ والے مولانا انوار الاسلام صاحب نے سنہ ١٩٧۴ء میں معارف رضا جلد اول کی کتابت کروا لی تھی، سنہ ١٩٧۵ء میں جلد اول تصحیح سے آراستہ ہو کر پریس کی جانب جا رہی تھی کہ بعض وجوہات کی وجہ سے شائع نہ ہو سکی۔
سنہ ١٩٧۴ء میں "المیزان” بمبئی کا "امام احمد رضا نمبر” شائع ہوا۔ اس کے اندر ان کتابوں کی فہرست بھی پیش کی گئی جو امام احمد رضا محدث بریلوی پر لکھی گئی تھیں۔ جس میں علامہ شاہ جہاں پوری کی لکھی ہوئی تصنیف "معارف رضا” کو نظر انداز کر دیا گیا۔ علامہ شاہ جہاں پوری نے "امام احمد رضا نمبر” کا مطالعہ کرنے کے بعد "المیزان” والوں کے نام ایک خط لکھا۔ آپ نے اپنے مکتوب میں اس بات کا ذکر یوں کیا:
"دوسری بات جس پر میں حیران ہو کر رہ گیا یہ ہے کہ اس مبارک مجموعے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمه پر لکھے ہوئے چند صفحات کی کتابوں کا ذکر بھی ہوا اور وہ کتابیں بھی فہرست میں شامل نظر آئیں جن کا ایک لفظ ابھی لکھا ہی نہیں گیا۔ لیکن اس لمبی چوڑی فہرست میں اگر کسی کتاب کا نام نظر نہیں آیا تو وہ چار ہزار صفحات پر مشتمل ننھی منی سی کتاب معارف رضا ہے۔ جن حضرات نے ان کتابوں اور پمفلٹوں کو اس فہرست میں شامل کروایا خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے "معارف رضا” کا ذکر نہ کرنے میں سُنّیوں کی کیا بہتری سمجھی؟”
تصنیفات وتالیفات: آپ کے تصنیفات وتالیفات کی تعداد تقریبا ٧٠ ہے۔ آپ کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب میں سے تقریبا ۴۵ کتب کے نام درج ذیل ہیں:
● مظہر البیان فی علوم القرآن، ● قرآنی عقائد ونظریات، ● قرآن مجید کا ضابطہ عبادات، ● قرآن مجید کا ضابطہ معاملات، ● قرآن مجید کا ضابطہ اخلاقیات، ● قرآن مجید کا ضابطہ تکفیر، ● حقانیت اسلام، ● ثانی اثنین ابوبکر (یار گار رسول کا تفصیلی تذکرہ)، ● فاروق اعظم، ● تجلیات مظہر الله، ● اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام، ● تجلیات امام ربانی، ● اعلیٰ حضرت کی تاریخ گوئی، ● مہر درخشاں (مجدد الف ثانی کا تفصیلی تذکرہ)، ● عظیم الشان (امام شاہ ولی الله محدث دہلوی نقش بندی کا تفصیلی تذکرہ)، ● کھلا خط، ● مودودیت کا تحقیقی جائزہ، ● تقویة الایمان کا تحقیقی جائزہ، ● صحابہ کرام مودودی صاحب کی نظر میں، ● دوسرا زلزلہ، ● مظہر شریعت (فقہی مسائل کا جدید ترین مجموعہ)، ● مسلمانوں کی اصلی جماعت، ● دو قومی نظریہ کیا ہے؟، ● مجددی عقائد و نظریات، ● صحابہ کرام حضرت مجدد الف ثانی کی نظر میں، ● معجزات کا توحید و شرک سے تعلق، ● بشریت انبیائے کرام، ● دلی سے بالاکوٹ تک، ● عرفان رضا، ● ایک طائرانہ نظر، ● تجلیات احادیث، ● امام زمانہ، ● امام احمد رضا کا معتدل مسلک، ● امام احمد رضا خاں اور مسئلہ بدعت، ● چودھویں صدی کا مجدد، ● چودھویں صدی کا فقیہ اعظم، ● بلبل باغ رسول، ● پروانہ شمع رسالت یا پیكر عشق رسول، ● فردوس احمد رضا، ● ابر بخشش، ● دیوبندیوں کے خوابوں کی دنیا، ● دیوبندیوں کا ریڈیو گپستان، ● علمائے دیوبند کی باہمی جوتم پیزار، ● روافض کی اسلام اور مسلمانوں پر مہربانیاں، ● موجودہ عیسائی اور بائیبل، ● برطانوی مظالم کی کہانی عبد الحکیم خاں اختر شاہجہان پوری کی زبانی۔
تراجم: آپ نے تقریبا ڈیڑھ درجن کتب کا اردو میں ترجمه کیا۔ جن کی فہرست درج ذیل ہے:
● ترجمه جواہر البحار، ● ترجمه الشفاء ، ● ترجمه بخاری شریف، ● ترجمه وتحشیہ مؤطا امام مالک، ● ترجمه سنن ابن ماجہ، ● ترجمه وتحشیہ سنن ابو داؤد، ● ترجمه وتحشیہ دائر المعارف، ● ترجمه مشکوة المصابیح، ● ترجمه الاصول الاربعہ، ● ترجمه وتحشیہ شفاء السقام، ● ترجمه رسالہ تہلیلیہ، ● ترجمه اثبات النبوة، ● ترجمه مبدا و معاد، ● ترجمه معارف لدنیہ، ● کوائف مذہب شیعہ، ● شرح رباعیات، ● مکاشفات عینیہ، ● فتوح الغیب۔
وصال: ٢٨ جمادی الآخر سنہ ١۴١۴ھ/ ١۴ نومبر سنہ ١٩٩٣ء کو طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہو گیا۔ الله تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
ماخذ ومراجع:
١۔ اعلیٰ حضرت کا فقہی مقام/ ص: ٢٢ – ١٨١
٢۔ مقالات شارح بخاری/ ج: ١ / ص: ٢٩ – ٣٠
٣۔ برطانوی مظالم کی کہانی عبد الحکیم خاں اختر شاہ جہانپوری کی زبانی/ ص: ١١
۴۔ تذکار اختر شاہجہانپوری/ ص: ٢١