باب اعتقادیات کے مشاہیر ائمۂ کرام
از قلم: طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
سوال:امام احمد رضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان چودھویں صدی کے مجدد ہیں۔پندرھویں صدی کے بھی کوئی مجدد ہوں گے۔اب ہمیں ان کی جانب متوجہ ہونا چاہئے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے,پھر ہم لوگ پندرھویں صدی میں قوم مسلم کو امام احمد رضا قادری سے کیوں منسلک کریں؟
جواب: مجدد خواہ پہلی صدی کے ہوں,یا آخری صدی کے,یا درمیانی صدیوں کے مجددین ہوں۔سب مذہب اسلام ہی کی تعلیمات کو عام کرتے ہیں اور عام کریں گے۔ہر مجدد اپنے عہد میں پائے جانے والے مفاسد کو دور کرتے ہیں۔سنتوں کو زندہ کرتے ہیں اور بدعتوں کو دور کرتے ہیں۔وہ فضل خداوندی سے مذہبی تعلیمات کو قوی دلائل وبراہین سے مستحکم ومزین کر کے قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ حق وباطل میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی ان کی تعلیمات کو قبولیت عطا فرماتا ہے۔اہل حق ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔
عہد مابعد کے مجددین اپنے ماقبل کے مجددین کی دینی تعلیمات کو منسوخ نہیں کرتے,بلکہ تقویت دیتے ہیں۔مجددین کی آمد طبقہ ناجیہ(اہل سنت وجماعت)میں ہوتی ہے۔اہل سنت وجماعت کے عقائد عہد رسالت مآب علیہ التحیۃ والثنا سے قیامت تک کے لئے ایک ہی ہیں,لہذا تمام مجددین انھیں عقائد کی تبلیغ واشاعت,ترویج وتقویت اور توضیح وتشریح کرتے ہیں۔
اسلام کے متوارث عقائد کے برخلاف جو جدید باطل عقائد اختراع کئے جاتے ہیں,مجددین ان عقائد باطلہ کا رد وابطال کرتے ہیں۔عقائد صحیحہ کو دلائل سے مستحکم ومزین کرتے ہیں۔مجدد کا فرض منصبی احقاق حق,ابطال باطل,احیائے سنت واماتت بدعت ہے۔
حدیث نبوی کے مطابق ہر صدی میں مجدد کی آمد ہوتی ہے۔ان کی تعلیمات کا شہرہ بھی ہوتا ہے,لیکن دنیا اس قدر وسیع وعریض ہو چکی ہے کہ ان کی تعلیمات دنیا کے ہر حصے تک پہنچنے کے لئے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔
امام احمد رضا قادری کو علمائے عرب وعجم نے مجدد تسلیم کیا ہے,لیکن پہلی جنگ عظیم(1914-1918)کے موقع پر سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے سبب پورے عالم اسلام کا ماحول متاثر ہو گیا۔عربستان کی تقسیم اور خاندانی حکومتوں کے قیام نے عرب دنیا کے سیاسی ماحول کے ساتھ مذہبی ماحول کو بھی بہت متاثر کیا۔
سلطنت عثمانیہ کے عہد میں اہل سنت وجماعت کو قوت وشوکت حاصل تھی۔اس کے بعد نجد وحجاز میں وہابی حکومت کے قیام کے سبب عرب دنیا میں وہابیت کو فروغ ملنے لگا۔ان علاقوں میں آج بھی امام احمد رضا قادری کی تعلیمات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔عہد حاضر میں عرب دنیا کے بہت سے علمائے اہل سنت وجماعت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز اور ان کی تعلیمات سے نا آشنا ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے عرب دنیا میں امام احمد رضا قادری کی تعلیمات کی تبلیغ واشاعت کا کوئی منظم کام نہیں کیا۔
امام احمد رضا قادری کی متعدد حیثیات
امام احمد رضا قادری کی متعدد حیثیات ہیں۔وہ چودھویں صدی کے مجدد ہیں۔اپنے عہد کے بے مثال حنفی فقیہ ہیں۔ان کے عہد سے لے کر آج تک عالم اسلام میں ان کے جیسا کوئی فقیہ نظر نہیں آتا۔علم حدیث میں بھی ان کی نادر تحقیقات ان کے کمال ومہارت کی شہادت دیتی ہیں۔وہ عظیم متکلم اور ائمہ متکلمین میں سے ہیں۔بہت سے دینی علوم وفنون اور علوم عقلیہ میں وہ فائق الاقران اور عدیم النظیر ہیں۔
امام احمد رضا قادری اور علم کلام
علم کلام میں وہ ایسے بلند رتبہ ہیں کہ ماضی قریب کی کئی صدیاں ان کے مماثل ونظیر سے خالی نظر آتی ہیں۔علم کلام میں ان کے کلمات وتحقیقات کلامی اصول وضوابط کے عین مطابق ہیں۔امام احمد رضا قادری کو اللہ تعالی نے لغزش وخطا سے محفوظ فرما دیا ہے۔وہ صرف عظیم متکلم نہیں,بلکہ ائمہ متکلمین میں سے ہیں۔
ائمۂ متکلمین کے درمیان امام احمد رضا قادری کو وہی حیثیت اور رتبہ حاصل ہے جو مقام ومرتبہ امام ابو الحسن اشعری (260-324)اور امام ابو منصور ماتریدی(238-333) کو حاصل ہے۔
امام احمد رضا قادری کے بعد بھی ہر صدی میں مجددین آتے رہیں گے,لیکن جس طرح علم کلام میں امام اشعری وامام ماتریدی کی امامت مسلم ومستحکم ہے,اسی طرح علم کلام میں امام احمد رضا قادری کی امامت مسلم ومقبول ہے۔
وہ ایک عظیم المرتبت حنفی فقیہ بھی ہیں۔ان کی فقہی تحقیقات وتدقیقات سے فقہائے احناف مستفید ہوتے رہیں گے اور ان کی کلامی توضیحات وتشریحات سے تمام عالم اسلام استفادہ کرتا رہے گا۔مجدد گرامی کی تصانیف وفتاوی کا وہ حصہ جو خالص کلامی مسائل وکلامی تحقیقات پر مشتمل ہے,اور تمام عالم اسلام کو جس کی ضرورت ہے۔ان تمام کا مستقل مجموعہ عربی زبان میں شائع ہونا چاہئے۔
فتاوی رضویہ میں بہت سے کلامی فتاوی ہیں اور بہت سے کلامی رسائل ہیں۔اسی طرح بعض کلامی فتاوی ورسائل فتاوی رضویہ میں نہیں ہیں۔ان تمام کا مجموعہ مجلدات کی شکل میں عربی زبان میں شائع کیا جائے,تاکہ سارا عالم اسلام اس سے مستفید ہو سکے۔
برصغیر میں بہت سے احباب اہل سنت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز کی تصنیفات وتالیفات کی طباعت واشاعت کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔مختلف زبانوں میں ان کی کتب ورسائل کے ترجمے شائع کر رہے ہیں۔ان کی تحریروں پر حواشی رقم فرما رہے ہیں۔ہم نے جو منصوبہ پیش کیا ہے,ان شاء اللہ تعالی آج یا کل اس کی بھی تکمیل ہو جائے گی۔
امام احمد رضا قادری اور علم فقہ
باب فقہیات میں بھی امام احمد رضا قادری کی تحقیقات بے مثل ومثال ہیں۔بعض علما وفقہا نے انہیں فقہائے احناف کے طبقۂ پنجم یعنی اصحاب الترجیح میں شمار کیا ہے۔
مجدد موصوف اپنے فقہی فتاوی وتصانیف میں جس طرح راجح ومرجوح,قوی وضعیف,مفتی بہ وغیر مفتی کا تعین فرماتے ہیں۔ظاہر الروایہ اور روایات نادرہ کا فرق بتاتے ہیں,اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ آپ فقہائے احناف کے طبقۂ ششم یعنی اصحاب تمیز میں ضرور شامل ہیں۔اصحاب الترجیح کی خوبیاں اور اوصاف وکمالات بھی ان کی فقہی تحقیقات میں روشن وعیاں ہیں۔
عہد حاضر کے فقہائے احناف وعلمائے کرام مجدد موصوف کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنی تحقیق وتدقیق میں ان کے فتاوی اور فقہی تصانیف کو پیش نظر اور مقدم رکھتے ہیں۔ان کے حوالے درج کرتے ہیں اور ان کی تحریروں پر اعتماد کرتے ہیں۔
امام موصوف کی تحریروں میں فقہیات واعتقادیات کا وسیع ذخیرہ اور بیش بہا خزانہ موجود ہے۔عرب وعجم کے غیر اردو داں علما ومشائخ اسی وقت اس سے استفادہ کر سکتے ہیں,جب ان کتب ورسائل کو عربی زبان میں منتقل کیا جائے۔
از قلم: طارق انور مصباحی
مزید پڑھیں
انسان حقیقت میں متحد:صفات میں مختلف
متحد ہو تو بدل ڈالو زمانے کا نظام