تاریخِ ادیان و مذاھب
برکت خان امجدی
یہ بات واضح ہے کہ جتنی پرانی تاریخ انسانیت کی ہے اتنی ہی قدیم تاریخ مذھب کی بھی ہے اس بات پر اتفاق ہے کہ اول انسان بھی مذھب کا مقلد تھا اور حیات میں کسی خالق و خدا کا قائل تھا و مائل او تھا ہاں اختلاف اس میں ہے کہ وہ کس معبود کا عابد تھا حق یا باطل اس بیان میں مختلف اقوال نظر نواز ہوتے ہیں
آغاز مذھب کے متعلق دو نظرئیے پائے جاتے ہیں ارتقائی اور الہامی اب چونکہ مغربی محققین (ڈارون و جولئن بسکلے) ارتفاع کی جانب مائل ہیں تو اس کو ترجیح دیتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ انسان اولاً لاشعور و لا دین پیدا ہوا اس کو مذھب کا کوئی شعور نا ہی عبادات کی طرف رجحان تھا بس ظاہر حیات کے گزر و بسر کے علاوہ اس کا کوئی مقصد زندگی نہ تھا
ارتفاع کا نظریہ یہ ہے کہ انسان اولا جہالت کے مرحلے میں تھا بعد میں کچھ علمی شعور پیدا ہوا تو اس نے مشرکانہ خدا بنائے اس نے اکابر پرستی شروع کی تھی اس نے مظاہر فطرت کی پرستش کی تھی یعنی پانی، طوفان، زلزلے، زمین، درخت، پہاڑ، سورج، ستارے، آگ وغیرہ جیسے جیسے اس کی علمی لیاقت بڑھتی گئی تعداد معبود گھٹتی گئی اس نے یہ فیصلہ کرنا شروع کیا کہ اس میں خدائی قوت نہیں لہذا یہ خدا نہیں آخر میں صرف ایک خدا رہ گیا شرک کو ترک کرنے اور قائم رکھنے کے کئی ادوار گزرے ہیں
انسان نے جب زمین کی ضرورت کو دیکھا اس سے لگاؤ اس کی عطاء وغیرہ دیکھی تو اس کو ماں کا درجہ دیا اس کو اپنی ماتا تسلیم کرنے لگا باپ اس لئے تسلیم نہیں کیا کہ معاشرے میں پہلے اُمہاتی نظم تھا بعد ازاں جب اس کو پتہ چلا کہ باپ اصل ہے اس کو فوقیت دی تو سورج کو باپ کا درجہ دے کر اس کی پرستش کی جس کو ہند میں سورج دادا یا دیوتا و مصر میں ہورس و ایران میں ہور یا خور کا نام دیا تاہنوز اس کی عبادت جاری ہے اسی سے ستاروں کی پوجا شروع ہوئی اس پرستش کو انی مزم بھی کہتے ہیں سورج کی پوجا کیو شروع ہوئی؟ اس کی وجہ ہم نے اخر میں ذکر کی ہے
انسان نے جانوروں کی بھی عبادت کی جیسے گائے، ہاتھی، بیل، لنگور، بندر، سانپ، مچھلی، گھوڑا، حشرات الارض، کچھوا، بچھو وغیرہ بلکہ ہند میں آج بھی گائے ماتا کی پوجا ہوتی ہے اور ایک مقدس جانور تسلیم کرتے ہیں بلکہ ہندوستان میں تو بہت سارے جانوروں کی عبادت ہوئی ہے اب بھی جاری ہے یونان میں سانڈ تو مصر گھوڑا ہند میں گائے قدیم چین اور جاپان بھی حیوان پرستی کا مرکز رہے ہیں لیکن ہند سے سب آگے ہیں حیوان پرستی کو ٫٫ٹوٹم ازم یا کوٹوٹم ازم،، کا نام دیا جاتا ہے
ان معبودانِ باطلہ میں آگ کی پوجا بہت پہلے سے چلی آرہی ہے اب تک ہوتی ہے جیسے پارسی آگ کو سب سے بڑا معبود مانتے ہیں وہی ہند میں آریاؤں نے ایک زمانے تک آگ کی پرستش کی ابھی تک ان کے مقدس مقامات پر آگ جلتی ہے ویدوں میں اس کو اگنی دیوتا کا نام دیا جاتا ہے یونان کے ہر بڑے شہر میں ایک آتش کدہ ہوتا تھا جہاں دن رات آگ جلتی رہتی تھی آگ کو معبود درجہ کیو دیا ہم نے آخر میں ذکر کیا ہے
پانی کی پرستش بھی ہوئی ہے اب بھی جاری ہے جیسے مصر میں دریائے نیل کی عبادت اور اس کی نذر مشہور ہے ہند میں آج بھی گنگا و جمنا ندی کے پانی کی پوجا ہوتی ہے پرساد چڑھائی جاتی ہے اور اس کے پانی کو متبرک مانا جاتا ہے
انسان نے اپنے اکابرین کو بھی معبودوں کا درجہ دیا تھا جیسا کہ قوم نوح علیہ السلام نے اول ودا کی عبادت کی تھی جس کی تفصیل ہم نے ہمارے ایک مضمون ٫٫بت پرستی کی ابتداء،، میں لکھ دی ہے
آخر میں انسان شرک و کفر کے مراحل طے کر کے خالص توحید تک پہنچا اور توحید کا کھرا و ستھرا تصور پیش کیا یہ انسان کی انسانیت کا دور شروع ہوا تھا اس نے اکابر پرستی مظاہر پرستی خود ساختہ معبودوں کے اس کالے دور سے نجات پا کر اپنی بلوغت کا برملا اعلان کیا تھا لیکن اب دنیاں پر واپس دہریت لامذہبیت اور مظاہر پرست کا غلبہ نظر آتا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان نے جہاں سے اپنی شروعات کی تھی سارے مراحل طے کر کے وہی پہنچا ہے اس آزاد خیالی اور مظاہر پرستی گھڈے میں میں ڈھکیلنے میں اس دور میں نیچریت، سیکولرزم، کمیونزم، آزاد خیالی اور ان جیسے نظریات نے خوب مدد کی ہے اور اب تک کر رہے ہیں
دوسرا الہامی نظریہ ہے کہ اول انسان بھی مذہب و توحید کا قائل تھا بلکہ داعی تھا اور وہ حضرت آدم علیہ السلام تھے وہ جاہل نہیں تھے بلکہ علم کے زیور سے مزین تھے جب ان کو بھیجا تو روز اول سے ہی ان کی ساری مادی و روحانی ضروریات کا سامان کیا تھا اسی سے ارتفائی نظریہ کے دعوے داروں کا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے
لیکن جب انسانی آبادیوں میں اصافہ ہونے لگا اور ان انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیم دھاندلی پڑنے لگی اور قوم نے ان میں تحریف کرنے کی وجہ سے کماحقہ وہ بات ان تک نہ پہنچ سکی و مذہب کے پیشواؤں نے اپنی من مانی کو داخل کیا تو انسان شرک کی جانب مائل ہوا تھا
ایک بات یہ بھی یقینی ہے کہ اللہ نے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور بد و اچھے میں تمیز کرنے کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے وقفے وقفے سے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور یہ سب پیغمبرانِ عظام علیہم السلام وحدانیت کے قائل و داعی تھے ان میں بعض کو کتاب و شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ان کی جو شریعت ہوتی وہ انسان کو حیات کے مکمل قانون سے وابستہ کرتی تھی اس کے طریقے مختلف ہوتے تھے اور عبادت کے طریقے بھی کچھ مختلف ہوتے کسی میں کم تو کسی میں زیادہ حکم عبادت ہوتا تھا لیکن توحید سب میں تھی اس حساب سے توحید قدیم ہے اور شرک جدید ہے اور تاریخ بھی ارتقائی کے نظریہ کا ابطال کرتی ہے اس طور پر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل حضرت ابرہیم علیہ السلام توحید پرست و داعی تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام سے آج تقریباً دو ہزار سال بعد بھی دنیاں میں کروڑوں کی تعداد میں توحید پرست انسان موجود ہے اس سے ڈارون اور پروفیسر شمٹ و جولئن بسکلے و دیگر مغربی مفکرین کا ارتقائی نظریہ باطل ہو جاتا ہے جو کہ بھولے بسرے کا نظریہ تھا بے سر و پیر تھا تاریخ و انسان کی فطرت اس پر مکمل شاہد ہے کہ اول انسان علم و ادب و دین سے کورا نہیں تھا اگر زمانہ قدیم کے انسان جاہل ہوتے تو وہ تحقیقات کیسے وجود میں آتی جن کا یہ ترقی یافتہ زمانہ مقلد ہے اور کوئی رد بھی پیش نہ کرسکا کیمسٹری میں ایک مثال لو فرعون کی لاش کی اس پر ان لوگوں نے ایسے مصالحے لگا رکھے ہیں کہ آج اس ترقی یافتہ دور میں بھی ان کی اصل تک نہ پہنچ سکے اس پر کئی تحقیقات بھی ہوئی اور مقالے بھی مرتب ہوئے اگر فلکیات کی بات کریں تو ان لوگوں نے بغیر کسی دور بین و خورد بین کے بغیر ہوا میں پرواز کئے ان پانچ سیاروں کا پتہ لگایا کہ آج تک دنیاں ان کو غلط ثابت نہ کر سکی اسی طرح سورج کے پجاریوں نے سورج کی اس لئے پوجا کی تھی کہ اس کی کرنیں جہاں تک جاتی ہے وہی تک زندگی ملتی ہے اس کی کرنوں کے بغیر زندگی تو کیا گھاس تک نہیں اگتی ہے قطب شمالی وغیرہ دیکھ لو ان کا پانی آج تک مچھلی سے خالی ہے نیز آگ کی حرارت، قدیم عمارتوں کو آپ دیکھیں تو اس میں ایسی ہزارہا چیزیں ہیں جو اعلی علم پر دلالت کرتی ہے یہ تحقیقات دیکھ کر عقل یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتی کہ انسان کی ابتدائی زندگی جہالت کے ادوار سے گزری ہے بلکہ یہی سمجھ میں آتا ہے کہ انسان ہر دور میں ذی عقل و صاحب مذھب رہا ہے اور تاریخ کی روشن گواہی ہے کہ توحید ہر دور میں رہی ہے