تاج الفقہاء مختصر تعارف وتذکرہ

تاج الفقہاء مختصر تعارف وتذکرہ

Table of Contents

تاج الفقہاء مختصر تعارف وتذکرہ

محمد توصیف رضا قادری علیمی

اہلسنت والجماعت کے مایہ ناز‘ نادر ونایاب‘ عظیم مبلغ وداعی،محقق، مفکر، متکلم و مناظر، فقہی سیمینار کے رونق، فقہ و افتاء کے ماہر، علم و تقویٰ کے بے تاج بادشاہ، نامور شخصیت، مصلح اور شیخ طریقت، بیک وقت مدرس مصنف ومقریر، استاذی الکریم حضرت علامہ مفتی الشاہ محمد اختر حسین قادری علیمی دامت ظلہ العالی والنورانی کی ذات گرامی جو نہایت امتیازی، منفرد المثال اور لائق تحسین ہیں،

تاریخِ ولادت مفتی الشاہ محمد اختر حسین قادری علیمی:

سن یکم مارچ ۱۹۷۲ء کو شمالی ہند اتر پردیش (ضلع سنت کبیر نگر جو خلیل آباد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کے محلہ بدھیانی میں آپ کی پیدائش ہوئی

خاندان:

حضرت قبلہ کی پیدائش ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو نہایت سنجیدہ، شریف الطبع، علماء و مشائخ کی تعظیم وتوقیر کرنے والے بالخصوص سادات کرام کی خدمت گزار اور اُن سے بے لوث محبت رکھنے والے۔۔۔۔اور اسی کا ثمرہ ہے کہ مفتی صاحب جیسی شخصیت اُس خاندان میں جنم لیا۔۔۔آپ کے والد ماجد محترم محمد ادریس مرحوم اور آپ کے برادر اکبر جناب محمد فاروق مرحوم پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے

تحصیل علم:

حضرت مفتی صاحب کی تعلیم کا آغاز اپنے محلہ (بدھیانی) میں قائم ادارہ (مدرسہ مصباح العلوم) سے ہوئی اُس کے بعد مدرسہ ستاریہ معین الاسلام لو ہرسن بازار (ضلع سدھارتھ نگر) میں حضرت مولانا عبدالخالق صاحب قبلہ دام ظلہ العالی کے زیر عاطفت رہ کر اعدادیہ اور اولی کی بعض کتابیں پڑھیں

نیز حضرت والا نے کچھ دن مدرسہ حق الاسلام لال گنج ضلع بستی میں بھی گزارا ۔۔۔۔۔اسی طرح ۱۴۰۴ھ مطابق ۱۹۸۳ء میں (مایہ ناز درسگاہ) الجامعۃ الاسلامیہ روناہی میں داخلہ لیا اور مسلسل چھ برس تک اساتذہ کرام کے علمی فیضان سے دامن مراد کو پر کیا۔

تکمیل تعلیم:

اور اس کے بعد دارالعلوم علیمیہ جمدا اشاہی (ضلع بستی یوپی) درجہ فضیلت‘ میں داخلہ لیا اور ۲۴ شوال المکرم ۱۴۱۰ھ مطابق ۲۰ مئی ۱۹۹۰ء بروز اتوار ادارہ کا جلسہ دستار بندی منعقد ہوا جس میں ختم بخاری شریف کی رسم مبارک ادا کرنے کی غرض سے اشرف العلماء سید حامد اشرف کچھوچھوی اور شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہما الرحمۃ رونق افروز ہوئے بے شمار علما ومشائخ کی موجودگی میں حضرت قبلہ کو جبہ و دستار فضیلت سے نوازا گیا۔

میدان تدریس و بطور مدرس:

تدریس میں حضرت کو بڑا ہی ملکہ حاصل ہے۔۔ آپکی تدریس کا اسلوب اور طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے طلبہ سے عبارت پڑھواتے ہیں بعدہ جس سبق کو پڑھنا ہے اُسے دلنشین مثالوں کے ذریعے سمجھاتے ہیں، پھر کتاب کی عبارت پڑھ کر اسکی تفہیم کراتے ہیں۔۔ اور اس طریقے سے طلباء کرام اسباق کو بڑے آسانی سے سمجھ جاتے ہیں۔۔۔ ایک اچھے اور ماہر مدرس کی یہی علامت وشناخت ہوتی ہے بلا شبہ آپ کو ملک التفہیمات کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا

بحمدہ تعالیٰ راقم کو فقہ واصول کے معتبر ومستند کتاب "نورالانوار، ہدایہ آخرین” وغیرہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔۔۔نیز تفسیر بیضاوی بھی پڑھنے کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔(الحمدللہ)۔۔ اللہ کا فضل واحسان ہے کہ اس عظیم شخصیت کی بارگاہ میں مجھ ناچیز کو زانوے ادب تہہ کرنے کا موقع ملا۔

فقہی سمیناروں میں روح رواں:

امت مسلمہ کے سامنے نت نئے مسائل آتے رہتے ہیں ان مسائل کا شرعی حل نکالنے کے لئے ارباب علم و حکمت اور اصحاب فقہ وفتاوی سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور قوم کے بیچ رہنمائی کے لئے پوری جدوجہد کرتے ہیں۔ چنانچہ ۱۳۱۵ھ مطابق ۱۹۹۴ء سے لیکر تاحال حضرت قبلہ(تاج الفقہاء) اہل حکمت کی اسی اہم مجلسوں میں صرف بحیثیت سامع و ناظر نہیں بلکہ بحثیت باحث و مناظر شریک ہوتے ہیں

اور حضرت کی فقہی مسائل پر بالغ نظری کا جلوہ بریلی شریف (قائم کردہ فقہی سیمینار) میں دیکھی جا سکتی ہے بلکہ اب تو شرعی کونسل آف ال انڈیا بریلی شریف کی جانب سے منعقد ہونے والے سمیناروں میں اکابرین کی نگاہ کرم سے روح رواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

خطیب ہو تو ایسے:

آپ جہاں تشریف لے جاتے ہیں مذہب حق اہلسنت و جماعت (مسلک اعلیحضرت) کی بے باک ترجمانی فرماتے ہیں۔ آپ کی تقریر قرآن و حدیث اور اسلاف کرام کی تعلیمات سے مکمل مزین اور بہت سنجیدہ اور باوزن ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا آپ چلتا پھرتا لائبریری ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام وخواص، علما اور دنیاوی تعلیم یافتہ بھی آپ کے معترف نظر آتے ہیں

تصنیف وتالیف:

عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کسی کے پاس زبان ہے تو قلم نہیں کسی کے پاس قلم ہے تو زبان نہیں مگر حضرتِ قبلہ کی شخصیت اس (عمومی) قاعدے سے بالکل مستثنیٰ ہیں یعنی آپ ایک زبردست مصنف اور بہت سارے علمی اوصاف و کمالات کے مالک ہیں

اس حوالے سے حضرت مفتی صاحب نے اصلاح عقائد واعمال سے متعلق کئی اہم تصانیف امت کو عطا فرمائی ہیں اُن میں سے (۱) عرس کی شرعی حیثیت (٢) جدید مسائل زكاة (۳) راہ عمل (۴) طاہر القادری عقائد ونظریات (۵) پانی اور تحقیقات رضویہ(۶) حاشیہ تفسیر نعیمی اول (۷) فکر امروز (۸) برطانیہ میں نماز وروزہ کے مسائل کا حل

(۹) آداب امامت (۱۰) تین طلاق قرآن حدیث کی روشنی میں، (۱۱) اور فتاویٰ علیمیہ تین جلدیں(جو جامعیت قابل تحسین کہ علم وحکمت اور تحقیق وتدقیق کی دنیا میں ایک شاندار اضافہ اور دینی رہنمائی کے لحاظ سے عوام و خواص کے لئے عظیم تحفہ ہے) اسی طرح تقریباً بیسیوں کُتب اور سیکڑوں مقالات قلمبند کئے اور مزید یہ سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔

اجازت وخلافت:

حضرت مفتی صاحب کی دینی خدمات اور آپ کی علمی وفکری بصیرت ولیاقت دیکھ کر اہم شخصیات نے خلعت خلافت واجازت سے سرفراز فرمایا۔ اُن میں سے (۱) فقیہ ملت حضرت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ القوی (جو مفتی صاحب کے سسر بھی ہیں) نے سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی خلافت عطا فرمائی (۲) نیز وارثِ علوم اعلٰی حضرت جانشین حضور مفتی اعظم حضورِ تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری الازہری رحمۃ اللہ الباری نے بھی خلافت سے نوازا (۳) اسی طرح وارث علوم صدر الشریعہ ممتاز الفقہاء سلطان الاساتذہ محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی دامت برکاتہم العالیہ نے عرس صدرالشریعہ کے موقع پر (مفتی صاحب قبلہ کو) خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا

شرفِ بیعت:

اور ۲۵ صفر ۱۴۰۹ھ مطابق ۲۰ اکتوبر ۱۹۸۷ء بروز منگل وارث علوم رضا جانشین مفتی اعظم ہند تاج الشریعہ علامہ الشاہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری رضی المولیٰ تعالی عنہ کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں داخل ہوۓ۔ *(تفصیل کے لیے فتاویٰ علیمیہ جلد اوّل وتجلیاتِ تاج الفقہاء مطالعہ فرمائیں)*

۔۔۔۔اللہ جل وعلا کی بارگاہ میں فقیر دعاء گو ہے کہ حضرت کو حاسدین کے شر سے محفوظ رکھے اور آپکی عمر میں بے پناہ برکتیں عطا فرمائے نیز ہمیں اپنے اساتذہ کرام کی پاکیزہ سیرت کردار وحیات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی توفیق بخشے(آمین) بجاہ سید المرسلین ﷺ۔

از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی

(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانیک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند : متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی،۔۔۔۔شائع کردہ: ١٣/جولائی/۲۰۲۲)*

مزید پڑھیں

حضرت علی المرتضیٰ کر م اللہ وجہہ کی خلافت اور اہم کارنامے

جہیز کا وبال اور شرعی احکام قسط اول

جہیز کا وبال اور شرعی احکام(قسط دوم)

شیئر کیجیے

Leave a comment