سوشل میڈیا اور بہکتے نوجوان
کالم نگار: محمد ندیم عطاری
جب سے سوشل میڈیا پر شارٹ ویڈیو ایپ کا چلن شروع ہوا تو ہمارے آس پاس ایکٹروں، مسخروں، ڈانسروں اور نقالوں کی بڑی فوج تیار ہوگئی ہے۔ اب اس فوج بلا خیز میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی شامل ہوگئی ہیں۔
پہلے پہل ان ویڈیو ایپ کو لوگ محض سستی تفریح کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس لیے اس کا چلن زیادہ نہیں تھا۔مگر ویڈیو کے ذریعے پیسہ کمانے کا آپشن معلوم ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے ان ایپوں پر شہر تو شہر دور افتادہ گاؤں دیہات کے لڑکے لڑکیوں نے بھی وہ طوفان اٹھایا کہ اللہ کی پناہ!۔۔
کھیتوں، کارخانوں میں کام کرنے والے، اینٹ بھٹوں پر مٹی گارا بنانے والے، رکشہ پٹری چلانے والے اور پس ماندہ گھرانوں کے لڑکے بھی خرمستیاں کرنے میں شہری چھوکروں سے کسی طور پر کم نہیں ہیں۔
کہاوت ہے ، کہ جب طوفان آتا ہے تو پہلے ہلکی ہلکی لہریں آتی ہیں۔ آہستہ آہستہ کوڑا کرکٹ بہتا ہوا آتا ہے۔ اس کے بعد سیلاب آتا ہے تو سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔۔
ایسا ہی معاملہ ان ایپ کے آنے کے بعد ہوا۔ شروعاتی دور میں چند نِٹھلّے لڑکے ہی مسخری اور نوٹنکی کرتے پھرتے تھے مگر جیسے جیسے لہریں تیز ہوئیں سیلاب کی شدت بڑھتی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ گاؤں دیہات اور شریف گھرانوں کی لڑکیاں بھی چوری چھپے ویڈیو بنا بنا کر اپلوڈ کرنے لگیں۔
سوشل میڈیا ایک نشہ ہے جسے لگ جائے وہ ہر وقت اس کے خمار میں رہتا ہے۔ اگر اس نشے میں پیسہ کمانے کا جنون بھی مل جائے تو نشہ دو آتشہ ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی یوٹیوبر اور شارٹ ویڈیو بنانے والوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ اب انہیں محض ویڈیو بنانے پر تسلی نہیں ہوتی جب تک اس پر بڑی تعداد میں لائک ( Like) اور سبسکرائبر (Subscribers) نہ ملیں۔ کیوں انہیں کی بنیاد پر ایپ کمپنیاں اور یوٹیوب پیسہ دیتا ہے۔ اس لیے دیکھنے والوں کو متوجہ کرنے کے لیے ہر جتن کیا جاتا ہے۔
اسی خمار کا اثر ہے کہ شریف گھرانوں کی لڑکیاں تک فحش انداز میں ڈانسنگ ویڈیو بنا کر اپلوڈ کر رہی ہیں اور لڑکے مکمل طور فلمی ایکٹروں کی طرح گالی گلوچ اور ہر طرح کی خرافات کو اپنا چکے ہیں۔ کیوں کہ اس فیلڈ میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
لگاتارویڈیو اپلوڈ ہورہے ہیں تو دیکھنے والوں کا ٹیسٹ بھی Better than best کی ڈیمانڈ کرنے لگا ہے۔ اس لیے نئے سے نیا content اور presentation بہت اہم ہوگیا۔ ٹی وی اور سنیما ایک انڈسٹری کے طور پر قائم ہیں۔جہاں ایک ایک سین کے لیے درجنوں ماہرین کی محنت و صلاحیت لگتی ہے تب کہیں جاکر ایک اچھا سین تیار ہوتا ہے۔
مگر گلی محلوں میں شارٹ ویڈیو بنانے والے لڑکے لڑکیاں بمشکل دو چار کی ٹولیوں میں ہی ہوتے ہیں۔ اور کچھ خاص پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے۔ اس لیے لڑکے آہستہ آہستہ پھوہڑ باتوں اور گالی گلوچ کرنے پر اتر آئے ہیں جب کہ لڑکیاں فحش باتوں اور شہوت انگیز ڈانس پر اتر آئیں ہیں۔ اگر وقت رہتے اس طوفان کی روک تھام نہ کی گئی تو خدا جانے انجام کیا ہوگا؟
کیسے ہو روک تھام۔۔ ؟
ارادے مضبوط ہوں تو ہر برائی کی روک تھام ممکن ہے۔ مگر پریشانی جتنی بڑی ہوتی ہے محنت بھی اتنا ہی کرنا پڑتی ہے۔چونکہ سوشل میڈیا کی پہنچ اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس پر پابندی لگانا تو کسی کے لیے ممکن نہیں رہ گیا ہے لیکن اگر مضبوط قوت ارادی سے کام کیا جائے تو ہم کافی حد ان مسائل کی روک تھام کر سکتے ہیں۔ اس مہم میں والدین، اساتذہ، ائمہ اور سماجی طور پر ذمہ دار ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔چند اہم نکات حاضر ہیں:۔
🔹1۔ بچوں کو چپ کرانے یا ہنسنے ہنسانے کے لیے فلمی گانوں وغیرہ کا استعمال بالکل نہ کیا جائے۔ بگاڑ کی شروعات ہمیشہ ایسے ہی ہوتی ہے۔
🔹2۔ جس عمر میں بچے الفاظ سمجھنے لگیں اس وقت بھول کر بھی بچوں کے سامنے گالی گلوچ نہ کی جائے۔
🔹3۔ زمانہ شناس اور سنجیدہ افراد کی ایسی ٹیم تیار کی جائے جو ان ایپ کو تعمیری کاموں میں استعمال کرنے کی تراکیب نکال سکیں اور نعم البدل تیار کر سکیں۔
🔹4۔ مدارس و اسکول میں کتابی فنون کے ساتھ ساتھ معاشرتی اخلاق و آداب لازمی سکھائے جائیں۔
🔹5۔ اساتذہ خود اپنے طلبہ کے لیے رول ماڈل بنیں اور وقتاً فوقتاً ایسے موضوعات پر ماہرین کے خصوصی خطاب کرائے جائیں۔
🔹6۔ آئمہ مساجد ایسے موضوعات پر اچھے اسلوب اور مہذب انداز میں روشنی ڈالیں تاکہ نوجوان نسل ان قباحتوں سے واقف اور متنفر ہو۔
🔹7۔ ایسے موضوعات پر بازاری لب و لہجے اور غیر سنجیدہ انداز سے پرہیز کریں تاکہ فائدے کی جگہ نقصان نہ ہوجائے۔
🔹8۔ سماجی طور منعقدہ مجلسوں میں گاہے گاہے ان امور پر بات چیت ہوتی رہے۔
🔹9۔ والدین اپنے نوجوان بچے بچیوں پر خصوصی دھیان رکھیں۔ انہیں بہکتا دیکھیں تو کمال حکمت کے ساتھ ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔
🔹10۔ آئمہ کرام اور سماجی ذمہ داران بھی ایسے مواقع پر اپنا مصلحانہ کردار ادا کریں تاکہ برائی کو پنپنے کا زیادہ موقع نہ مل سکے۔
اس کے علاوہ جو بھی مفید اور ضروری اقدامات ہو کئے جائیں تاکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو روکا جاسکے اور اپنی جوانیوں کو بے مقصد اور غلط کاموں میں ضائع کرنے والے لڑکے لڑکیوں کو بے حیائی کے دلدل سے بچایا جاسکے۔
اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم عطاء فرمائے۔ آمین
کالم نگار: محمد ندیم عطاری
فیضان مدینہ، اوکاڑہ پنجاب