سیرت حضور تاج الشریعہ اور ہمارا کردار

سیرت حضور تاج الشریعہ اور ہمارا کردار

Table of Contents

سیرت حضور تاج الشریعہ اور ہمارا کردار
اللہ پاک اپنے نیک اورمحبوب بندوں پر انوار وتجلیات کی بارشیں نازل فرماتاہے اور بلند مقام ومرتبےپر فائز فرماتا ہے۔ جس کی بنیاد پر کائنات میں نیک بندوں کےڈنکےبجتےہیں۔انہیں نیک بندوں میں
وارث علوم اعلیٰ حضرت
نبیرہ سرکار حجۃ الاسلام
جانشین حضور مفتی اعظم ہند
شہز ادۂ مفسر اعظم قائم مقام مفتی اعظم ہندمخدوم اہلسنت فخرازہر
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختررضا خان ازہری معروف بحضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ والرضوان کی ذات بھی ہے۔
جن کو اللہ پاک نےایسی شان ومقام عطا کی تھی کہ جن کے دیدار کےلئے آنکھیں انتظار میں رہتی تھیں
اور جن کی صحبت اختیار کرلینے کو عشاقِ اولیاء سرمایہ حیات سمجھتے تھے۔
کیونکہ حدیث پاک میں مفہوم بھی ہے کہ اللہ پاک جن نیک بندوں سے محبت فرماتاہےان کی محبت مخلوق میں ڈال دیتا ہے پھر مخلوق خدا بغیر بلائے بھی اس نیک بندے کی طرف دوڑ لگاتی ہے پھر وہاں لوگوں کی بھیڑ اور جم غفیر کی وجہ سےجگہ تنگ پڑ جاتی ہےکہ کچھ دیر ہی سہی ان کی صحبت یا دیدار نصیب ہو جائے۔
فقیہ اسلام مخدوم اہلسنت
مبلغ اعظم عالم
جانشین حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ محمد اسماعیل رضا خان معروف بہ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختررضا خان علیہ الرحمہ نسباً بڑہیچ پٹھان، مسلکاً سنی حنفی، مشرباقادری برکاتی، مولداومسکنابریلوی، تعلیمامنظری، اور تکمیلا ازہری ہیں۔
چودہویں صدی ہجری کے نصف آخر، بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول میں غیر منقسم ہندوستان اور روہیلکھنڈ کے مرکز علم وعرفاں، مخزن فیض برکت، منبع جودوسخا،معدن نورونکہت بریلی شریف میں عالم ارواح سے عالم اجسام میں جلوہ گر ہوئے۔ اور ٢٥فروری ١٩٤٢ءمحلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔
نسب و خاندانی پس منظر
تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختررضا خان ازہری قادری (وفات ٢٠جولائی ٢٠١٨ء
بروزجمعہ بعد نماز مغرب)
بن مفسر اعظم حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم رضا خان جیلانی میاں(وفات ١٣٨٥ھ/١٩٦٥ء)
بن حجۃالاسلام مولانا مفتی محمد حامد رضا خان(١٣٦٢ھ/١٩٤٣ء )
بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری(١٣٤٠ھ/١٩٢١ء)
ناناجان مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خان (١٤٠٢ھ/١٩٨١ء)
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کاخاندان افغان النسل اور قبیلہ بڑہیچ سے تعلق رکھتا ہے۔ مورثِ اعلیٰ شہزادہ سعید اللہ خان قندھار حکومت افغانستان کے ولی عہد تھے، خاندانی اختلاف کی وجہ سے قندھار کوترک وطن کر لاہور آئے۔ یہاں پر گورنر نے اپنے شیش محل میں آپ کے قیام کا انتظام کیا اور دربار محمد شاہ بادشاہ دہلی اطلاع بھیجوائی، دربار سے شاہی مہمان نوازی کا حکم صادر ہوا۔ پھر شہزادہ سعید اللہ خان نے دہلی بادشاہ محمد شاہ سے جاکر ملاقات کی، آپ کو بادشاہ نے فوج کا جنرل بنادیا اور آپ کے ساتھیوں کو بھی فوج میں اچھی جگہ مل گئی۔ روہیل کھنڈ میں کچھ بغاوت کے آثار نمایاں ہوئے تو بادشاہ نے آپ کو روہیل کھنڈ دارالسلطنت بریلی بھیج دیا تاکہ وہاں امن وامان قائم کریں۔ آپ کے صاحبزادے سعادت یارخان دربار دہلی میں وزیر مملکت تھے، ان کو کلیدی قلمدان ملا تھا ان کی اپنی علیحدہ مہر تھی۔
حافظ کاظم علی خان کے عہد میں مغلیہ حکومت کا زوال شروع ہوگیا۔ ہر طرف بغاوتوں کا شور اور آزادی خودمختاری کا زور تھا۔ آپ اودھ کی کمان سنبھالنے پہونچے۔ آپ کے فرزند مولانا شاہ رضا علی خان بریلوی جنہوں نے ١٨٥٧ءمیں اہم کردار ادا کیا۔ انگریز نے ان کا سرقلم کرنے کے لئے پانچ ہزار کے انعام کا اعلان کیا تھا۔ آپ کے دو فرزند مولانا مفتی نقی علی خان بریلوی اور دوسرے مولانا حکیم تقی علی خان بریلوی، تولد ہوئے جنہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں۔
مولانا نقی علی خان بریلوی کے تین فرزند تولد ہوئے۔
(١) اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری بریلوی(٢) مولانا حسن رضا خان حسن بریلوی(٣) مولانا مفتی محمد رضا خان بریلوی۔
(کرامات تاج الشریعہ ص١٩تا٢٠)
تسمیہ خوانی
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عمر شریف جب چار سال، چار ماہ، اور چار دن کی ہوئی تو والدماجد مفسر اعظم ہند حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خان جیلانی بریلوی نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی اور اس میں دارالعلوم منظر اسلام کے جملہ طلبہ کودعوت دی۔ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفیٰ رضا خان نوری بریلوی قدس سرہ، نےرسم بسم اللہ اداکرائی۔
اور "محمد” نام پر عقیقہ ہوا۔ پکارنے کا نام” محمد اسماعیل رضا "اور عرف” محمد اختررضا”تجویز فرمایا۔ حضور مفتی اعظم ہند کی صاحبزادی یعنی جانشین مفتی اعظم ہند کی والدہ ماجدہ نے تعلیم وتربیت کاخاص خیال رکھا۔
چونکہ ناناجان کاصحیح جانشین اسی نواسے کو مستقبل میں بننا تھا۔ اور ساری توقعات انہیں سے وابسطہ تھیں۔ اسی لئے ناناجان حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی دعائیں بھی آپ کے حق میں نکلتی رہیں۔ (کرامات تاج الشریعہ ص٢٠)
تاج الشریعہ کا قوت حافظہ
تاج الشریعہ بچپن ہی سے ذہانت و فطانت اور قوت حافظہ کے مالک تھے۔ اور عربی ادب کے دلدادہ تھے۔ جامعہ ازہر مصر میں داخلہ کے بعدآپ کی جامعہ کے اساتذہ اور تلامذہ سے گفتگو ہوئی تو آپ کی بے تکلف فصیح وبلیغ عربی گفتگو سن کر محو حیرت ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک عجمی النسل ہندوستانی، عربی النسل اہل علم حضرات سے گفتگو کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا۔ واقعی قابل حیرت بات ہے۔
جامعہ ازہر مصر کے”شعبہ کلیہ اصول الدین "کا سالانہ امتحان اگر چہ تحریری ہوتا تھا۔ مگر معلومات عامہ (جنرل نالج) کاامتحان تقریری ہوتا تھا۔ چنانچہ جامعہ سالانہ امتحان کے موقع پر جب جانشین مفتی اعظم کاامتحان ہوا، تو ممتحن نے آپ کی جماعت کے طلبہ سے علم کلام کے چند سوالات کئے، پوری جماعت میں سے کوئی ایک بھی طالب علم ممتحن کے سوالات کے صحیح جوابات نہ دے سکا۔ ممتحن نے روئے سخن آپ کی طرف کرتے ہوئے سوالات کو دوہرایا جانشین مفتی اعظم نے ان سوالات کا ایسا شافی وکافی جواب دیا کہ ممتحن تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ:آپ تو حدیث واصول حدیث پڑھتے ہیں علم کلام میں کیسے جواب دیدیاآپ نے علم کلام کہاں پڑھا؟ جانشین مفتی اعظم نے جواب میں کہا کہ میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں چند ابتدائی کتابیں علم کلام کی پڑھی تھیں اور مجھے مطالعہ کا بہت شوق تھا جس کی وجہ سے میں نے آپ کے سوالات کے جواب دےدیئے۔ اگر اس سے بھی مشکل سوال ہوتا تو میں صحیح جواب دیتا۔
آپ کے جواب سے مسرور ہو کر ممتحن جامعہ نے آپ کو جماعت میں پہلا مقام اور پوزیشن دی اور آپ اول نمبروں سے پاس ہوئے۔ (کرامات تاج الشریعہ ص22/تا23)

آجکل کی پیری مریدی اور تاج الشریعہ
مضمون نگار رقمطراز ہیں:اس زمانے میں پیران کرام کی کمی نہیں شاید مریدین سے زیادہ پیر صاحبان کی تعداد ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ جو چیز کسی مارکیٹ میں زیادہ ہوجاتی ہیں۔ تواس کا ویلو اور ڈیمانڈ کم ہوجاتی ہے۔
ایسا ہی کچھ حال آجکل کے پیرمغاں حضرات کاہے۔ گھر گھر میں پیرہیں، اس لئے پیر کی عظمت واہمیت لوگوں میں آج مفقود نظر آرہی ہے، لیکن انہیں لوگوں میں کچھ ہستیاں ہیں جو پیری کے اعلی مقام پر فائز اور مشیخیت کے بلندوبالامعیارپرقائم ہیں۔ انہیں مقدس ہستیوں میں حضور تاج الشریعہ کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اگر حقیقت میں نگاہوں سے دیکھاجائے تو بلاشبہ تاج الشریعہ اس وقت اعظم المشائخ فی العصر فی الملک ہیں۔ بہت سے پیروں کے پرچارک مارکیٹ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جوان کی جھوٹی اور غلط سلط کرامتیں بیان کرکے سیدھے سادھے لوگوں کو ان کےدام تزویرمیں پھنساتےپھرتےہیں۔ لیکن بحمدہ تعالیٰ وبعنایت نبیہ المصطفی حضرت تاج الشریعہ کی شان ہی کچھ نرالی ہے کہ کہیں آپ کا کوئی ایجنٹ اور نہ پرچارک بلکہ رب قدیرکی طرف سے آپ کواتنی مقبولیت حاصل ہے کہ میری دانست میں فی زمانہ آپ سے زیادہ مرید کسی کے بھی نہیں ہیں۔ذالک فضل الله یوتیہ من یشاء۔

مولانا توحید اشرفی
ساکن شہزادپورامبیڈکرنگرکابیان ہے کہ حضور تاج الشریعہ کا سفر ہالینڈ کا ہوا۔ جلسہ میں بہت سے ڈاکٹرس اور پروفیسرس ٹائی لگاکر شریک تھے آپ نے ٹائی کی حقیقت اور ٹائی کےتعلق سے عیسائیوں کے عقیدے پر بھرپور تقریر فرمائی، اور ٹائی کے جتنے اقسام ہیں ان کی بھی وضاحت فرمائی۔
اس تعلق سے جلسہ کے بعد آپ سے استفادہ ہوا، آپ نے دلائل وبراہین کے ساتھ تشفی بخش جواب ہالینڈ روانہ فرمایا اس سلسلے میں آپ کی کتاب "ٹائی کا مسئلہ” وجود میں آئی۔
حضور تاج الشریعہ نے یہ ہرگز نہیں سوچا کہ یورپ کے دنیاوی منصب پر فائز اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات جلسہ میں موجود ہیں، اگر ٹائی کے تعلق سے گفتگو ہوئی تو کہیں یہ سب ناراض نہ ہو جائیں، آپ نے حکم شرع بیان فرماکر اپنے عالمانہ فقیہانہ وقار کو مجروح ہونے سے بچا لیا۔
آج کل پیرومرشد کودیکھا جاتا ہے کہ پیرطریقت کی مسند پر بیٹھنے کے بعد احکام شریعت کو نظر انداز کر ناان کا شیوہ بن گیا ہے، ان کوصرف فکر رہتی تو آمدنی کی، نماز، روزہ، اذکارووظائف اور تذکیہ نفس وتصفیہ قلوب کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے عورتوں کا اٹھنا بیٹھناغیرشرعی امور دیکھنا اور تنبیہ کرنا، اسے حکمت عملی کا نام دینا ایسے پیروں کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے۔
مگر تاج الشریعہ ایک صاحب علم وفن کے ساتھ بحرطریقت کے غواص بھی ہیں، مشاہدین میں سے کسی پر یہ امرمخفی نہیں ہے کہ حضور تاج الشریعہ کے سامنے کوئی غیر شرعی امر واقع ہوجائے اور آپ نے خاموشی اختیار کی ہو، بلکہ فوراً حکم شرع بیان فرمائے ہیں، آپ کی شخصیت جہاں نورعلی نورہےوہیں پاکیزہ کردار وعمل کے تاجدار بھی ہیں۔ حضرت علامہ سیدشاہ فخرالدین اشرف اشرفی جیلانی سجادہ نشین کچھوچھہ مقدسہ فرماتے ہیں:خانوادہ رضویہ کے چشم وچراغ، شریعت وطریقت علمبردار، فقیہ عصر، شیخ الاسلام والمسلمين حضرت علامہ مولانا تاج الشریعہ الحاج محمد اختررضا خان صاحب قبلہ مدظلہ العالی ملقب بہ ازہری میاں کی ذات ستودہ صفات ہیں۔
جو علم وعمل، زہدوتقوی، شرم و حیا، صبروقناعت، صداقت و استقامت، وغیرہ عظیم صفات حسنہ سے متصف ہیں۔
سفر وحضر ہر حالت میں نماز کی پابندی فرماتے تھے اور ٹرین سے سفر کرتے ہوئے بھی نمازیں قضا نہ کرتے بلکہ ٹرین سے اتر کر پلیٹ فارم پر نماز ادا تے۔ راحت و تکلیف، کمزوری و توانائی، کسی لمحہ بھی نماز کی پابندی سے غفلت نہیں فرماتے۔ نیز ائیرپورٹ میں بھی وقت نماز ہونےپر اہتمام نماز فرماتے اور پڑھتے۔
الله پاک ہمیں بھی پابند صوم وصلوۃ کی توفیق عطا فرمائے۔
تقوی وطہارت ، زہدوورع کی یہ نادر مثالیں آج کے پرفتن دور میں نایاب ہیں۔ جولوگوں کےلئے درس عبرت اور نمونہ عمل ہیں۔
آپ کاظاہروباطن یکساں ہے، یہی وجہ ہے کہ حکم شرع بیان کرتے وقت کسی کی پرواہ نہیں کر تے ہیں۔آج تک حاضر ین میں سے کسی نےآ کے پاس عورتوں کو بیٹھتے ہوئے نہیں دیکھا، عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرمریدکرتےہوئے نہیں دیکھا، چین والی گھڑی پہن کرکسی عالم یاغیرعالم کو بیٹھے نہیں دیکھا
۔ یہ حقیقت ہے کہ جو اللہ اور رسول ﷺ سے ڈرتا ہےاس سے خدا کی مخلوق ڈرتی ہے۔ آپ کا تصلب فی الدین کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،؂ ایسا مرشد طریقت کسی کو مل جائے تو واقعی اس کی آخرت سنور جائے گی۔
تاج الشریعہ بیک وقت دوجگہ
٢٠١٣ءمیں حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے ہمراہ صاحبزادہ مولانا مفتی عسجدرضاقادری مہتمم جامعۃالرضا بریلی شریف ساؤتھ افریقہ کے علاوہ دارالسلام تنزانیہ کے، ہرارے، زمباوےاور ملاوی وغیرہ کے تبلیغی سفر پر تشریف لے گئے تھے۔ واپسی پر ملاوی کا ایک واقعہ جوحضرت کی زندہ جاوید کرامت سے منسوب ہے، راقم سے بیان کیا۔ کہ جمعہ کا دن تھا محمد اسلم مرزا رضوی میرے پاس بےتانہ آئےاور بغل گیر ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ نے نماز کہاں پڑھی،میں نے بتایا کہ فلاں مسجد میں پڑھی،وہاں حضرت نے نماز جمعہ ادا کرائی، اسلم مرزا نے نماز جمعہ کسی دوسری مسجد میں پڑھی تھی یہاں عین نماز جمعہ حضرت تاج الشریعہ کی زیارت اور مصافحہ اور دست بوسی بھی کی تھی، اسلم مرزا صاحب کا اپنی مسجد میں زیارت کرنااور حضرت کا کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھانا واقعی کسی عظیم کرامت سے کم نہیں۔اس مجلس میں کسی نے کہا حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ بیک وقت 70جگہ جلوہ نمائی کرسکتے ہیں، توان کے جانشین اور خلیفہ بیک وقت دوجگہ کیون نہیں ہوسکتے۔اسلم مرزا صاحب حضرت کی یہ کرامت دیکھ کر فوراً گھر گئے اور اپنے بیوی بچوں کو لاکر حضرت کے دست حق پرست پر بیعت کرادیا۔
اور انہوں نے یہ اپنا چشم دید واقعہ تمام لوگوں سے بیان کرکے حیرت میں ڈال دیا وہ کہتے ہیں کہ اس دن سے میری عقیدت و محبت میں ہزار درجہ اضافہ ہوگیا۔
(کرامات تاج الشریعہ ص95، 96)

چندمزیدکرامات حضور تاج الشریعہ

(1) وائی جهاز کا واپس آنا

سات(7)اکتوبر(2015)کو بعد نمازِ ظہر قادری رائس میل بہیڑی ضلع بريلی میں بیعت و ارشاد کا جلسہ مولانا مختار احمد قادری صاحب نے منعقد کیا تھا۔
حضرت تاج الشریعہ کے ہمراہ راقم(محمد شہاب الدین رضوی)کے علاوہ مولانا محمد عاشق حسین کشمیری صاحب اور مفتی شعیب رضا قادری صاحب بھی تھے۔
محترم مفتی صاحب نے اپنی تقریر میں اپنا عینی مشاہدہ بیان کیا کہ گزشتہ سال
حضرت کے ہمراہ زمباوے کے شہر ہرارے کے ایر پورٹ پر ہم لوگ دوسرے شہر کی فلائٹ پکڑنے کے لیے پہنچے ،
تاخیر ہو جانے کی وجہ سے ایر پورٹ انتظامیہ نے کہا کہ پلین رن وے پر جا چکا ہے۔
اب آپ کا جانا ممکن نہیں ہے۔حضرت سے مخاطب ہو کر افسوس کا اظہار کرنے لگے کہ اب دوسری فلائٹ بھی نہیں ہے۔
پروگرام متاثر ہو جائے گا ،کافی لوگ جمع ہوۓ ہوں گے۔
پروگرام آگنائزر کا کیا حال ہوگا۔
حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی پر توکل کرو، اللہ جو کرے گا بہتر ہوگا ، پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔
چند منٹ ہی گزرے تھے کہ انتظامیہ کے اہل کار آۓ ،
کہنے لگے کہ آپ لوگ چلیں نا معلوم کیا وجہ رہی کہ پلین رن وے پر جانے کے بعد واپس آ گیا ہے۔
شاید آپ لوگوں کو لیجانا مقصود تھا۔
مفتی شعیب رضا صاحب نے تقریر میں کہا ،
یہ حضرت کی کرامت ہی ہے کہ ہوائی جہاز اڑنے کے بعد پھر دوبارہ واپس آیا۔
اور ہم لوگ خدا کا شکر ادا کرتے ہوۓ پلین میں بیٹھ گئے۔
(کراماتِ تاج الشریعہ)
(2) حضور تاج الشریعہ کے چہرہ کودیکھ کر بد عقیدگی سے تائب
غالباَ جنوری۱۹۹۶ء کی بات ہے کہ
راقم السطور(محمد شہاب الدین رضوی)
حضرت تاج الشریعہ کے ہمراہ لدھیانہ(پنجاب)
کے تبلیغی سفر پر تھا۔
جناب عین الحق رضوی کی دعوت پر لدھیانہ حضرت کا جانا ہوا۔
دن میں
محلہ غیاث پورہ میں ایک مدرسہ کا سنگِ بنیاد رکھا شب میں جلسہ کا اہتمام تھا۔
جلسہ میں تقریبًا دو لاکھ انسانوں کا ہجوم تھا،
ایسا لگتا تھا کہ جیسے پورا صوبہ پنجاب آج لدھیانہ میں جمع ہو گیا ہے۔
حضرت تقریباً ایک بج کر کچھ منٹ پر جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔
ہر مقرر و شاعر حضرت کی شان میں منقبت پڑھتا تھا۔ حضرت نے منع فرمایا کہ میری قصیدہ خوانی کے بجاۓِاسلام و سنیت پر تقریر کریں
اور
شعراء نعتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پڑھیں
اختتامِ اجلاس سے قبل تقریباً ۷۵ ہزار فرزندان توحید نے حضرت کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دیکر غوث اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان کی غلامی کا پٹہ ڈالنے کا عہد و پیمان کیا۔

وہیں پر چند وہابی دیوبندی بھی جلسہ سننے اور حضرت کا دیدار کرنے آۓ تھے ۔
حضرت کو دیکھتے ہی ممبر پر آ گئے۔
کسی نے مجھ
(ڈاکٹر مولانا محمد شہاب الدین رضوی)
سے کہا کہ یہ لوگ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔
میں ان کی طرف متوجہ ہوا، کہنے لگے کہ ہم لوگ مولوی قاسم نانوتوی کے قصبہ نانوتہ کے رہنے والے ہیں ،
یہاں ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں ۔
حضرت جیسی نورانی شخصیت آج تک ہم نے نہیں دیکھی ہے۔
اور آج ہم نے سُنِِّی اور دیوبندی کا فرق سمجھا ہے، اس لیے اب ہم حضرت کے ہاتھ پر تو بہ و رجوع الی اللہ کرنا چاہتے ہیں۔
میں فوراً حضرت کے پاس لے گیا ،
پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت نے توبہ و تجدید ایمان کرایا۔
داخلِ اسلام و سنیت فرما کر مرید کیا ۔ غالبًا پانچ لوگ تھے ۔

یہ حضرت تاج الشریعہ کے چہرہ زیبا کی ضوفشانیاں جن کی نورانی شعاؤں سے نظریں خیرہ ہو جاتی تھیں ،
اور دل و دماغ کی سلطنت بدل جایا کرتی تھی،
(کراماتِ تاج الشریعہ صفحہ،89/88)

(3) حضور تاج الشریعہ سےکینسر سے نجات
عزیزم عبد اللہ رضوی ساکن محلہ ملوکپور بریلی کسی کمپوٹر کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر نے آپ کو کینسر کا مرض بتا دیا۔
بریلی سے دہلی پہنچے ،
یہاں جانچ کرانے کے بعد پھر ٹاٹا کینسر ہاسٹل میں بھی جانچ کے لیے پہنچے،
سبھی نے کینسر جیسے مہلک مرض کے ہونے کی بات کہہ دی ۔
موصوف(عبد اللہ رضوی)
فورًا اپنے پیرو مرشد حضرت تاج الشریعہ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور زار و قطار رونے لگے ،
حضرت نے دریافت کیا کہ کیوں رو رہے ہو، خادم نے کہا کہ حضرت ڈاکٹروں نے کینسر بتا دیا ہے،
جانچ رپورٹ میں بھی کینسر کے نمایاں نشانات بتاۓ ہیں
حضرت نے ڈاکٹر پر غصہ ہوتے ہوۓ فرمایا کہ ڈاکٹر جھوٹا اور ڈاکٹر کی رپورٹ جھوٹی۔
پھر
قریب آنے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت بہت دیر تک عبداللہ رضوی پر پڑھ پڑھ کر دم کرتے رہے۔
ابھی
چند ماہ قبل راقم(محمد شہاب الدین رضوی)
کو گھر جاتے ہوۓ راستہ میں مل گئے ،
میں نے معلوم کیا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے کہنے لگے کہ جس دن سے حضرت نے دَم فرمایا ہے اسی دن سے مجھے بڑی راحت ملی اور کینسر کا مرض کافور ہو گیا ہے ۔
اب جانچ رپورٹ میں بالکل ہی کینسر کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔
میرے گھر والے یہ سمجھ رہے تھے کہ اب میری زندگی کے چند ہی ایام رہ گئے ہیں ہے۔
مگر میرے پیرومرشد کی یہ زندہ کرامت ہے کہ میں آپ کے سامنے صحیح و سالم کھڑا ہوں ۔
اور کمپنی بھی جوائن کر لی ہے،
اور میں بہت اچھے سے کام کر رہا ہوں۔(۲۲ ستمبر ۲۰۱۵ء)
(کراماتِ تاج الشریعہ87/86)

(4) حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی دعاسےبارش

*۲۲ جون ۲۰۰۸ محترم جناب قاری عبد الجلیل صاحب شعبه قرآت مدرسہ فیض العلوم جمشید پور نے فقیر( محمد شہاب الدین رضوی)سے فرمایا کہ
پانچ سال قبل حضرت اختر رضا ازہری علیہ الرحمہ دار العلوم حنیفہ ضیاء القرآن لکھنؤ کی دستاربندی کی ایک کانفرنس میں خطاب کے لئے مدعو تھے
ان دنوں وہاں بارش نہیں ہورہی تھی
سخت قحط سالی کےایام گزر رہے تھے،
لوگوں نےحضرت سے عرض کی کہ حضرت بارش کے لئے دعا فرمادیں۔…حضرت نے نمازِاستستقا پڑھائی اور دعائیں کیں،…ابھی دعاکر ہی رہے تھے کہ وہاں موسلا دھار بارش ہونےلگی اور….سارے لوگ بھیگ گئے
(کراماتِ تاج الشریعہ صفحہ،137)

(5) حضرت تاج الشریعه کی آنکھ کاحیران کن آپریشن

حضرت تاج الشریعه کا تقریباً ساڑھے تین گھنٹہ آپرشن چلا، اور آنکھ میں سات ٹانکے لگے- آپریشن کی تکمیل تک آپ کی زبان مبارک پر درود شریف اور قصیدہ بردہ شریف کا ورد جاری رہا-
حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ ساؤتھ افریقہ، ماریشس، ہرارے، زمبابوے، وغیرہ کے تقریباً ایک درجن ممالک کے تبلیغی سفر پر 14/ مارچ 2015 کو بریلی شریف سے روانہ ہوئے، قیام دولت کدہ بریلی سے ہی آنکھ سے کبھی کبھی خون نکل رہا تھا، سبھی لوگوں نے حضرت سے اتنا طویل سفر کرنے سے منع کیا، مگر آپ تاریخ دے چکے تھے، اس لیے وعدہ خلافی نہ ہو، تشریف لے گیے آپ کے ہمراہ آپ کے صاحب زادے گرامی مفتی عسجد رضا خان قادری بھی تھے۔
ساؤتھ افریقہ پہنچنے پر آنکھ میں تکلیف زیادہ بڑھ گئی، 22/ اپریل 2015 کو ہاسپٹل لے جاکر آنکھ کے مشہور اور تجربہ کار ڈاکٹر کو دکھایا، انہوں نے کچھ دوائیں تجویز کیں اور آپریشن کا مشورہ دیا۔
یہ وہ آنکھ ہے جس کا تقریباً بیس سال قبل ممبئی میں آپریشن ہو چکا تھا، اسی دوران آنکھ کے تحفظ کے پیشِ نظر پلاسٹک کے دوٹکڑے ڈاکٹر نے لگا دیے تھے، وہ ٹکڑے ابھر کر آگئے تھے، اس لیے آنکھ سے خون بہنے لگا تھا- ڈاکٹر نے کہا کہ آنکھ کے آپریشن کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے، جس سے اس پر کنٹرول پایا جا سکے۔
24/ اپریل 2015 کو آپریشن کی تاریخ مقرر کر دی، حضرت کو مریدین و عقیدت مند ہاسپٹل لے کر پہنچے، آپریشن کی تیاریاں مکمل ہوگئیں- ڈاکٹر نے حضرت کو آپریشن سے قبل بے ہوشی کا انجکشن لگانا چاہا جیسا کہ ڈاکٹروں کا معمول ہے مگر آپ نے سختی سے منع فرما دیا کہ اس طرح کے انجکشن میں ناجائز چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اور دوسری نشیلی اشیاء ہوتی ہیں- اس لیے میں انجکشن نہیں لگوا سکتا- ڈاکٹر نے حضرت کو بہت مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر حضرت نے انکار فرمایا، پھر ڈاکٹر نے حضرت سے گزارش کی کہ اتنا حصہ سن کر دیتا ہوں
حضرت اس پر بھی تیار نہیں ہوئے اور سن کرنے سے بھی منع کردیا- عین آپریشن کے وقت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ڈاکٹروں کا پورا پینل حضرت کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا، کہ آپریشن بغیر سُن کئے یا بغیر انجکشن لگائے نہیں ہوتا ہے، حضرت نے بڑے اطمینان کے ساتھ ان ڈاکٹروں کے پورے پینل سے فرمایا کہ آپ لوگ بالکل بے فکری کے ساتھ میری آنکھ کا آپریشن کیجیے، میں کسی بھی طرح کی ناجائز اشیاء کا استعمال نہیں کرتا ہوں، اور نہ ہی پسند کرتا ہوں، ان شاء الله تعالیٰ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی، مرے جد امجد نے بھی بغیر انجکشن کے آپریشن کرایا تھا- آپ لوگ اپنا کام کریں۔
اس گفتگو کے بعد ڈاکٹروں نے ہمت جٹائی اور آپریشن کا آغاز کردیا- حضرت بہت مطمئن اور بالکل ساکت و جامد بیٹھے رہے، تقریباً ساڑھے تین گھنٹہ آپرشن چلا، اور آنکھ میں سات ٹانکے لگے- آپریشن کی تکمیل تک آپ کی زبان مبارک پر درود شریف اور قصیدہ بردہ شریف کا ورد جاری رہا- ڈاکٹر حضرات یہ نہیں سمجھ پارہے تھے کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں مگر لبوں کی جنبش سے محسوس ہوتا تھا کہ آپ کچھ پڑھ رہے ہیں۔
*آپریشن سے فارغ ہو کر ڈاکٹر کا تاثر حیرت انگیز تھا، انہوں نے سبھی لوگوں کی موجودگی میں کہا کہ میں دنیا بھر میں جاتا ہوں اب تک بغیر انجکشن لگائے میں نے یا کسی ڈاکٹر نے آپریشن نہیں کیا، مگر یہ شخصیت اپنے آپ میں منفرد ہے- اور اِس وقت یہ ذات دنیا کی واحد ذات ہے کہ اتنی مضبوط ہمت اور روحانی قوت والی ہے، کہ ساڑھے تین گھنٹہ تک بالکل جس طرح بٹھایا گیا تھا بیٹھے رہے، ذرا سی بھی جنبش نہیں کی جبکہ اس طرح کے بڑے آپریشن میں تکلیف سے آدمی تڑپ اُٹھتا ہے، ایک ذرا سا کانٹا چبھ جانے سے آدمی کراہ اٹھتا ہے مگر اِس وقت یہ شخصیت پوری دنیا میں واحد ہوگی، جس کے اندر میں روحانی اور ایمانی قوت دیکھتا ہوں- ڈاکٹروں کی پوری ٹیم آپ کی استقامت پر حیران تھی-(حیات تاج الشریعہ)
حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی رفعت و بلندی ہفت آسماں سے اونچی ہے آپ پر الله رب العزت کی رحمت اس قدر ہے کہ آپ کو کعبتہ الله شریف کے اندر نماز پڑھنے کا موقع ملا اور غسل کعبہ دینے کا شرف بھی- آپ کے مریدین و معتقدین ہندوستان، پاکستان، مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، بنگلہ دیش، موریشس، سری لنکا، برطانیہ، ہالینڈ، جنوبی افریقہ، امریکہ، ایران، عراق، ترکی، جرمن، متحدہ عرب امارات، کویت، لبنان، مصر، شام کناڈا وغیرہ ممالک کے طول و عرض میں کروڑں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں- آپ کے مریدین میں بڑے بڑے علماء، مشائخ، صلحاء، شعراء، خطباء، مفکرین، قائدین، ریسرچ اسکالر، پروفیسر، ڈاکٹر اور محققین ہیں جو آپ کی غلامی کی نسبت پر ناز کرتے ہیں۔حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے القاب :

جانشین حضور مفتی اعظم ہند،روشن ضمیرحضورِ تاج الشریعہ حضرتِ علامہ مفتی الحاج الشاہ محمد اختر رضا خان قادری نوری رضوی ازہری علیہ الرحمہ کو صدر المفتیین،۔۔۔۔۔ سند المحققین اور ۔۔۔۔۔فقیہِ اسلام کا لقب1984/ عیسوی مطابق 1404/ ہجری میں رام پور کے مشہور عالم دین حضرت علامہ مولانا مفتی سید محمد شاہد علی رضوی علیہ الرحمہ، گنج قدیم، رام پور، خلیفہ و تلمیذ حضور مفتی اعظم ہند مولانا محمد مصطفیٰ رضا خان بریلوی نے دیاُ*

مفکرِ اہلِ سنت،۔۔۔۔فقیہِ اعظم اور ۔۔۔۔۔۔۔۔شیخ المحدثین کا لقب 14/ شوال المکرم 1405/ ہجری کو مولانا حکیم منظور احمد رضوی بدایونی، خلیفہ تاج العلماء، حضرتِ سید اولاد رسول محمد میاں مارہروی نے دیا- اس کے علاوہ مثلاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاج الشریعہ،۔۔۔۔۔۔مرجع العلماء و الفضلاء۔۔۔۔۔۔ وغیرہ، فضیلت الشیخ حضرت العلام مولانا شیخ محمد بن علوی مالکی شیخ الحرم مکہ معظمہ، قطب مدینہ حضرتِ علامہ مولانا شاہ ضیاء الدین مدنی رحمةالله علیہ خلیفہ و تلمیذ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی جیسے جید اکابر علماء و مشائخ نے القابات سے نوازا،
جس کی ایک طویل فہرست ہے-
شرعی کونسل آف انڈیا میں ملک کے طول وعرض سے آئے ہوئے جید علماءِ کرام و مفتیانِ عظام نے نومبر 2005/ میں،،۔۔۔۔۔۔قاضی القضاة فی الہند،،۔۔۔۔۔۔کا خطاب دیا-
(📗حیاتِ تاج الشریعہ)

حضور تاج الشریعہ کے دیگر القابات:

وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت،

امین معارف سرکارِ مفتی اعظم ہند،

یادگار حجة الاسلام،

جگر گوشئہ مفسر قرآن،

نائب رسولِ اعظم،

مظہر غوثِ اعظم،

مقبولِ زمانہ،

محقق عصر،

فقیہ زمن،

مفتی بے بدل افقہ الفقہا،

اعلم العلما،

اکبر المشائخ،

مرجع الخلائق،

شیخ اکبر،

پیر بے نظیر،

روشن ضمیر،
حضرتِ علامہ مفتی الحاج الشاہ محمد اختر رضا خان قادری نوری رضوی ازہری علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات آج پوری دنیا میں محتاجِ تعارف نہیں-
الله رب العزت نے آپ کو وہ مقبولیت عطا فرمائی جس کی مثال آج کی تاریخ میں دور دور تک نہیں ملتی۔

*تصانیف وتفاسیرحضورتاج الشریعہ *

1) دفاعِ کنزالایمان حصہ اول ( اردو )
2) دفاعِ کنزالایمان حصہ دوم ( اردو )
3) سورة فاتحہ کی وجہ تسمیہ ( اردو )
4) تفسیر سورة الم نشرح ( اردو )
فقہ و فتاؤی :
5) المواہب الرضویہ فی الفتاوی الازھریہ المعروف بہ "فتاوٰی تاج الشریعہ” ، 5 جلدیں ( اردو / عربی )
6) ازہر الفتاوی ، 3 حصے ( انگلش )
7) تین طلاقوں کا شرعی حکم ( اردو )
8) القول الفائق بحکم لاقتداء بالفاسق ( اردو )
9) ٹائی کا مسئلہ ( اردو / انگلش )
10) سنو چپ رہو ( اردو )
11) جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت ( اردو )
12) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تارخ یا آزر (اردو)
13) شرعی فیصلہ : بابت مولوی خلیل احمد بجنوری ثم بدایونی (اردو)
14) طاہرالقادری سنی نہیں ( اردو )
15) فتاوی نورانی اور ٹی وی سٹار نعت خوانوں کی نعت خوانی ( اردو )
16) ایک اہم فتوی ( اردو )
حدیث ، شرح حدیث و حواشی :
17) تعلیقات الازہری علی صحیح البخاری ، 2 جلد ( عربی )
18) منحۃ الباری حل صحیح البخاری ، جلد اول ( اردو )
19) شرح حدیث نیت ( اردو )
20) حدیث وسیلہ ( اردو )
21) حدیث افتراقِ امت ( اردو )
22) آثارِ قیامت ( اردو )
23) حاشیة انوار المنان فی توحید القرآن ( اردو )
24) حاشیة المعتقد والمستند ( اردو )
25) شرح حدیث الاخلاص ( عربی )
26) الصحابة نجوم الاھتداء ( عربی )
27) الفردہ فی شرح البردہ ( عربی )
28) حاشیة عصیدة الشھدہ شرح قصیدۃ البردہ ( عربی )
تحقیق و تصنیف :
29) ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن و شرعی حکم ( اردو )
30) چلتی ٹرین پر نمازوں کی ادائیگی کا حکم ( اردو )
31) جدید ذرائع ابلاغ سے رویت ہلال کی شرعی حیثیت (اردو)
32) تصویروں کا شرعی حکم ( اردو )
33) کیا دین کی مہم پوری ہو چکی ؟ (اردو )
34) سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی ( اردو )
35) ایک غلط فہمی کا ازالہ ( اردو )
36) تراجم قرآن میں کنزالایمان کی فوقیت ( اردو )
37) تقدیم تجلیۃ السلم فی مسائل نصف العلم ( اردو )
38) نوح حامیم کیلر کے سوالات کے جوابات کفر ، ایمان ، تکفیر ( اردو / انگلش )
39) الحق المبین ( اردو / عربی )
40) مراؑة النجدیہ بجواب البریلویہ ( عربی )
41) تحقیق ان ابا ابراہیم تارح لا آزر ( عربی )
42) سد المشارع ( عربی )
43) القمع المبین لامال المکذبین ( عربی )
44) نھایة الذین فی التخفیف عن ابی لھب یوم الاثنین (عربی)
45) متعدد فقہی ، علمی ، تحقیقی و اصلاحی مقالات و مضامین ( اردو )
46) ملفوظاتِ تاج الشریعہ ( اردو/ عربی/ انگلش )
47) سینکڑوں کتب ، رسائل و جرائد پر تقدیم ، تقریظ ، دعائیہ کلمات و پیشِ لفظ وغیرہ ( اردو/ عربی/ انگلش )
سیرت و سوانح :
48) جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ( اردو )
49) ہجرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( اردو )
50) افضلیت صدیق اکبر و فاروق اعظم ( اردو )
51) نبذة حیاة الامام احمد رضا ( عربی )
52) مفتیؑ اعظم علم و فن کے بحر ذخار ( اردو )
شعر و شاعری :
53) سفینہؑ بخشش ( اردو نعتیہ دیوان )
54) نغماتِ اختر ( عربی نعتیہ دیوان )
اردو تراجم :
55) المعتقد المنتقد و المعتمد المستند
56) انوار المنان فی توحید القرآن
57) الزلال الانقی من بحر سبقۃ الاتقیٰ
58) ترجمہ قصیدتان رائعتان
59) عطایا القدیر فی حکم تصویر
60) اراءة الادب لفاضل النسب ” فضیلت نسب ”

تعریب و تحقیق :
61) العطایا النبویہ فل فتاویٰ الرضویہ ( 3 جلدیں )
62) برکات الامداد لاھل الاستمداد
63) عطایا القدیر فی حکم تصویر
64) تیسیر الماعون لسکن فی الطاعون
65) القمر المبین
66) فقہ شھنشاہ
67) قوارع القھار فی الرد المجسمۃ الفجار
68) سبحان السبوح عن عیب کذب مقبوح
69) انھں الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید
70) حاجز البحرین
71) اھلاک الوہابین علی توہین القبور المسلمین
72) الھاد الکاف فی حکم الضعاف
73) دامان باغ سبٰحن السبوح
74) صلاة
مرجع العلماء ، سلطان الفقھاء قاضی القضاء ، تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خان قادری الازہری علیہ ا لرحمہ ایک عظیم علمی و روحانی خانوادے کے چشم و چراغ تھے آپ کے علم وعمل، زہد و تقوی اور حسن و جمال کا ایک عالم معترف ہے آپ نے اپنی 75سالہ بے حد مصروف زندگی میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں وہ رہتی دنیا تک یاد کیے جائیں گے آپ کا قلم 55سال سے زیادہ چلا آپ نے اردو ، عربی انگلش زبان میں ہزاروں فتاوے لکھیں جب جب ضرورت پیش آئی تب تب آپنے علم و تحقیق کے دریا بہائیں کبھی کوئی کتاب کبھی کوئی رسالہ تو کبھی کوئی تحقیقی مقالہ و مضمون قوم کو عطا کیا۔
یقیناً سرکار تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات ایسی تھیں کہ جن پر صرف دس بیس پچاس نہیں بلکہ زمانہ نثار ہونے کو تیار رہتے تھے
اور پھر اس کا اندازہ بعد وفات جنازہ کودیکھنے کے بعدہوا کہ سرکار تاج الشریعہ کی ذات کتنی عظیم الشان تھی۔
ایک صوتی پیغام اور رحلت تاج الشریعہ
ایک صوتی پیغام جس میں سرکار تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کافرمان تھاکہ میں اکثر سفر میں رہتا ہوں میراکہیں(بریلی سے باہر ) انتقال ہو جائے تو مجھے بریلی نہ لےجایا جائے بلکہ وہیں کسی ولی کے قریب دفن کیا جائے، اور میری تدفین میں تاخیر نہ کی جائے
اس دور میں ایسی وصیت اللہ کے ولی اور فقیہ سے ہی متصور ہے۔جس میں شرعی حکم کی بجاآوری کی تلقین کی جارہی ہے۔
بالاآخر علم و فضل کا آفتاب، وارث علوم اعلیٰ حضرت، بدر طریقت، تاج الشریعہ، حضرتِ علامہ الشاہ مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری علیہ الرحمہ اپنی زبان سے آخری کلمہ،، الله اکبر،، جاری کرتے ہوئے 6/ ذی القعدہ 1439/ ہجری مطابق 20/ جولائی 2018/ بروز جمعة المبارکہ بوقت مغرب عالم آب و گل سے رشتہ حیات منقطع کیا اور سرزمین بریلی شریف محلہ سوداگران میں ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگئے۔
اناللہ واناالیہ رٰجعون۔
اللہ پاک حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے فیضان سے ہمیں اور اہلسنت کو مالامال فرمائے اور اولیاء کرام کی سچی غلامی نصیب فرما کر خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین بجاہ اشرف الانبیاء والمرسلینﷺ

چند منقبت حضور تاج الشریعه علیہ الرحمہ
(1) منقبت۔
نبی کے فیض سے ایساہےرتبہ فخرازہر کا

زبان خَلق پرہرسوہےنعرہ فخرازہر کا

جھکا نے کی بہت کی حاسدوں نے کوششیں لیکن

عطائے غوث سے اونچا ہے جھنڈا فخرازہر کا

ہزاروں ازہری موجود ہیں بے شک جہاں بھر میں

ملاہےبس میرے اخترکوتمغہ فخرازہر کا

پڑھو تاریخ رحلت پھر پتہ چل جائے گاتم کو

ہیں دنیا میں کڑوڑوں نام لیوافخرازہرکا

چلودیوانواپنی جھولیاں بھربھرکےلائیں گے

ہےبٹتاہرگھڑی دیکھو خزانہ فخرازہر کا

عدوئے فخرازہرجل کےمرجاتو
مگرواللہ

قیامت تک رہے گا یوں ہی چرچا فخرازہر کا

مقدرپرمیں اپنے نازکرتاہوں عُذَیرعالم
بنایا ہے خدانےمجھ کو شیدافخرازہر کا

(2) منقبت ۔
ہےاونچااس قدر رتبہ میرے تاج الشریعہ کا
زمیں سے تا فلک چرچامیرےتاج الشریعہ کا

کروڑوں ہند میں ہیں عاشقان مصطفیٰ لیکن
تھا اندازا جداگانہ میرے تاج الشریعہ کا

ہزاروں ازہری میں "فخر ازہری” ہے لقب کس کا
میرے تاج الشریعہ کا میرے تاج الشریعہ کا

ہیں لاکھوں آئیں دیوانے جہاں بھرسےزیارت کو
اسی سےجان لو رتبہ میرے تاج الشریعہ کا

عُذیراہل ادب میں جو تمہارا نام روشن ہے
ملاہےتم کویہ تحفہ میرے تاج الشریعہ کا

نوٹ
ٹائپنگ یا تحریرمیں اگر شرعی کوئی غلطی پائیں تو مطّلع کرکے شکریہ کاموقع عنایت فرمائیں۔

 

تحریر
(پیر طریقت مولانا)
ابوضیاءغلام رسول سعدی
خلیفہ مشائخ کچھوچھہ و بریلی۔
مقام بوہر پوسٹ تیلتاضلع کٹیہار بہار۔
مقیم:فیضان مدینہ،بلگام کرناٹک۔
8618303831

 


حضور مفتی اعظم،شریعت اور تعظیمِ نسبت

تجلیات رفیقِ اعلیٰ حضرت بنام نقوش لطیفی

رکوع کی تسبیح کا ایک اہم مسئلہ

شیئر کیجیے

Leave a comment