سیدنا صدیق اکبر اور خدمت حدیث
شہباز احمد مصباحی(اَرْوَل)
افضل البشر بعد الانبیا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ذات گوناگوں اوصاف و کمالات سے متصف تھی ۔ آپ ایمان داری، سادگی، عاجزی، بردباری، رحم دلی، فیاضی، مہمان نوازی اور غریب پروری میں مشہور، تقویٰ و طہارت، ذہانت و فطانت اور علم و حکمت میں بے مثال تھے ۔ متعدد اوصاف کے جامع ہونے کے ساتھ کئی علوم و فنون میں مہارت تامہ رکھتے تھے ، خاص طور پر حدیث میں تو آپ کا علمی پایہ بہت ہی بلند تھا۔ اور یہ ہو بھی کیوں نا؛ کہ آپ فقہا کی اصطلاح کے مطابق "مجتہد مطلق” کے درجے پر فائز ہیں ۔ جس کے لیے متعدد فنون پر تبحر کے ساتھ ساتھ "علم الحدیث” پر بھی گہری نظر کی ضرورت ہوتی ہے ۔
حدیث و سنت کے بڑے عالم:
خاتم الحفاظ، امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: احکامِ رسالت سے سب سے زیادہ آگاہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے امور سنت میں بارہا آپ کی طرف رجوع کیا، ہمیشہ ان کے سامنے احادیث طیبہ پیش فرمایا کرتے۔ کثرت سے احادیث رسول یاد تھیں اور بوقت ضرورت انھیں بیان بھی فرماتے ۔ آپ سے زیادہ حافظِ احادیث کون ہوسکتا تھا کہ آغازِ رسالت سے وصال مبارک تک ہمیشہ صحبت رسول میسر رہی۔ علاوہ ازیں آپ کی قوت حافظہ بھی بہت قوی تھی اور تمام لوگوں میں سب سے زیادہ ذکی اور صاحب فراست تھے۔ (تاریخ الخلفاء، ص: 117، ادارۃ الشؤون الاسلامیہ،قطر)
روایت حدیث اور مرویات کی تعداد:
مصطفیٰ جان رحمت ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمانوں کے خلیفہ اور امیر مقرر ہوئے، مدت خلافت دوسال چند ماہ رہی، پھر اس دنیا سے تشریف لے گئے، مدت خلافت کم ہونے وجہ سے بہت کم حدیثیں آپ سے مروی ہیں۔ سیدنا امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ آپ نے بہت کم احادیث روایت کی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے وصال ظاہری کے بعد بہت کم مدت باحیات رہے، اگر مدت خلافت زیادہ ہوتی؛ تو یقیناً کثرت سے احادیث مروی ہوتیں، آپ سے نقل کرنے والوں نے ہر حدیث نقل کرلی، نیز یہ کہ دوسرے صحابۂ کرام کو آپ سے روایت لینے کی ضرورت اس لیے نہیں پڑی کہ وہ حضرات بھی اکثر و بیشتر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں ہوتے اور ارشادات نبوی سماعت کرتے، اسی لیے جس کو خود انھوں نے براہ راست حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا ہو اس کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل و روایت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ (مرجع سابق)
تدریب الروای میں ہے: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کی صحبت اور دائمی رفاقت کے باوجود قلتِ روایت کا سبب یہ ہے کہ اشاعتِ حدیث، سماعتِ حدیث، تحصیل حدیث اور حفظ حدیث میں لوگوں کے مصروف ہونے سے قبل اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ امام نووی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ”تہذیب الاسماء و اللغات“ میں اسے ذکر کرکے فرمایا : سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جملہ مرویات کی تعداد 142 ہے ۔ (تدریب الروای، ص:428، مطبع: دارالکتب العلمیہ بیروت)
حدیث رسول کی قبولیت میں احتیاط:
روایت حدیث کے باب میں غایت درجہ احتیاط لازم ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض اکابر صحابہ، تابعین اور محدثین سے حدیث کا علم ہونے کے باوجود بہت کم روایتیں ملتی ہیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی روایت حدیث اور اس کے قبول میں بڑے محتاط تھے ۔
علامہ شمس الدین ذہبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ رقم طراز ہیں:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پہلی ذات ہے جس نے احادیث رسول ﷺ کی قبولیت میں احتیاط کیا۔ جیسا کہ حضرت قبیصہ بن ذؤیب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہدخلافت میں ایک دادی ان کی خدمت میں حاضر ہوئی تاکہ پوتے کی میراث سے اسے بھی حصہ ملے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا: میں قرآن مجید میں تیرا کوئی حصہ نہیں پاتا ہوں اور میرے علم میں یہ بات بھی نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں کچھ ارشاد فرمایا ہے، پھر صحابۂ کرام سے استفسار فرمایا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ وہ دادی کو چھٹا حصہ دیتے تھے، حضرت صدیق اکبر نے ان سے پوچھا کہ تمھارے ساتھ کسی اور نے بھی سنی ہے ؟ حضرت محمد مسلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گواہی دی تو آپ نے دادی کے لیے چھٹے حصے کا فیصلہ فرمایا۔ (تذکرۃ الحفاظ ،ج:1، ص:2، مطبع:دارالکتب العلمیہ بیروت)
مقدمہ انوار الحدیث میں ہے:
اللہ اکبر! جانتے ہیں حضرت ابوبکر کا یہ سوال” أسمع ذٰلِكَ معَکَ احَدٌ“ (یہ بات تمھارے ساتھ کسی اور نے بھی سنی ہے؟) کس سے ہے؟ یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جن کا شمار اجلۂ صحابہ میں ہے اور جن کی دیانت و تقویٰ اور امانت و راستی کی قسم کھائی جاسکتی ہے، لیکن یہیں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث رسول دین کے لیے حجت اور وجوب احکام میں مؤثر نہ ہوتی تو حدیث کی توثيق و تصدیق کے لیے اتنا اہتمام کیوں کیا جاتا اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ بیان کرنے والے ایک سے دو ہوجائیں تو بات کا ثبوت نقطۂ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ (مقدمہ انوار الحدیث، ص: 59، مطبع: مجلس المدینۃ العلمیہ)
کیا سیدنا صدیق اکبر نے روایت حدیث سے منع فرمایا ہے؟
جس روایت میں یہ بات آئی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث کی روایت سے منع فرمایا، اس سے آپ کا مقصد یہ تھا کہ احادیث نبویہ کی روایت میں بے احتیاطی نہ برتی جائے، بلکہ اس باب میں فرط احتیاط، تحقیق و تفتیش اور نہایت چھان بین سے کام لیا جائے ۔ جیسا کہ امام شمس الدین ذہبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ رقم طراز ہیں:
’’ان الصدیق جمع الناس بعد وفاۃ نبیھم فقال انکم تحدثون عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احادیث تختلفون فیہا والناس بعدکم اشد اختلافاً فلا تحدثوا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیئاً فما سالکم فقولوا بیننا و بینکم کتاب اللہ فاستحلوا حلالہ و حرموا حرامہ‘‘۔
یعنی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی وفات ظاہری کے بعد صحابہ کو جمع کر کے فرمایا: رسول اکرم ﷺ سے جو روایتیں تم لوگ بیان کرتے ہو، اُن میں اختلاف ہوتا ہے، جب تم میں ہی اختلاف ہو تو تمہارے بعد والے تو اور بھی سخت اختلاف میں پڑ جائیں گے۔ اس لیے اختلافی روایتیں مت بیان کیا کرو، اگر کوئی تم سے پوچھے تو یہی کہہ دینا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان قرآن موجود ہے ، جو چیزیں اُس میں حلال ہیں اُن کو حلال اور جو حرام ہیں اُن کو حرام سمجھو۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج:1،ص: 2، 3)
اس روایت کو بغور پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصود امت کو اختلاف میں پڑنے سے روکنا تھا، وہ بھی صرف حلال و حرام میں، اس کے سوا دوسری حدیثوں سے کوئی تعرض نہیں ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی پاک ﷺ حاملین حدیث کے لیے یوں دعا فرمائیں: ” نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ “ اور تبلیغ حدیث کا یوں حکم فرمائیں ” بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً “ اور آپ مطلقاً روایت حدیث سے منع فرمائیں، بھلا آپ اس بات کو کیسے منظور کرلیتے کہ امت محمدیہ ﷺ اپنے نبی کے ارشادات سے محروم ہوجائے ۔ آپ کی عطا کردہ شریعت قیامت تک کے لیے ہے اور حدیث رسول شریعت اسلامیہ کا مصدر ثانی ہے ،بھلا کیسے گوارا کرلیتے کہ اسے زمانۂ صحابہ تک ہی محدود کردیا جائے ۔
امام ذہبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: یہ (مذکورہ بالا) واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مقصد یہ ہے کہ اخبار و روایات میں خوب غور و خوض اور تحقیق کرنی چاہیے، کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جب دادی کو میراث دینے کا واقعہ پیش آیا اور اسے کتاب اللہ میں نہ پایا تو کیسے اس کے متعلق استفسار فرمایا، پھر جب ثقہ نے خبر دے دی تو اس پر اکتفا نہ کیا، بلکہ دوسرے ثقہ سے اس کی تائید چاہی، اس موقع پر آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے جیسا کہ خوارج کہتے ہیں ۔ (مرجع سابق)
تلامذہ: جن لوگوں نے آپ سے احادیث روایت کی ہیں ان کے اسما درج ذیل ہیں:
صحابہ کرام میں: (1) حضرت عمر بن خطاب (2) حضرت علی المرتضی (3) حضرت عبد الرحمن بن عوف (4) حضرت عبد اللہ بن مسعود (5) حضرت حذیفہ بن یمان (6) حضرت عبد اللہ بن عمر (7) حضرت عبد اللہ بن زبیر (8) حضرت عبد اللہ بن عمرو (9) حضرت عبد اللہ بن عباس (10) حضرت انس بن مالک (11) حضرت زید بن ثابت (12) حضرت براء بن عازب (13) حضرت ابوہریرہ (14) حضرت عقبہ بن حارث (15) حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر (16) حضرت زید بن ارقم (17) حضرت عبد اللہ بن مغفل (18) حضرت عقبہ بن عامر جہنی (19) حضرت عمران بن حصین (20) حضرت ابوبرزہ (21) حضرت ابوسعید خدری (22) حضرت ابوموسیٰ اشعری (23) حضرت ابوطفیل لیثی (24) حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ (25) حضرت بلال حبشی (26) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (27) حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔
تابعین کرام میں: (1) حضرت اسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مولیٰ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ (2) حضرت واسط بجلی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ۔ (تاریخ الخلفاء، ص:175)
اللہ کریم ہمیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا صدقہ عطا فرمائے اور ہمیں بھی خدمتِ حدیث کا ذوق و شوق عطا فرمائے، آمین [بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم]
شہباز احمد مصباحی(اَرْوَل)
جامعۃ المدینہ –– پڑاؤ، بنارس
24 جنوری، بروز پیر، 2022ء
8340399436