شوال کے6 روزے اور قضا روزوں کے مسائل

شوال کے6 روزے اور قضا روزوں کے مسائل

Table of Contents

شوال کے6 روزے اور قضا روزوں کے مسائل

از قلم:ابوضیاغلام رسول مِہر سعدی

شوال کے6 روزے اور قضا روزوں کے مسائل

 

(میں نفل روزوں کی جگہ رمضان کے قضا روزے رکھوں گااس سے ثواب زیادہ ملےگا./نوٹ: پورا مضمون ضرور پڑھیں اور عمل کریں ثواب کا انبار لگ جائے گا. ان شاءاللہ تعالیٰ )

حدیث نمبر 1:حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں :”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر چھ دن شوال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے.”(بحوالہ مجمع الزوائد ص25 حدیث 5102)

حدیث نمبر 2:حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم اشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے.” جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ شوال میں رکھے تو ایسا جیسے دَہَرکا(یعنی زمانے بھرکا) روزہ رکھا.” (بحوالہ مسلم شریف ص592حدیث 1164)

حدیث نمبر 3:حضرت سیدنا ثوبان رضی تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا. "جس نے عید الفطر کے بعد (شوال میں) چھ روزے رکھ لئے تو اس نے پورے سال کے روزے رکھے کہ جوایک نیکی لائےگا اسے دس ملیں گی.” (بحوالہ ابن ماجہ ص333ج2حدیث1715)

سبحان اللہ سبحان اللہ

اللہ تبارک تعالیٰ کاکتنا فضل وکرم ہےکہ اس نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کےصدقےمیں زندگی بھر اور سال بھر کے روزوں کاثواب حاصل کرنا کتنا آسان فرمادیا.

ہرایک مسلمان عاشقان رسول کو یہ سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.

ایک سال کے روزوں کے ثواب کی حکمت یہ تو قرآن پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کمزور بندوں کے لئے محض اپنے فضل سے ایک نیکی کا ثواب دس گناہ رکھا ہے. چنانچہ پروردگار عالم کا فرمان رحمت نشان ہے :مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ عَشْرُاَمْثَالِھَا. (پ8الانعام 160)

ترجمہ کنزالایمان :جو ایک نیکی لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں.

اس طرح ماہ رمضان کے ایک مہینہ کےروزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور چھ روزے ساٹھ روزوں (دوماہ) کے برابر ہوئے اس طرح پورے سال کے روزوں کا ثواب حاصل ہوگیا.

شوال کے چھ روزےایک ساتھ رکھے جائیں یا الگ الگ:

صدرالشریعہ بدرالطریقہ خلیفہ اعلی حضرت حضرت مفتی امجد علی اعظمی رضوی علیہ الرحمہ بہارشریعت کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:”بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق (یعنی ناغہ کر کے،الگ الگ) رکھے جائیں اور عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ رکھ لئے جب بھی حرج نہیں.” (بحوالہ بہارشریعت حصہ 5ص140)

یونہِیں خلیل ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد خلیل خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :یہ روزےعید کے بعد لگا تار رکھے جائیں تب بھی مضائقہ نہیں اور بہتر یہ ہے کہ متفرق (یعنی ناغہ کرکے، الگ الگ) رکھے جائیں یعنی ہرہفتہ میں دوروزے اور عیدالفطر کے دوسرے روز ایک روزہ رکھ لے اور (باقی) پورے ماہ میں رکھے تو اور بھی مناسب معلوم ہوتا ہے.(بحوالہ سنی بہشتی زیورص 347)البتہ شوال کے پورے مہینہ میں جب چاہیں تب رکھ سکتے ہیں.

مگر جن کے رمضان المبارک کے قضا روزے باقی ہوں تو انہیں نفل روزوں کی جگہ رمضان المبارک کے فرض روزے رکھنا چاہیے تاکہ رمضان المبارک کے قضا روزے ادابھی ہوجائیں اور فرض روزوں کی ادا کی برکت سے اللہ پاک نفل روزوں کا ثواب بھی اپنے خزائن غیب سے عطافرمائے اس طرح زیادہ ثواب کی امید ہے جیساکہ خلیل ملت حضرت علامہ مفتی محمد خلیل احمد خان قادری برکاتی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں "جوشخص نفل نماز اور نفل روزے کی جگہ قضائے عمری، فرض وواجب اداکرے وہ لولگائے رکھے کہ مولی عزوجل اپنے کرم خاص سے قضا نمازوں(اور روزوں) کے ضمن میں ان نوافل کا ثواب بھی اپنے خزائن غیب سے عطافرمائے جن کے اوقات میں یہ قضا نمازیں پڑھی گئیں.(اور رمضان المبارک کے قضا روزے رکھے گئے.)

واللہ ذوالفضل العظیم ( قضانمازکےضروری احکام ص60 بحوالہ سنی بہشتی زیور نفل نماز وں کا بیان)

اب ہمیں ہر طرح کے نوافل کی جگہ (قضا ئے عمری) فرائض ہی کو اداکرنی چاہیے تاکہ فرائض کو اداکرکے نوافل کے ثواب کا بھی حقدار بن جائیں.

اگرکسی کی قضا روزےباقی ہوں اور وہ نفل روزےادا کرےفرض روزےادانہ کرےتواس کے بارے میں کیاحکم ہے.؟

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ :”مومن کو چاہیے کہ پہلے فرائض و واجبات ادا کرے، فرائض کے بعد سنن موکدہ میں مشغول ہو، پھران کے بعد نوافل وفضائل میں مشغول ہو، لیکن فرائض اداکیے بغیر سنن ونوافل میں مشغول رہنا حماقت ورعونت ہے، اگر فرائض سے پہلے سنن ونوافل میں مصروف ہوگا تونامقبو ل ہوں گے بلکہ اسے ذلیل کیا جائےگا.

(قضانمازکےضروری احکام ص 18بحوالہ شرح فتوح الغیب ص511، اسلامی پبلشردھلی)

فقیہ اعظم ہند خلیفہ اعلی حضرت صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

مسئلہ "قضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے انہیں چھوڑ کر ان کے بدلے ان کی قضائیں پڑھے کہ بری الذمہ ہوجائے البتہ تراویح اوربارہ رکعتیں سنت موکدہ کی نہ چھوڑے. (قضانمازکےضروری احکام ص58بحوالہ بہارشریعت قضا نماز کابیان)

اس سے معلوم ہوا ہمیں(اشراق وچاشت، تہجد ،اوابین) وغیرہ نوافل کی جگہ قضائے عمری(قضا نمازیں ) ہی جلدی جلدی اداکرنی چاہیےتاکہ گناہوں سے بچ سکیں اور بری الذمہ ہوجائے.

اسی طرح شوال اور دیگرنفل روزوں کی جگہ رمضان المبارک کے فرض قضا روزےرکھیں کیوں کہ فرائض نوافل سے اھم ہیں.

نیز جو رمضان کے فرض روزےقضاہونے کے باوجود نوافل میں مشغول ہوتےہیں ان کی وہ نفل عبادتیں مردودونامقبول ہوتی ہیں

اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

(1) "جو فرض چھوڑ کر نفل میں مشغول ہو اس کی سخت برائی آئی ہے اور اس کا وہ نیک کام مردود قرار پایا….. الخ

(قضانمازکےضروری احکام ص 59 بحوالہ فتاوی رضویہ مخرجہ /23/648،647)

(2)جب تک فرض ذمہ باقی رہتا ہے کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا،،. (قضانمازکےضروری احکام ص 59 بحوالہ الملفوظ حصہ اول مفتی اعظم ھند اکیڈمی چھتیس گڑھ).

واللہ تعالیٰ اعلم

ازقلم: ابوضیاغلام رسول مِہر سعدی کٹیہاری

خلیفہ حضور شیخ الاسلام،

حضور قائد ملت حضرت علامہ الشاہ سید محمد محمود اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھہ مقدسہ ومفتی انوار الحق خلیفہ حضور مفتی اعظم ھندرضی اللہ عنہ بریلی شریف

وطن اصلی:بوہر ،پوسٹ تیلتا

ضلع کٹیہار بہار انڈیا

(مقیم بلگام کرناٹک انڈیا)

تصحیح :افتخار اہلسنت مفتی دین وملت استاذالعلماء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد افتخار احمد مصباحی رضوی اشرفی پورنوی خلیفہ حضور شیخ الاسلام رئیس المحققین حضرت علامہ مفتی سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کچھوچھہ مقدسہ

استادومفتی دارالعلوم شاہ عالم ،احمد آباد گجرات انڈیا

زکوٰۃ کے اھم فضائل Read Also

اسرائیل کی پریشانیاں Read Also

کرونا کی مہاماری اور اہل علم کی ذمہ داریا Read Also

شیئر کیجیے

Leave a comment