حضرت سید محمد راشد روزے دھنی کی تابندہ حیات
ذاکر فیضانی سکندری
ہند و پاک کے سرحدی علاقہ علاقۂ سندھ کے مشہور و معروف پگارہ خاندان کی دینی، ملی، ماجی اور سیاسی خدمات جلیلہ سے ہر باشعور واقف ہے۔یہ وہ خانوادہ ہے جس نے اپنے متبعین و معتقدین کی ہر مقام پر رہبری و رہنمائی فرمائی ۔ اس خاندان کے ایک چشم و چراغ امام العارفین ، حضرت سید محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ العزیز بھی ہیں ۔
آپ علم و فضل میں نابغہ روزگار ، تصوف و سلوک میں یکتاے زمانہ ،التزام شریعت و طریقت میں فرد وقت ، اخلاق و اعمال میں نمونۂ سنت اور کرامات و تصرفات میں بے مثل و مثال تھے ۔ آپ قدس سرہ العزیز کی مکمل حیات مبارکہ عبادت و ریاضت ، ذکر و فکر ، تصنیف و تبلیغ میں گزری ۔
خاندانی حالات :
آپ کا خاندان علم و عرفاں کا سر چشمہ رہا ۔آپ کا سلسلہ نسب ٣٦ واسطوں سے حضور سید عالم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ اور ١٩ واسطوں سے آپ اپنے خاندان کے جد اعلیٰ حضرت سید علی مکی ہاشمی قدس سرہ العزیز سے جا ملتے ہیں ۔ حضرت سید علی مکی ہاشمی قدس سرہ العزیز سن ہجری ٥ میں سندھ کی سر زمین پر تشریف لائے۔ جس کے بعد سے یہ عالی مرتبت خاندان علاقۂ سندھ و اطراف کو اپنے فیضان سے فیضیاب کررہا ہے۔
ولادت سے قبل بشارتیں :
حضرت روزے دھنی قدس سرہ کے والد بزرگوار حضرت سید بقا شاہ شہید قدس سرہ العزیز کو آپ کی ولادت مبارکہ سے قبل ہی بزرگوں نے بشارتیں سنا دی تھا۔ حضرت سید بقا شاہ شہید قدس سرہ العزیز کے مرشد گرامی حضرت سید عبدالقادر شاہ گیلانی قدس سرہ العزیز نے فرمایا تھا *” شاہ صاحب شادی کرو تمہاری اولاد میں سے ایک فرزند بڑا عالم اور مہدی زمان ہوگا ”
اسی طرح حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی اور حضرت مخدوم محمد اسماعیل علیہما الرحمہ نے مختلف مقامات اور مختلف مواقع پر آپ کو پاک فرزند کی بشارت سنائی تھی جس کا انتظار حضرت سید بقا شاہ شہید قدس سرہ العزیز کو شدت سے تھا۔
ولادت باسعادت :
آپ قدس سرہ العزیز کی تاریخ پیدائش بعض کتب میں ١ رمضان المبارک اور بعض میں ٦ / رمضان المبارک سن ہجری ١١٧١ھ بمطابق ١٧٥٨ عیسوی ہے۔آپ علیہ الرحمہ حضرت سید محمد بقا شاہ شہید قدس سرہ العزیز کے گھر ضلع خیرپور میرس میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے پورے ماہ رمضان المبارک میں حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح دن میں شیر مادر نوش نہیں فرمایا ۔
القابات و کنیت :
محی السنۃ ، ماحی البدعۃ ، امام العارفین ، غوث العالمین ، آفتاب قادریہ ، نائب رسول اللہ ، شیخ الشیوخ ، روزے دھنی ، تیرہویں صدی کے مجدد برحق اور سادات راشدیہ کے مورث اعلیٰ وغیرہ ۔اور آپ کی کنیت ابو یاسین ہے۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم کے لیے آپ کے والد ماجد نے حافظ زین الدین مہیسر اور میاں محمد اکرم گھمرہ کو مقرر فرمایا۔ قرآن شریف اور فارسی کی ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے آپ کو اور آپ کے برادر محترم حضرت سید مرتضی علی شاہ کو شکار پور کے معروف بزرگ حاجی فقیر اللہ علوی رحمتہ اللہ علیہ کے مدرسہ میں داخلہ کروایا۔ حاجی صاحب کی درس گاہ سندھ کی نامور درس گاہ تھی حاجی صاحب سندھ کے مشہور فقیہ ، محدث ، عاشق رسول اور حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کے شاگرد رشیداور خلیفۂ مجاز ہے۔
ایک مرتبہ حضرت سید بقا شاہ شہید قدس سرہ العزیز شکارپور تشریف لائے حال احوال پوچھنے پر معلوم ہوا کہ صاحبزادہ صاحب مسند نشیں ہیں ، اساتذہ کرام نہایت ہی ادب و احترام سے پیش آتے ہیں اور خورد و نوش کے کے نفیس طعام و شراب کا انتظام ہیں ۔ آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا ” جہاں طلباء کو اس طرح عمدہ کھانا ملتا رہے گا وہاں حصول تعلیم بمشکل ہے ” فوراً آپ نے دونوں صاحبزادوں کو وہاں سے رخصت کرکے حضرت مخدوم یار محمد قدس سرہ کے مدرسے میں داخلہ دلوایا ۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد منتہی کتب اور دورۂ حدیث کے لیے استاد الکل حضرت علامہ محمد محدث آریجوی قدس سرہ کے مدرسہ میں داخل درس کیا اور آپ نے اسی مدرسے میں دورۂ حدیث کا نصاب مکمل کیا اور دستار فضیلت حاصل کرکے درگاہ شریف تشریف لائے
بیعت و خلافت :
حضرت سید محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ العزیز اپنے والد محترم شیخ الاسلام والمسلمین ، سید العارفین ، واصل باللہ ، امام الاتقیاء حضرت پیر سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید المعروف پیر سائیں پٹ دھنی قدس سرہ الاقدس سے بیعت اور خلیفہ مجاز تھے ۔
سجادہ نشینی :
آپ اپنے والد ماجد حضرت سید محمد بقا شاہ شہید قدس سرہ العزیز کی شہادت کے بعد ١٠ محرم الحرام ١١٩٨ ھ کو سجادہ نشین بنے اور اس وقت آپ کی عمر شریف ٢٨ برس تھی۔
تبلیغِ دین :
حضرت سید محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ العزیز اپنے والد محترم کے تربیت یافتہ تھے اور آپ بزرگان دین کی بشارت تھے یہی وجہ تھی کہ آپ نے احیائے دین و سنت کے لیے طول طویل اسفار فرمائے۔ اور حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے والد بزرگوار حضرت بقا شاہ لکیاری شہید قدس سرہ العزیز سے کہا تھا کہ آپ کے یہاں ایک ایسا فرزند پیدا ہوگا جس کی پیچھے ایک زمانہ ہوگا اس فرمان کے مصداق حقیقی بنے ۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ قدس سرہ العزیز تبلیغ و اشاعت کے لیے اتنے اسفار فرماتے تھے کہ بارہ ماہ میں سے نو ماہ تک سفر میں رہتے اور تین ماہ درگاہ شریف رہا کرتے تھے ۔
ایک وقت وہ آیا کہ آپ کا گذر جس بستی ، قریہ اور ڈھانی سے ہوتا اس جگہ سے لا الہ الا اللہ کی صدائیں گونجتی تھی آپ کے دست حق پرست پر ہزاروں گم گشتگان راہ بیعت ہوئے اور دولتِ ایمان سے سرفراز ہوئے اور اسی طرح لاکھوں راہ سلوک کے راہی آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور ولایت کے عالی مقام پر فائز ہوئے ۔ آپ کے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں تھی اور آپ اکثر و بیشتر مرید تہجد گذار تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ قدس سرہ العزیز تبلیغ و اشاعت کے لیے اتنے اسفار فرماتے تھے کہ بارہ ماہ میں نو ماہ تک سفر میں رہتے اور تین ماہ درگاہ شریف رہا کرتے تھے
خلفائے کرام:
حضرت سید محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ العزیز کے خلفاے کرام کثیر تعداد میں تھے۔ ایک روایت کے مطابق (١١٠٠) سو خلفا تھے اور ایک دوسری روایت کے مطابق (١٢٠٠) سو تھے ۔ تمام خلفا کے اسمائے گرامی یہ لکھنا دشوار امر ہے چند مشہور ترین خلفاء کے نام ذیل میں لکھے جاتے ہیں ۔
(١) حضرت خلیفہ سید حسن شاہ جیلانی بانی درگاہ سوئی شریف
(٢) حضرت خلیفہ سید جان محمد شاہ بخاری بانی درگاہ چھرائی شریف
(٣) حضرت خلیفہ محمود رحمتہ اللہ علیہ بانی درگاہ شریف محمودیہ
(٤) حضرت خلیفہ نبی بخش لغاری رحمۃ اللہ علیہ
(٥) حضرت خلیفہ محمد حسین مہیسر رحمۃ اللہ علیہ
تصنیفات و تالیفات :
آپ ایک کہنہ مشق مصنف ومحرر بھی تھے۔آپ نے چند یادگار تصنیفات چھوڑی جن کے اسما مندرجہ ذیل ہیں: (١) مکتوبات شریف (فارسی)
(٢) ملفوظات شریف (فارسی )
(٣) مخزن فیضان (اردو)
(٤) صحبت نامہ (فارسی)
(٥) جمع الجوامع (فارسی لغت)
(٦) شرح اسماء الحسنٰی (فارسی)
(٧) کلام مرشد (نعتیہ دیوان)
(٨) آداب المریدین (فارسی)
وصال پر ملال :
حضرت سید محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ العزیز یکم شعبان المعظم سن ہجری ١٢٣٤ بروز جمعہ کو ٦٣ برس کی عمر میں اس دار فانی کو الوداع کہہ کر دار بقا کی طرف داعئ اجل کو لبیک کہا ۔آپ کے وصال کے سولہ سال کے بعد آپ کے پوتے حضرت سید گوہر علی شاہ اول نے دریا کے پانی کی وجہ سے اپنے جد امجد اور والد محترم کے جسد مبارک کو وہاں سے نکال کر موجودہ درگاہ میں سپرد خاک کیا ۔ آپ کا مزار مقدس آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔