قربت شاہ زمن تجھ کو ہے حاصل صدیق
واصف رضا واصف
قربت شاہ زمن تجھ کو ہے حاصل صدیق
اور غم ِ یار کا مسکن ہے ترا دل صدیق
صدق ، اخلاص ، وفا ، جودوسخا میں لاریب
دہر میں کوئی نہیں تیرا مماثل صدیق
حق توصیف و ثنا کیسے ادا ہو ،جب ہیں
متن قرآں سے عیاں تیرے فضائل صدیق
دیکھ کر لوگ تجھے رشک کیا کرتےہیں
ہے وہ آٸینہ ترا حسن شماٸل صدیق
قریۂ فکر میں ہوتی ہے کرم کی بارش
جب بھی سجتی ہےترےنام کی محفل صدیق
صحن دل میں کبھی ہوجاے نزول اجلال
کب سے ہے طالب اکرام یہ سائل صدیق
ڈگمگایا نہ کسی موڑ پہ بھی پاے ثبات
دائمی اسوۂ سرور پہ تھے عامل صدیق
گلشن دہر کی پرکیف بہاروں میں ،ترے
صدق کے نغمے سناتے ہیں عنادل صدیق
عشق سرکار ہی تھا ان کا متاع ہستی
سوے رنگینیٔ عالم نہ تھے مائل صدیق
دیکھتے تک نہیں اغیار کی چوکھٹ واللہ
ایسے خودار ترے در کے ہیں سائل صدیق
خالق کل نے انھیں ایسے مراتب بخشے
جز نبوت کے ہیں ہرفضل کے حامل صدیق
ہوگیا تیرے غلاموں کی صفوں میں آکر
واصف ہیچ مداں قدر کے قابل صدیق
رشحات قلم
واصف رضاواصف مدھوبنی بہار