قــرآن اور ســائنـس سے بے رغـبـتـی و عـدم دلـچـسـپی آج ہمیں کہاں لے آئی…؟
تــحـریـر:-ابــرار احــمــد الــقـادری، مصباحی
آج رنگ و نسل، ملک و زبان اور مسلک و عقائد کے خانوں میں بٹے ہوئے مسلمانوں کے درمیان ایک قدر مشترک جو چیز ہے….. وہ ہے سائنسی مزاج، سائنسی شعور اور فطری علوم کا فقدان اور ان کی جانب بے التفاتی و بے توجہی۔۔۔۔۔۔۔
تـــمـام عالم کے مسلمانوں میں عام طور سے بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں میں خاص طور سے سائنسی رجحان کی کمی اور عدم دلچسپی ایک سنگین مسئلہ ہے۔۔۔ جو ہماری توجہ تحقیق اور کاوش کا اولین مستحق ہے۔
قـــرآن کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بلکل واضح ہو جاتی ہے…..کہ قرآن مقدس میں تقریباً (1000) سے زائد آیتیں سائنس پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ غور کریں، فکر کریں، تدبّر کریں، مشاہدہ کریں اور اپنی عقل کا بہترین استعمال کریں۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فکری انقلاب قرآن کریم کا رہینِ مِنت ہے۔ قرآن کے عقیدہ توحید نے انسانوں کو ذہنی غلامی سے مکمل طور پر آزاد کرکے تسخیرِ کائنات کی طرف متوجہ کر دیا جس سے انسانی فکر و خیال اور علم و جستجو کی آبیاری ہوئی۔۔
اگر دیکھا جاۓ تو مسلمانوں میں علم و آگہی، تحقیق و ریسرچ، تلاش و جستجو کا جو علمی ولولہ نظر آیا وہ اس بات کی روشن اور واضح دلیل ہے۔۔۔۔ کہ علم و آگہی کی یہ پیاس مسلمانوں میں کلامِ پاک اور اللہ کے رسول ﷺ نے پیدا کی تھی۔ قرآن پاک کی ہدایت و تعلیمات پر عمل کرکے مسلمان بہت جلد نہ صرف علوم پر دسترس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ انہوں نے بیشتر علاقوں میں اپنی طاقت و عظمت کا سکہ اس طرح جما دیا کہ یورپ کی اقوام باوجود ہزاروں کوششوں کے صدیوں تک مسلمانوں کو زیر نہ کر سکیں۔۔
اب آئیے اس عہد پر بھی قدر نظر ڈالتے ہیں جسے سائنس کے عروج و ارتقا کا دور کہا جاتا ہے۔ جس میں مسلمانوں نے سائنس کے میدان میں بڑے ہی Importent کارنامے انجام دیے۔۔۔۔
تو خود مشہور مورخِ سائنس "جـــارج ســارٹــن” (George Sarton) کی زبانی سنیں جس نے تاریخ سائنس میں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔۔۔۔ کہ ساتویں صدی عیسوی سے لے کر بارہویں صدی عیسوی تک کے دور کو اگر پچاس پچاس سال کے ادوار میں منقسم کرکے ان میں سے ہر ایک دور کو اس وقت کے کسی عظیم عالم سے منسوب کیا جاۓ تو پتہ چلے گا۔۔۔ کہ یہ سارے ادوار مسلمان سائنسدانوں کے ناموں سے منسوب ہیں”۔
_ایک اور جگہ لکھتا ہے "انسانیت کے بنیادی کاموں کو مسلمانوں نے ہی پورا کیا”۔۔۔۔_
ایک اور سائنسداں ” رابـرٹ بـرائفالٹ” (Robert Brifalt) لکھتا ہے۔۔۔ کہ "اسلام سے پہلے Science کا وجود ہی نہ تھا”۔ اس یہ بھی ثابت کیا کہ طب (Medicine) کو علم کا درجہ دینے اور وقار بخشنے کا کام بھی مسلمانوں ہی کے ہاتھوں انجام پایا۔۔۔۔۔۔
آگے مزید لکھتا ہے……….
"Medicine was more of a magic than medicine before Islam.”
مسلمانوں کا ایک اور گراں قدر اور تاریخ ساز کارنامہ تجربات کی ابتدا تھی۔ مسلمانوں کے اس سنہرے دور سے قبل دنیا تجربات اور ان کی افادیت سے ناواقف تھی۔ مسلمانوں نے ہی دنیا کو تجربات کی اہمیت سے روشناس کرایا اور وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا سب سے قیمتی عطیہ موجودہ دور کی سائنس ہے۔۔
مسلمانوں کے قرن اول کا ایک اور قابل قدر و قابل توجہ مطالعہ "چالس جیلسی” (Charles Gillespie) نے کیا۔۔۔۔ اس مورخ نے سائنسدانوں کی فہرست مرتب کی ہے جنہوں نے 7 ویں صدی عیسوی سے 15 ویں صدی عیسوی کے درمیان کی فہرست میں اس نے 132 سائنسدانوں کے نام شمار کراۓ جن میں سے 105 کا تعلق مسلم دنیا سے تھا۔ اور ان میں سے اکثر و بیشتر نے اسلامی اسپین کی پونیورسٹی (قرطبہ، غرناطہ وغیرہ) میں علم سائنس کی تعلیم حاصل کی تھی۔ گویا اس دور کے لگ بھگ 90% سائنسداں اسلامی دنیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان تھے۔ اور پھر یہی تناسب سائنسی ایجادات اور سائنسی تصانیف کا بھی تھا۔۔۔
اب اگر آج موجودہ دور کا جائزہ لیں تو 1981ء میں کۓ گۓ ایک سروے کے مطابق جو 25 ممالک سب سے زیادہ لٹریچر literature ہر سال شائع کرتے ہیں ان میں ایک بھی مسلمانوں کا نام نہیں ملتا۔۔۔۔۔ 1996ء میں دنیا بھر میں جو سائنسی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوۓ ان میں مسلم مصنفین کی تعداد 1% سے بھی کم تھی۔۔۔ گویا قرن اول میں جب مسلمانوں کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا محض 15% تھی تو اس وقت سائنسی سرگرمیوں میں ان کی تعداد 90% تھی۔۔۔ اور آج جب مسلمانوں کی آبادی تقریباً 22% ہے تو سائنس میں ان کا حصہ 1% سے بھی کم ہے۔۔۔۔۔ ایک دور تھا کہ جب بغداد کی ایک شاہراہ پر کتابوں کی صرف دو سو دوکانیں ہوا کرتی تھیں۔۔۔۔ جہاں قرآن سے لیکر فلکیات،(Astronomy) طبیعیات (Physics) ، ریاضی (Mathematic) ، کیمیا Chemistry اور طب (Medicine) وغیرہ کی کتابیں فروخت ہوتی تھی۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے گھروں میں بھی ذاتی لائبریریاں تھی، علمی مجلسیں آراستہ کی جاتی تھیں اور نئ دریافتوں اور نۓ علوم کی روشنی میں غور و فکر کیا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مـــگر آج کسی دکان یا ذاتی لائبریری میں تو کیا کسی مسلم ادارے کی لائیبریری میں بھی مشکل ہی سے "علامہ رازی، جابر بن حیان، امام غزالی، زکریا، بو علی سینا، الکندی، ابو اسحاق ابراہیم بن جندب، عبد المالک اصمعی، حکیم یحییٰ منصور، محمد بن موسی خوارزمی، احمد بن موسی، حکیم ابو نصر محمد بن فارابی، ابو علی حسن ابن الحیثم وغیرہ کی تصانیف نظر آئیں گی۔
یہ تاریخ کا بڑا افسوسناک علمیہ ہے…!! کہ سائنس کی عظیم الشان اور گراں قدر خدمات انجام دینے کے بعد بھی مسلمان اپنی تحقیق و ریسرچ اور علمی روش بھول گئے….. اور مقلدانہ و روایتی ذہنیت کا شکار ہو گۓ۔ جس کے نتیجے میں وہ سائنس اور صنعتی میدان میں مغرب سے بہت پیچھے رہ گۓ۔۔
"اس کی سب سے بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور قرآن کریم سے بے رغبتی اور عدم دلچسپی ہے۔۔۔۔ دراصل ہم نے اس قرآن میں جس میں ہر چیز کا روشن بیان ہے۔۔ جس میں ہم کو تدبر و تفکر، غور و فکر اور مشاہدہ کی دعوت دی گئ ہے۔۔۔ آج اسی قرآن کریم میں ہم نے غور و فکر اور مشاہدہ کرنا چھوڑ دیا۔۔۔ بس کتابوں کو رٹ لینا ہی ہم علم سمجھ بیٹھے۔۔۔۔
بقول علامہ اقبال:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر…!!
اور تم خوار ہوۓ تارکِ قرآں ہو کر…….!!
پہلے کیا وجہ تھی…..؟ کہ مسلمان 1442ء برسوں میں سے لگ بھگ 442 برسوں تک سائنس کے میدان میں ساری دنیا کی امامت و قیادت کرتے رہے، اور ہمارے علم نے دنیا کو شعور علم اور ہماری تحقیق و ریسرچ نے دنیا کو شعور تحقیق و ریسرچ عطا کیا، اور آج جو مختلف علوم و فنون پر ریسرچ ہو رہیں ہیں یہ سب کی سب مسلمانوں ہی کی دماغی کاوشوں کی روشنی میں ظہور پذیر ہو رہیں ہیں، یورپ کے شہزادے ہماری Universites میں بھیکاریوں کی طرح درخواست لۓ کھڑے رہتے تھے مگر آج وہ علم کے میدان میں ہم سے کئ گنا آگے ہو گۓ ہیں۔۔۔۔۔
دراصل یورپ نے مسلمانوں کے علمی جواہر سے فائدہ اٹھا کر زندگی کے ہر شعبے میں اس قدر ترقی کر گۓ….. کہ وہ پوری دنیا پر چھا گئے۔۔۔۔۔ اور مسلمانوں نے اپنے اس میراث کی کوئی قدر نہ کی اور اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا…. جس کی وجہ سے آج ان کا شمار دنیا کی پسماندہ قوم میں ہوتا ہے۔
بقول علامہ اقبال:
رہ گئ رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی..
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی…