مفتی اعظم ہند اور سیاست
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
غلام مصطفیٰ آر ایم
فرد فرید،مرد خلیق،زبدۂ روزگار ،خلاصۂ لیل و نہار،عبقری دہر،مقتدائے عصر،فقیہ ابنِ فقیہ حضور مفتی اعظم ہند علامہ شاہ مصطفی رضا خاں رحمہ اللہ 1893 کو مجدد دین و ملت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ کے علمی گھرانے میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے،اور 18/برس کی عمر میں چالیس علوم و فنون میں کمال و مہارت حاصل کر کے 1910 سے عملی زندگی کا آغاز فرمایا، تقریبا 70/ سالوں تک اسلامیانِ ہند کی ہمہ گیر خدمت کی، آپ نے ایسے قومی و ملی ، سیاسی و سماجی ، دینی و مذہبی ، نظریاتی و اعتقادی ، شعری و ادبی اور روحانی و عرفانی تاریخ ساز کارنامے انجام دیے کہ غلام و آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایک روشن ریکارڈ قرار پایا۔
وزیر اعظم ہند سے شاہ حجاز تک دینی اور سیاسی ، شاہی و اقتداری کون سا ایسا شہر یا رو کج کلاہ ہے جو اس کے چوکھٹ کے سامنے سر نگوں نہ ہو ، اور ان کی چٹائی شاہوں اور حکمرانوں کی تخت و تاج پر غالب نہ آتی ہو۔ وہ کیا دل گزری اور فقیری کی شان تھی کہ جس کے آگے شاہان زمن اور نوابان ایام کی آن بان بے نور ہو کر رہ گئی، (مفتی اعظم کا جلوہ سرد رنگ 9)
مفتی اعظم کے سیاسی افکار و نظریات کی صحیح ترجمانی اور عکاسی ان کے متعدد تصانیف سے ہوتی ہے ، "سوراج در سوراخ” اور "ترک الہدی والارشاد” ان کی سیاسی بصریت پر داد و تحسین حاصل کر رہی ہے ( حضور مفتی اعظم کے سیاسی افکار 29)
ہندوستان کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کا وجود ہندوؤں کے لیے کبھی قابل برداشت نہیں رہا اسلام ان کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکھٹاتا رہا،ان کی فکر و سوچ ہمیشہ سے یہی رہی کہ "اسلام عرب کی سرزمین سے آیا اور یہ غیر ملکی مذہب ہے "۔ جہاں کے باشندوں کو بزور شمشیر جبرا مسلمان بنایا گیا ہے لہذا انہیں دوبارہ اپنے آبائی مذہب کو اختیار کر کے ہندو بن جانا چاہیے، اس میں وہ ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں اور ان کا اثر سلطنت مغلیہ میں بھی رونما ہوا ہے حتی کہ انہی کے اثر میں اکبر بادشاہ نے ایک نئے دین دین الہی کی بنیاد ڈال دی تھی مگر علماء حق ہمیشہ ان کے خلاف علم حق و صداقت بلند رکھے اور یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ 1920 عیسوی میں تحریک ترک موالات، تحریک ہجرت اور تحریک گاؤں کشی ، تحریک خلافت چلی جن کی قیادت غیر مسلم پیشوا کرتے تھے ، ان کا مقصد پس پردہ مسلمانوں کو کمزور کرنا بلکہ انہیں ہندوستان سے مٹا دینا ہے ، حضور مفتی اعظم ہند نے ان کے چھپے ناپاک عزائم بھانپ لیا اس لیے بڑے زور و شور سے ان کا مقابلہ کیا 1922/ 1923 ء کو اسی طرح "شدھی تحریک” کے ذریعے آریہ سماج کی سرپرستی میں ہندو مذہب کا تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا اور اس تحریک کے ذریعے مسلمانوں کے اتحاد کو پاش پاش کرنے اور اسلام کا شیرازہ منتشر کرنے میں ایڑی چوٹی کا ظرف صرف کرنے لگے تو اس تو اس پرفتن دور اور وحشت ناک ماحول میں حضور مفتی اعظم ہند کی ذات ستودہ صفات اسلام کی آن کے لیے میدان عمل میں کود پڑے اور جماعت رضائے مصطفی کے تحت ایک وفد لے کر روانہ ہوئے ، اور آگرہ وغیرہ میں آپ کے تشفی بخش جوابات سے مطمئن ہوکر مسلم راجپوت بھی وفد میں شامل ہوتے گئے، مؤرخین کے مطابق آپ نے اس فتنۂ ارتداد میں تقریباً ساڑھےچار لاکھ لوگوں کے ایمان و اعتقادات کی حفاظت کی ۔ ع
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا
مفتی اعظم ہند کے سیاسی افکار صفحہ نمبر ٦٩ت٧٧
سیاسی لیڈران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا
اسی طرح جب اصلاحات کی آڑ میں مرکزی حکومت ہند نے اسلامک لاء میں ایسی ترمیمات کرنے کا اعلان کیا جس سے مسلمانوں کی مذہبی شخصی آزادی شدید متاثر ہوئی ، سیاسی پارٹی کانگریس کے صدر اندراگاندھی نے اسلامی نظریہ کے خلاف نسبندی (ضبط تولید)کا حکم جاری کیا، جو بھی سیاسی پارٹی ان کے خلاف بولتی ان پر قدغن لگا دیتی اور حریف سیاسی لیڈران کو نظربند کرنے لگی ,تو ان کی ہمنوا "جمعیت العلماء ہند ” نے اور "ندوۃ العلماء لکھنؤ” نے ان غیر اسلامی ترمیمات کی حمایت کی، قاری طیب صاحب دیوبندی نے اولاً نسبندی کی حرمت کا فتویٰ دیا مگر جب حکومت نے دباؤ ڈالا تو فتویٰ بدل کر جواز کا فتویٰ دیا جن کی ریڈیو اور اخبارات میں خوب تشہیر کی گئی
بقول اقبال کے
خود بدلتے نہيں، قرآں کو بدل ديتے ہيں
ہوئے کس درجہ فقيہان حرم بے توفيق!
اس وقت بھی مفتی اعظم ہند اپنے علمی و روحانی وقار سے جابر و ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے بے باکی و حق گوئی سے کام لیتے ہوئے فتویٰ دیا کہ "اسلام میں ضبط ولادت حرام ہے” آپ نے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نسبندی کے حرام ہونے کا فتوی جاری کیا ،جب کانگریس کے لیڈران کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ پر بھی دباؤ ڈالا گیا حتی کہ دو پولیس آفیسر نے آپ کو گھر آکر کہا کہ نسبندی کے خلاف اپنا فتویٰ واپس لے لیجئے تو آپ نے فرمایا کہ ” ہم اپنا فتویٰ واپس نہیں لیتے ہاں ضرورت پڑی تو حکومت ہی بدل دیتے ہیں ” مزید ڈباؤ ڈالتے کہ سی آئی ڈی نے تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کیا کہ معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کی عظیم جماعت آپ کے ساتھ ہے اور آپ پر جبر و تشدد سے ملک میں بدامنی پھیلنے کا خدشہ ہے اور یقیناً اس سے ووٹنگ میں بھی اثر پڑے گا” اس رپورٹ کی بنا پر حکومت نے ڈھیل دے دی اور پھر جب کچھ ماہ بعد انتخاب (الیکشن/ ووٹنگ) ہوا تو کانگریس کی حکومت واقعی بدل گئی(مفتی اعظم ہند کے ماہ و سال, حضور مفتی اعظم ہند کے سیاسی افکار)
نسبندی کے فتویٰ کے بعد مفتی اعظم ہند کی نمائندہ اور سیاسی تنظیم "آل انڈیا سنی جمعیت العلماء”اور "کل ہند جماعت رضائے مصطفی” نے نہایت گونجدار اور مؤثر آواز میں ان غیر اسلامی ترمیمات کی مخالفت کی اور عرس رضوی قادری بریلی شریف کے موقع پر 18/جولائی / 1963 ء کو حضور مفتی اعظم ہند کی سربراہی میں کل ہند جماعت رضائے مصطفی نے ان ترمیمات کے خلاف ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی، اور پھر آپ ہی کی سربراہی میں ہونے والی آل انڈیا سنی جمعیت العلماء کانپور کے اجلاس میں ترمیمات کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔
تحریک خلافت کا رد 1919 ء
جب "تحریک ہجرت” چلائی گئی جس سے کافی مسلمان ہندوستان میں اپنا گھر بار،زمین جائداد چھوڑ کر ہجرت کرنے لگے تو مفتی اعظم ہند کے والد ماجد نے ایک کتاب لکھی ” اعلام الاعلام بان ھندوستان دار السلام ” کہ ہندوستان دارالسلام ہے اور یہ ہمارا وطن ہے ہمیں ہجرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، پھر آپ نے بھی اس تحریک کی شدید مخالفت 1920 ء اور فرمایا کہ ہندوستان دار الحرب نہیں بلکہ ہندوستان دارالسلام ہےاس لیے مسلمان کہیں ہجرت نہیں کریں گے۔ مگر مسلمانوں کی طرح طرح کی پریشانیاں دیکھ کر آپ کافی کبیدہ خاطر ہوتے ، کتاب میں لکھا ہے کہ "آپ کی دلی آرزو تھی اسلامی ریاست کا قیام ہو۔ (مفتی اعظم ہند کے ماہ و سال)
1914 عیسوی میں پہلی جنگ عظیم ترکی اور برطانیہ کے درمیان شروع ہوئی ، جس میں ہندوستانیوں نے بشرط حریت بشمول مسلمانوں کے انگریزوں کی تعاون میں ترکیوں کے خلاف ساتھ دیا جس میں ترکوں کو شکست فاش ہوئی اور ان کے سلطنت کے حصے بکھر گئے اور انگریز اپنے وعدے سے پھر گئے ،1919 عیسوی کو اس کے خلاف "تحریک خلافت” نام سے ایک تحریک چلائی گئی، عجب بات ہے کہ اسلامی قیادت ہندوؤں کے سیاسی اور مذہبی پیشوا مسٹر گاندھی کے ہاتھ آئی آپ کے والد ماجد یعنی اعلیٰ حضرت "تحریک خلافت” چلانے والوں کے چھپے عزائم کو پہلے ہی روز بھانپ لیے تھے اور رسالہ ” دوام العیش من الائمۃ من قریش” لکھ کر سیاست کاروں کے راز تشت از بام کر دیے اور خلافت اسلامیہ کی شرعی حقیقت و حیثیت کو واشگاف کیا اور بتایا کہ تحریک خلافت سے سیاست دانوں کا مقصد ہرگز ہرگز سلطنت سلطنت ترکیہ (مسلمانوں ) کی حفاظت و بقا نہیں بلکہ پس پردہ مسلمانوں کو حاکموں کی نظر میں رسوا کرنا اور ہندو حکومت قائم کرنا تھا اور بعد میں حالات یہ بات ثابت کر چکے اور پھر مفتی اعظم ہند نے اسی کتاب مذکور میں ایک مبسوط کئی صفحات پر مشتمل مقدمہ لکھا ( مفتی اعظم کے سیاسی افکار 32 31)
*خلاصہ* اعلیٰ حضرت کی تصنیفات مثلاً اعلام الاعلام بان ھندوستان دار السلام, دوام العیش من الائمۃ من قریش ” اور مفتی اعظم ہند کی تصنیفات مثلاً "طرق الھدیٰ و الارشاد” اور "سوراج در سوراخ” کے مطالعہ سے آپ حضرات کے سیاسی افکار و نظریات واضح ہوجاتے ہیں،”آل انڈیا سنی جمعیت علماء ” کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ، اور "جماعت الانصار” جیسی عظیم تحریکوں کا وجود اور آپ کی ان تحریکات کا سربراہی کرنا واضح دلیل و ثبوت ہے،آپ اسلامی نہج کے مطابق سیاست کرنے کے قائل تھے،مولانا شہاب الدین کی تحریروں کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی خواہش رہی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی تنظیم و تحریک ہو بلکہ ایک اسلامی سیاست والا ملک ہو، اخیر میں ہم اہلسنت و جماعت سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ عنقا کی مانند سیاسی تحریک "تحریک جماعت الانصار” کی تجدید کرے اور اس سیاسی اسلامی تحریک کو دوبارہ زندہ کریں”
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کی مقدر کا ستارہ
غلام مصطفیٰ آر ایم