موضوع احادیث سے متعلق چند بنیادی مباحث

موضوع احادیث سے متعلق چند بنیادی مباحث

Table of Contents

موضوع احادیث سے متعلق چند بنیادی مباحث

از قلم : طفیل احمد مصباحی

 

موضوع احادیث سے متعلق چند بنیادی مباحث
موضوع احادیث سے متعلق چند بنیادی مباحث

اسلام کے عقائد و اعمال اور شریعتِ مطہرہ کے جملہ اقوال و ارشادات کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے ۔ قرآن و احادیث قیامت تک کے لیے تمام بنی نوعِ انساں کے لیے سراپا ہدایت اور مشعلِ راہِ نجات ہیں ۔ ان دونوں کی حیثیت چوں کہ شرعی ماخذ کی ہے ، اس لیے ان کا یقینی و قطعی ہونا ضروری اور ہر قسم کے شک و ارتیاب سے پاک ہونا لازمی ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ : و کل صغیر و کبیر مستطر . اور ” و ما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض و لا فی السماء و لا اصغر من ذالک و لا اکبر الا فی کتاب مبین ” . کے مطابق اگر چہ قرآن مقدس میں ہر چھوٹی بڑی شے اور ہر خشک و تر کا بیان موجود ہے ، بایں ہمہ اس کی حیثیت متن کی ہے اور حدیث اس کی شرح و تفسیر ہے ۔ حدیث کی شرعی و آئینی حیثیت مسلم ہے ۔ دینِ اسلام کے تمام احکام و قوانین اور جملہ امور و معاملات اسی سے ماخوذ و مستنبط ہیں ۔
احادیثِ مبارکہ آپ ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں اگر چہ موجودہ ہیئت و کیفیت کے ساتھ مدون نہیں ہوئی تھیں ، تاہم صحابۂ کرام اور ان کے بعد تابعین و اتباعِ تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین ان کی حفاظت و صیانت کا خاص اہتمام فرماتے اور راویانِ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ارشاد کی روایت میں غایت درجہ حزم و احتیاط سے کام لیتے ۔ خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد امتِ مسلمہ ہی نت نئے فتنوں نے سر اٹھانا شروع کیا ۔ صغار تابعین عظام کے دور میں سیاسی اور مذہبی فتنے اتنی شدت کے ساتھ رونما ہوئے کہ ان پر قابو پانا مشکل ہو گیا ۔ ان فتنوں میں سے ایک فتنہ ” وضعِ حدیث ” کا بھی تھا ، جس کی سرکوبی کے لیے ائمۂ محدثین میدانِ عمل میں آئے اور اپنی بے پناہ علمی صلاحیتوں اور قربانیوں سے اس فتنے کا گلا گھونٹ دیا ۔ وضعِ حدیث کے فتنے کوروکنے کےلیے حضراتِ محدثین نے روایت اور درایت دونوں مورچوں پر کام کیا ۔ احادیث کی جمع و تدوین کے ساتھ فن جرح و تعدیل ، اسمائے رجال ، عللِ حدیث اور نقدِ رجال کے اصول و قوانین وضع کیے ۔ رواۃِ ثقات و ضعفا پر کتابیں تصنیف کیں اور مجروح رواۃ کے عیوب بیان کیے ۔ حدیثِ صحیح و حسن اور ضعیف و موضوع کی معرفت کے لیے اصول و شرائط وضع کیے ۔ غرض کہ احادیثِ طیبہ کی حفاظت و صیانت کا غیر معمولی اہتمام کیا گیا ، تا کہ شریعتِ اسلامیہ کا یہ دوسرا اہم ماخذ شکوک و شبہات اور اوہام و خرافات سے محفوظ رہ سکے ۔ احادیث کی روایت و درایت ، حفاظت و صیانت ، جرح و تعدیل اور اسمائے رجال کی بابت امت مسلمہ کو جو خصوصیت اور اعزاز حاصل ہے ، دنیا کو کوئی قوم اس معاملے میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔

وضعِ احادیث کے اغراض و مقاصد :

عوام میں موضوع احادیث اور من گھڑت روایات کے پھیلنے کے بہت سارے اسباب و وجودہ ہیں اور ان کے پھیلانے والے مختلف گروہ ہیں ۔ لوگوں نے دینی و سیاسی و مسلکی اغراض و مقاصد کے تحت احادیث گڑھی ہیں ۔ محدثِ جلیل حضرت علامہ عبد الحئی فرنگی محلی علیہ الرحمہ ” الآثار المرفوعہ فی الاحادیث الموضوعہ ” کے مقدمہ میں اس حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ حدیث وضع والے مختلف فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں :

الثامن : قوم حملھم علی الوضع قصد الاغراب و الاعجاب و ھو کثیر فی القصاص و الوعاظ اللذین لا نصیب لھم من العلم و لا حظ لھم من الفھم ………….. فان کثیرا من الزھاد کانوا جاھلین غیر ممیزین بین ما یحل لھم و ما یحرم علیھم . فکانوا یظنون ان وضع الاحادیث ترغیبا و ترھیبا لا باس به بل ھو واجب للاجر ؛ الا تری الی عباد زماننا ممن لم یمارس العلوم و لم یوفق لخدمۃ ارباب الفھم کیف انھمکوا فی ارتکاب البدعات ظنا منھم ان ارتکابھا من الحسنات .

( الآثار المرفوعہ فی الاحادیث الموضوعہ ، ص : 18 ، مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

یعنی موضوع روایات گڑھنے والوں میں ایک گروہ ان واعظوں اور گویّوں کا بھی ہے ، جن کو نہ علم ہے اور نہ فکر و فہم ۔ ان کا مقصد عجیب و غریب باتیں عوام میں پھیلانا ہے اور اسی مقصد کے تحت وہ احادیث گڑھتے ہیں ………… اسی طرح بہت سارے جاہل صوفیہ اور زاہدانِ خشک جنھیں حلال و حرام کی تمیز نہیں ہے ، وہ گمان کرتے ہیں کہ ترغیب و ترہیب ( بشارت و عید ) سے متعلق احادیث گڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ یہ باعثِ اجر اور کارِ ثواب ہے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آج کل کے بے عمل زہاد و عباد جنھوں نے نہ اکتسابِ علوم کیا ہے اور نہ اربابِ علم و فہم کی صحبت اٹھائی ہے ، وہ طرح طرح کی بدعات و خرافات میں ملوث ہیں اور انہیں داخلِ حسنات گردانتے ہیں ۔

علامہ حافظ ابن صلاح نے بھی اس قسم کے گروہ کی نشان دہی فرمائی ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

و الواضعون للحدیث اصناف ، و اعظم ضررا قوم من المنسوبین الی الزھد وضعوا الحدیث احتسابا فیما زعموا فتقبل الناس موضوعاتھم ثقۃ منھم بھم و رکونا الیھم . ثم نھضت جھابذۃ الحدیث بکشف عوارھا و محو عارھا و الحمد للہ .

( مقدمہ ابن صلاح ، ص : 99 ، دار الفکر ، بیروت )

ملاحدہ و زنادقہ نے دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں فتنہ و فساد برپا کرنے اور احکامِ شرع کو باہم خلط ملط کرنے کی غرض سے ہزاروں احادیث وضع کیں ۔ یہ لوگ در اصل ان یہود و نصاری کے چیلے چپاٹے تھے جنہوں نے آسمانی کتابوں میں تحریفیں کیں اور حسبِ منشا ان میں حذف و اضافہ کا افسوس ناک کام انجام دیا ۔ حضرت حماد بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وضعت الزنادقۃ اربعۃ آلاف حدیث ۔ جعفر بن سلیمان سے مروی ہے کہ انہوں نے مہدی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ان کے سامنے ایک زندیق اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے چار سو حدیثیں گڑھی ہیں اور وہ لوگوں میں رائج و متداول ہو چکی ہیں ۔ نیز غلو فی الدین اور مسلک تعصب کے زیرِ اثر اہلِ تشیع نے مناقبِ اہلِ بیت میں چار لاکھ حدیثیں وضع کیں ۔ نعوذ باللہ من ذالک !!

اغراض و مقاصد کے لحاظ سے وضّاعین یعنی احادیث گڑھنے والوں کی مختلف قسمیں ہیں ، جیسا کہ الآثار المرفوعۃ میں مرقوم ہے :

الاول : قوم من الزنادقۃ قصدوا افساد الشریعۃ و ایقاع الخلط و الخبط فی الامۃ …………. والثانی : قوم کانوا یضعون الاحادیث فی الترغیب و الترہیب لیحثوا الناس علی الخیر و یزدجروھم عن الشر و اکثر الاحادیث صلوات الایام و اللیالی من وضع ھاؤلاء ………… الثالث : قوم کانوا یقصدون وضع الاحادیث نصرۃ لمذاھبھم …………. والرابع : قوم استجازوا وضع الاسانید لکل کلام حسن زعما منھم ان الحسن کلہ امر شرعی لا باس بنسبتہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم …………. الخامس : قوم حملھم علی الوضع غرض من اغراض الدنیا کالتقرب الی السلطان و غیرہ ……….. السادس : قوم حملھم علی الوضع التعصب المذھبی و التجمد التقلیدی ، کما وضع مامون الھروی حدیث : من رفع یدیہ فی الرکوع فلا صلوٰۃ لہ ………….. و السابع : قوم حملھم علی الوضع حبھم الذی اعماھم و اصمھم کما وضعوا فی مناقب اھل البیت و مثالب الخلفاء الراشدین و معاویۃ و غیرھم و وضعوا احادیث فی مناقب ابی حنیفۃ . و من ھذا القبیل الاحادیث الموضوعہ فی مناقب البلدان و ذمھا و الاحادیث الموضوعۃ فی فضل اللسان الفارسیۃ و ذمھا ، کحدیث : لسان اھل الجنۃ العربیۃ و الفارسیۃ الدریۃ .

ترجمہ : واضعینِ حدیث میں پہلا گروہ زنادقہ کا ہے جس نے شریعت میں فساد اور امت میں خلط پیدا کرنے کی غرض سے احادیث وضع کی ۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس نے لوگوں کو بھلائی کی طرف مائل کرنے اور برائی سے روکنے کے لیے ترغیب و ترہیب سے متعلق احادیث وضع کی ۔ تیسرے گروہ نے اپنے مذہب و مسلک کی تائید و حمایت کی غرض سے یہ کام کیا ۔ چوتھے گروہ نے ہر اچھے کلام کے لیے وضعِ احادیث کی طرح ڈالی یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہر قسم کا کارِ حسن ایک امرِ شرعی ہے ، لہٰذا اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ واضعینِ حدیث کا پانچواں گروہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے دنیاوی غرض مثلاً بادشاہوں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے حدیث گڑھی ۔ چھٹا گروہ وہ ہے جس نے مذہبی تعصب اور تقلیدِ جامد کے باعث ایسا گھناؤنا کام انجام دیا ۔ جیسا کہ مامون ہروی نے یہ حدیث : جس نے رکوع میں رفعِ یدین کیا ، اس کی نماز نہیں ہوئی ۔ ساتواں گروہ وہ ہے جسے مذہبی شخصیات کی محبت نے اندھا اور اور بہرا کر دیا ہے اور اس نے اہلِ بیت کے مناقب اور دیگر خلفائے راشدین و حضرت امیر معاویہ کی برائی میں ( معاذ اللہ ) احادیث وضع کی ۔ نیز بہت سارے لوگوں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کی شان میں حدیث وضع کی ۔ اسی طرح مختلف شہروں کی فضیلت و مذمت اور فارسی زبان کی فضیلت و مذمت میں حدیثیں کثرت سے ایجاد کی گئیں ۔

( الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ، ص : 12 تا 17 ، ناشر : دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

موضوع حدیث کی روایت کا حکم :

شیخ الاسلام امام ابو عمر و عثمان بن عبد الرحمٰن شہزوری معروف بہ ابن صلاح ” موضوع حدیث ” کی تعریف اور اس کا حکم بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :

معرفۃ الموضوع و ھو المختلق المصنوع . اعلم ان الحدیث الموضوع شر الاحادیث الضعیفہ و لا تحل روایتہ لاحد علم حالہ فی ای معنی کان الا مقرونا ببیان وضعہ ، بخلاف غیرہ من الاحادیث الضعیفہ التی یحتمل صدقھا فی الباطن ، حیث جاز روایتھا فی الترغیب والترہیب علی ما نبینہ قریبا ان شاء اللہ تعالیٰ .

( علوم الحدیث معروف بہ مقدمہ ابن صلاح ، ص : 98 ، دار الفکر ، بیروت )

ترجمہ : حدیثِ موضوع کی معرفت ۔ موضوع ، گڑھی ہوئی حدیث کو کہتے ہیں ۔ جاننا چاہیے کہ حدیثِ موضوع ، ضعیف احادیث کی بد ترین قسم ہے ۔ جس شخص کو اس کے موضوع ہونے کا علم ہے ، اس کے لیے اس کی روایت کسی بھی صورت جائز نہیں ۔ ہاں ! اس کی وضعیت ظاہر کرنے کے بعد اس کی روایت کی جا سکتی ہے ۔ موضوع کے برعکس دیگر ضعیف احادیث کے نفس الامر میں صادق ہونے کا امکان و احتمال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترغیب و ترہیب میں ضعیف احادیث کی روایت جائز ہے ، جسے ہم عنقریب بیان کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

حضرت امام نووی علیہ الرحمہ شرحِ صحیح مسلم میں لکھتے ہیں : یحرم روایۃ الحدیث الموضوع علی من عرف کونہ موضوعا او غلب علی ظنہ وضعہ ، فمن رویٰ حدیثا علم او ظن وضعہ و لم یبین حال روایۃ وضعہ فھو داخل فی ھذا الوعید و مندرج فی جملۃ الکاذبین علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم .

یعنی جس شخص کو حدیث کے موضوع ہونے کا علم یا ظن غالب ہو اور اس کے با وجود اس کی وضعیت ظاہر کیے بغیر وہ اس کی روایت کرے تو یہ حرام ہے اور اس شخص کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والوں میں ہوگا ۔

( شرح صحیح مسلم للنووی ، جلد اول ، ص : 71 ، المطبعۃ الازھریۃ ، مصر )

حدیث وضع کرنا گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا ہے اور یہ سخت حرام ہے ۔ جب ایک عام انسان پر جھوٹا الزام لگانا اور اس کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا ناجائز ہے تو وہ ذاتِ گرامی جس کا ہر قول و فعل عینِ شریعت اور جس کا کلام وحیِ الہیٰ ہے ، اس کی طرف کذب کی نسبت کرنا اور جھوٹی حدیث گڑھ کر اس کی طرف منسوب کرنا ، کتنا سنگین جرم اور سخت ترین گناہ ہوگا ۔ موضوع حدیث کا تعلق خواہ احکام سے ہو یا ترغیب و ترہیب اور مواعظ و رقاق سے ، یہ من کل الوجوہ حرام ، گناہ کبیرہ اور اقبح القبائح ہے ۔ اس کی حرمت و قباحت پر تمام محدثین کا اجماع و اتفاق ہے ۔ امام نووی اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں : لا فرق فی تحریم الکذب علیہ صلی اللہ علیہ وسلم بین ما کان فی الاحکام و ما لا حکم فیہ کا لترغیب و الترہیب و المواعظ و غیر ذالک فکلہ حرام من اکبر الکبائر و اقبح القبائح باجماع المسلمین الذین یعتد بھم فی الاجماع .

( شرح صحیح مسلم للنووی ، جلد اول ، ص : 70 ، مطبوعہ : المطبعۃ الازھریۃ ، مصر )

لہٰذا روایتِ حدیث میں غایت درجہ حزم و احتیاط ضروری ہے اور سندِ حدیث و متنِ حدیث کی تحقیق و تنقیح لازمی ہے ۔ آج تو درایتِ حدیث کا کافی حد تک فقدان نظر آتا ہے اور جہاں تک روایتِ حدیث کی بات ہے تو اس میں بھی بہت غفلت برتی جاتی ہے ۔ جس کو دیکھو وہ قال قال رسول اللہ کہتا نظر آتا ہے اور ہر قسم کی صحیح و سقیم ، غایت درجہ ضعیف اور بعض اوقات موضوع حدیث بیان کرتا پھرتا ہے ۔ اس معاملے میں موجودہ پیش ور واعظین اور نام نہاد مقررین کچھ زیادہ ہی ملوث نظر آتے ہیں ۔ موضوع احادیث کو فروغ دینے میں کل بھی اس قسم کے قصّاص و واعظین نے افسوس ناک کردار ادا کیا تھا اور آج بھی یہ کام انجام دے رہے ہیں ۔ الامان و الحفیظ ! آج کل فیس بک ، واٹس ایپ اور دیگر برقی سائٹ پر حدیث کے نام پر ایسی ایسی باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ اللہ کی پناہ ! قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آخری زمانے ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو آپ کے سامنے ایسی ایسی باتیں پیش کریں گے جن سے نہ آپ کے کان آشنا ہوں گے اور نہ آپ کے آبا و اجداد کے ۔ اللہ کے رسول جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایسے لوگوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے ، تاکہ ہم ضلالت و گمرہی اور فتنوں سے محفوظ رہ سکیں ۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

یکون فی آخر الزمان دجالون کذابوں یاتونکم من الاحادیث بما لم تسمعوا انتم و لا آباءکم فایاکم و ایاھم لایضلونکم و لا یفتنونکم .

( صحیح مسلم شریف مع شرح النووی ، جلد اول ، ص : 78 ، 79 ، ناشر : المطبعۃ الازھریۃ ، مصر )

حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ” مقدمۂ صحیح مسلم ” میں لکھتے ہیں : واعلم وفقک اللہ تعالیٰ ان الواجب علی کل احد عرف التمییز بین صحیح الروایات و سقیمھا و ثقات الناقلین لھا من المتھمین ان لا یروی منھا الا ما عرف صحۃ مخارجہ . یعنی ہر شخص پر صحیح و سقیم ( ضعیف و موضوع ) روایات کے درمیان فرق و امتیاز کرنا ضروری ہے ۔ ناقلینِ احادیث ثقہ ہیں یا متہم بالکذب ؟ اس پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے ۔ صحتِ مخارج کی معرفت کے بغیر حدیث کی روایت درست نہیں ۔

موضوع احادیث کی علامات :

احادیث کی تحقیق و تنقیح میں مہارتِ تامہ رکھنے والے محدثین نے موضوع احادیث اور من گھڑت روایات کی کچھ علامتیں بیان کی ہیں ، جن کے سہارے حدیث کی موضوعیت کا حال دریافت کیا جا سکتا ہے اور ان کی روشنی میں کسی کی طرف سے پیش کردہ احادیث کی صحت و وضع کا کچھ حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ حافظ ابنِ صلاح کے بقول : ” حدیث کا موضوع ہونا کبھی واضع کے صریح اقرار سے ظاہر ہوتا ہے یا ایسے قول سے جو اقرار کے قائم مقام ہو ۔ اسی طرح کبھی راوی و مروی کا حال اور حدیث کے الفاظ و معانی کی رکاکت ( ناشائستگی ) اس کے موضوع ہونے پر قرینہ ہوتا ہے ” ۔

علاماتِ وضع کبھی سند میں ہوتی ہیں اور کبھی متن میں ۔ راوی کذاب یا معروف بالکذب ہو اور اس کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے اس حدیث کی روایت نہ کی ہو تو اس کی بیان کردہ حدیث باعتبارِ سند موضوع ہو گی ۔ اسی لیے حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے ” مقدمۂ مشکات ” میں موضوع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : حدیث المطعون بالکذب یسمیٰ موضوعا . یعنی مطعون بالکذب کی حدیث موضوع ہے ، خواہ نفس الامر میں وہ موضوع نہ ہو ۔ حدیث باعتبارِ متن اس وقت موضوع ہوتی ہے کہ اس کے الفاظ یا معانی میں رکاکت ہو ۔ جو حدیث صریح قرآنی آیات کے خلاف ہو اور قابلِ تاویل نہ ہو ، وہ موضوع ہے ۔ مثلاً : یہ حدیث : ولد الحرام سات پشتوں تک جنت میں نہیں جائے گا ۔ یہ حدیث ، آیت کریمہ : و لا تزر وازرۃ وزر اخریٰ کے خلاف ہے ۔ اسی طرح جو حدیث صریح سنتِ متواترہ مشہورہ کے خلاف ہو یا قرآن و حدیث سے ماخوذ اصول و قواعد کے معارض ہو ، وہ بھی موضوع ہے ۔ اسی طرح جو حدیث مبالغہ آمیز سزا و جزا پر مشتمل ہو / یا عہدِ رسالت کے معروف تاریخی حقائق یا اجماعِ امت کے خلاف ہو ، وہ بھی از قبیلِ موضوعات ہے ۔ نیز کسی مشہور واقعہ کو صرف ایک راوی کا روایت کرنا یا حدیث کا راوی کے مسلک و عقیدہ کے مطابق ہونا بھی اس کے موضوع ہونے کی دلیل سمجھی جاتی ہے ۔

ان کے علاوہ حدیث کے موضوع ہونے کی چند علامتیں یہ ہیں :

( 1 ) حدیث میں ایسی نا معقول بات کہی گئی ہو جس کی تائید و توثیق دیگر احادیث و آثار سے نہ ہوتی ہو ۔ مثلاً : یہ حدیث ” جس نے ایک بار کلمۂ طیبہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا ، اللہ اس کلمے کی برکت سے ایک پرندہ پیدا کرے گا ، جس کی ستر ہزار زبانیں ہوں گی ۔ ہر زبان پر ستر ہزار بولیاں جاری ہوں گی اور وہ پرندہ قائل کے حق میں دعائے مغفرت کرتا رہے گا ۔ یا جس نے فلاں نیک عمل کیا ، اسے جنت میں ستر ہزار شہر دیے جائیں گے ۔ ہر شہر میں ستر ہزار محل ہوں گے اور ہر محل میں ستر ہزار حوریں اس کے لیے ہوں گی ۔ ( 2 ) حدیث میں حسی مشاہدہ اور خارجی حقیقت کے خلاف بات کہی گئی ہو ۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے : ” بینگن میں ہر بیماری سے شفا ہے ۔” یہ بات خلافِ حقیقت ہے اور کسی احمق حکیم یا بینگن کے تاجرنے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ ( 3 ) حدیث میں بیہودہ سی بات بیان کی گئی ہو ۔ مثال کے طور پر یہ حدیث کہ ” چاول اگر انسان ہوتا تو بڑا ہی بردبار ہوتا ، جو اسے کھاتا ہے سیر ہو جاتا ہے ” ۔ ایسی بیہودہ باتیں تو عام معقول لوگ بھی نہیں کرتے ، چہ جائے کہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایسی بات کریں ۔ ( 4 ) حدیث میں ظلم یا برائی کی تلقین کی گئی ہو ۔ ایسی تمام احادیث جن میں دین و مذہب کی تعلیمات کے خلاف باتیں بیان کی گئی ہوں ، ان کا موضوع ہونا ظاہر ہے ۔ ( 5 ) حدیث میں کوئی باطل بات کہی گئی ہو ۔ مثلاً : یہ من گھڑت حدیث ہے کہ ” آسمان پر جو کہکشاں دکھائی دیتی ہے وہ عرش کے نیچے موجود ایک سانپ کی پھنکار سے بنتی ہے ” ۔ یا ” جب اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے تو وحی کو فارسی زبان میں نازل کرتا ہے اور جب خوش ہوتا ہے تو عربی زبان میں وحی نازل فرماتاہے ” ۔ ( 6 ) حدیث انبیائے کرام علیہم السلام کے کلام کے مشابہ نہ ہو ۔ ( 7 ) حدیث اطبا کے کلام سے مشابہ ہو ۔ جیسے : ہریسہ کھانے سے کمر مضبوط ہوتی ہے یا مچھلی کھانے سے جسم کمزور ہوتا ہے ۔ ( 8 ) حدیث میں مخصوص ایام کی خاص نمازوں کا ذکر ہو ۔ لوگوں کی رغبت کے لیے مخصوص ایام جیسے جنگ احد کے دن ، اتوار کی رات ، پیر کے دن ، غرض کہ ہر موقع کے لیے ایک مخصوص نماز سےمتعلق حدیثیں وضع کی گئی ہیں ۔ خاص ایام اور خاص راتوں کے بارے میں جو نوافل اور نمازوں کا ذکر ہے ، یہ زیادہ تر صوفیۂ کرام کے اقوال و افعال سے ماخوذ ہیں ۔ ان نفوسِ قدسیہ کی تقلید کرتے ہوئے مخصوص ایام میں ان نوافل کی ادائیگی درست ہے کہ یہ کارِ ثواب اور بلندیِ درجات کا سبب ہے ۔ لیکن انہیں حدیث سمجھ کر ادا نہ کریں ۔ ( 9 ) حدیث میں کسی خاص گروہ کی برائی بیان کی گئی ہو ۔ جیسے : وہ احادیث جن میں اہل سوڈان کی برائی بیان کی گئی ہے ۔ اسی طرح ترکوں ، مخنثین اور غلاموں کی برائی سے متعلق تمام احادیث جعلی اور موضوع ہیں ۔ اسی طرح بغداد ، دجلہ ، بصرہ ، کوفہ ، مرو ، قزوین ، عسقلان ، اسکندریہ اور انطاکیہ کے باشندوں نے بھی اپنے اپنے شہروں کی فضیلت میں حدیثیں ایجاد کیں ۔ ایسی تمام احادیث من گڑھت ہیں ۔

موضوع احادیث پر لکھی گئی چند اہم کتابیں :

بخاری و مسلم کی متفق علیہ مشہور حدیث ہے : من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار . کے مطابق موضوع احادیث اور من گڑھت روایات کا علم ضروری ہے ۔ مندرجہ ذیل کتب و رسائل کو موضوع احادیث کی معرفت میں بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے ، ان کا مطالعہ ہمیں ضرور کرنا چاہیے ۔

( ۱ ) موضوعاتِ ابن جوزی ( وفات : ۵۹۷ ھ ) موضوعات کے بارے میں اس کتاب کو تقدم اور اولیت کا درجہ حاصل ہے ۔ چوں کو آپ کو حفاظتِ احادیث سے کافی انہماک تھا اور احادیث کے معاملے میں کسی قسم کے تسامل اور مداہنت کے قائل نہیں تھے ، اس لیے اس میں آپ سے اس میں کئی فروگذاشتیں ہوئی ہیں ۔ آپ نے بہت ساری ضعاف و حسان کو بھی موضوعات کے خانے میں رکھ دیا ہے ۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ آپ نے اس باب میں ایک بڑا علمی مواد فراہم کیاہے اور آنے والے محدثین کے لیے ایک اہم ماخذ چھوڑا ہے ۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کے رد میں ” تعقبات علی الموضوعات ” کے نام سے ایک کتاب تحریر فرمائی ہے اور علامہ ابن جوزی کے تسامحات کا ذکر کیا ہے ۔ شائقینِ فن کے لیے یہ کسی نعمتِ مترقبہ سے کم نہیں ہے ۔
( ۲ ) موضوعاتِ صنعانی . اس کتاب میں محدث جلیل حضرت علامہ حسن صنعانی صاحبِ مشارق الانوار نے اگر چہ علامہ ابن جوزی کی پیروی کی ہے ، لیکن موضوع سے متعلق گراں قدر معلومات بھی درج کی ہیں ، جو طالبانِ احادیث کے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔
( ۳ ) موضوعات الاحادیث . حضرت شیخ سراج الدین عمر بن علی القروینی ( وفات : ۸۰۴ھ ) کی تصنیف ہے اور اب یہ نایاب ہے ۔
( ۴ ) اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ . خاتم المحدثین حضرت علامہ جلال الدین سیوطی علیہ ( وفات : ۹۱۱ھ ) کی تصنیف ہے ، جو معرفتِ موضوعات میں استنادی حیثیت کی حامل ہے ۔
( ۵ ) تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات . یہ حضرت علامہ محمدطاہر پٹنی مصنفِ مجمع البحار ( وفات : ۹۸۶ ھ ) کی تصنیف ہے ۔
( ۶ ) موضوعاتِ کبیر اور اللآلی المصنوع فی الحدیث الموضوع . یہ دونوں کتابیں محدث ِجلیل حضرت ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ ( وفات : ۱۰۱۴ھ) کی ہیں ۔ موضوعات کے باب میں ان دونوں کا شمار جامع اور معرکۃ الآرا تصانیف میں ہوتا ہے ۔
( ۷ ) الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ . یہ قاضی شوکانی کی تالیف ہے ، اس میں انہوں نے علامہ ابنِ جوزی کی تقلید کی ہے اور احادیثِ مبارکہ کو ضعیف و موضوع قرار دینے میں تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ جب تک دیگر ائمۂ محدثین کے اقوال و ارشادات سے تائید نہ ہو ، اس کے مندرجات پر یقین نہیں کرنا چاہیے ۔ آں جناب نے اس کتاب میں بہت ساری ضعیف اور حسن حدیثوں کو بھی موضوعات کے زمرے میں شامل کر دیا ہے ۔
( 8 ) المقاصد الحسنہ للسخاوی
( 9 ) کشف الخفا للعجلونی
( 10 ) الآثارالمرفوعہ فی الاحادیث الموضوعہ . یہ حضرت مولانا عبد الحئی فرنگی محلی لکھنوی ( ۱۴۰۷ھ ) کی بلند پایہ تصنیف ہے ۔

 

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاد بالسیف کی حیثیت یہاں پڑھیں

شیئر کیجیے

Leave a comment