بی بی رقیہ اور معرکۂ بدر : پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک اور عظیم قربانی
از قلم: مسرور احمد قادری
ہجرت کرکے مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں آرام و سکون میسر ہوا ہی تھا کہ اُدھر غیض وغضب میں چور کفار مکہ نے جنگ کا بگل بجا دیا….
بے سروسامانی کے عالم میں بھی مسلمان جنگ بدر کی تیاری میں لگ گئے اور ادھر شہزادی رسول حضرتِ رقیہ رضی اللہ عنہا حیات و موت کے درمیان جوجھ رہی تھیں ایسے وقت میں آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے بابا جان کی محبت و شفقت کی بے حد ضرورت تھی….
لیکن اس حالت میں بھی حضور نے شفقت پدری کو کنارے کرکے تحفظ اسلام کو اپنی لاڈلی شہزادی پر فوقیت دی……
مجاہدین کفر و شرک کا قلع قمع کرنے اور اسلام کی سربلندی کے لئے میدان بدر کی جانب روانہ ہو گئے….
بدر کے میدان میں تیر و تلوار سے لیس لکھوں کی فوج کے سامنے محض 313 افراد آئے تھے.…
دونوں جانب سے گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی مدد مولیٰ سے کفر زیر ہوا اور حق کو فتح نصیب ہوئی اس کامیابی سے مسلمانوں کو بہت خوشی ملی کیونکہ حق و باطل کے درمیان یہ پہلا تاریخی مقابلہ تھا جس میں جنگی آلات سے لیس فوج کو بے تیغ مسلمانوں نے زبردست پڑکھنی دے دی تھی….
لیکن ادھر مدینہ پاک میں غم و الم کے بادل چھا گئے تھے حضرتِ رقیہ اپنے پیارے بابا جان کا مزید انتظار نہ کر سکیں اور اپنے مالک حقیقی سے جاملیں……
اللہ اکبر: حضور ﷺ دین کی تحفظ و سربلندی کی خاطر اپنے شہزادی کو آخری وقت میں دیکھ بھی نہ سکے شفقت پدری سے پیاری شہزادی کی روح کو سکون بھی نہ پہونچا سکے اور بی بی رقیہ ہمیشہ کے لیے بابا جان کو الوداع کہہ گئیں……
ایسی بہت سی عظیم قربانیاں آقا کریم نے پیش کی ہیں مشقت و پریشانیوں کو برداشت کیا ہے، راہ خدا میں پتھر بھی کھائے ہیں، دوسروں کی گالیاں بھی سنی ہیں، راستے کے کانٹے کی چبھن کو برداشت بھی کیا ہے…
اپنے پیارے صحابہ کو حفاظت دین کے لئے قربان بھی کیا ہے….
اب جب آقا کریم نے اتنی عظیم عظیم قربانیوں کو دے کر ہم تک دین پہونچایا رب تعالیٰ کے احکامات پہونچائے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے دین کی قدر کریں، رب العالمین کے بتائے ہوئے احکامات کو رونقِ زندگی بنائیں تعلیماتِ مصطفیٰ ﷺ پر عمل کریں عہد نبوی میں حضور اور صحابہ کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دین کی ترویج و اشاعت کی ہمہ تن کوشش کرتے رہیں.
یاد رہے اب اس دین کی حفاظت کے لئے 313 کی عظیم جماعت نہیں آئے گی، ختمِ نبوت پر پہرا دینے کوئی صدیق اکبر نہیں آئے گا ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے کوئی دوسرا نور الدین زنگی و صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا اور دین متین کی تبلیغ کے لئے کوئی عبد العلیم میرٹھی نہیں آئے گا بلکہ ہمیں ہی اپنے دین کی حفاظت کرنی ہے ہمارے ہی گھر کے بچے بچے کو ناموسِ رسالت ﷺ پر پہرا دینا ہے اب ہم مکمل اپنے کردار کو اسلاف کرام کی زندگی میں ڈھال لیں…
اور جس طرح سے انہوں نے تبلیغ دین کے لئے تگ ودو کی ہے اسی طرح ہمیں بھی تبلیغ دین کا کام سر انجام دینا ہے…..
اللہ تعالیٰ بدر کے با عظمت مجاہدین کی طرح ہمارے دلوں میں بھی جذبۂ ایمانی عطا فرمائے اور ان کی پاکیزہ تربیت پہ رحمت و غفران کی بارشیں برسائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم……
اے مجاہدین بدر آپ کی شانِ شجاعت کو سلام
از قلم: مسرور احمد قادری
امن کا پیغام بانٹتا ہے اسلام