ماہِ رمضان اور روزے کے فضائل
ماہِ رمضان اپنی تمام تر برکتوں اور مبارک ساعتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوچکا ہے- یہ مہینہ رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے جس کی ہر ساعت ہر لمحہ اور ہر پل بابرکت ہےماہِ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے تو خوش نصیب حضرات وہ ہیں جو اس ماہ کی برکات و حسنات سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی ہر پل کوشش کرتے ہیں-مزید کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عملِ صالح بجا لائیں ،نماز کی پابندگی پر استقامت برتی جائیں تاکہ ان معمولات کے ذریعے رب کی بارگاہ میں قرب حاصل ہو اور درجات میں برتری بھیاس مہینے کی فضلیت و اہمیت اس بات سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ مہینہ تمام مہینوں میں افضل ہے اس مہینے عبادت و ریاضت کے اجر و ثواب دوگنا ہوجاتے ہیں، چناں چہ اس ماہِ رمضان میں نفل عبادات کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے ،ساتھ ہی اس مہینے میں روزوں کی ادائیگی کے ساتھ ماہِ رمضان کی معنویت یعنی حقیقی برکت اور عظمت و بزرگی کو سمجھ لیا جائیں تو سونے پہ سہاگا،
محترم قارئین!
روزے کا مطلب بظاہر تو یہ ہے کہ آدمی صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے پرہیز کرے لیکن حقیقی طور پر روزہ خدا ترسی اور تقویٰ شعاری کا نام ہے،
قرآنِ حکیم میں روزے کی فرضیت اور اس کے اہم مقصد کو اس طرح بیان کیا گیا ہے تاکہ ہمارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو جیسا کہ حکم خداوندی ہے
” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ( سورۃ بقرۃ2 ،آیت:183)
یعنی اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
اس آیت مبارکہ میں روزے کی فرضیت کا مقصد تقویٰ و پرہیز گاری کی طرف رغبت دلانا ہے تاکہ آدمی کے اندر خدا ترسی اور تقویٰ کی حرارت زیادہ سے زیادہ پیدا ہو چوں کہ روزے میں نفس پر سختی کی جاتی ہے کھانے پینے کی چیزوں سے روک دیا جاتا ہے تو اس سے نفس پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے نفس کو خواہشات پر کنٹرول اور حرام چیزوں سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے، یہ تقویٰ اور اللہ کا خوف ہی انسان کو گناہوں سے روکتا ہے اور پاک صاف بناتا ہے تو گویا تقویٰ ایسی چیز ہے جو آدمی کو نفس کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف مائل کرتی ہے تاکہ بندوں کو نفس پر قابو پانے کے طریقے سے ایمان کے اعلیٰ درجوں سے آراستہ کیا جائے نیز تزکیۂ نفس میں اضافہ ہو اور ماہ رمضان کی برکت سے بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی اعمال بد سے کنارہ کشی اختیار کرلے _
محترم قارئین!
جس طرح روزہ باطن کے تصفیے ، نفس کے تزکیے اور باطنی طہارت کا ذریعہ ہے اسی طرح ظاہری اعمال میں بھی خشوع خضوع کا سبب ہے ، چناں چہ جب بندۂ مومن نے ربِ ذوالجلال کی حکم پر حلال چیزیں روزہ کے دوران ترک کردیں تو وہ چیزیں جن کو ربِ کریم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کردیا ہے جیسے چوری، جھوٹ، بدکاری،رشوت وغیرہ چیزوں کے ارتکاب سے بھی بچا جائیں
پتا چلا روزے کے ذریعے ظاہری اعمال میں بھی صفائی و ستھرائی مطلوب ہے اس کی اہمیت حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی پتا چلتی ہے کہ ” روزہ صرف کھانے پینے سے باز رہنے کا نام نہیں بلکہ روزہ جھوٹ ، گناہوں اور بے کار چیزوں سے بچنے کا نام ہے”- ( سنن الکبریٰ للبیہقی ، کتاب الصیام ،٤/ ٢٠٩ )
لہذا بندۂ مومن اس ماہ میں احتساب و اجتناب کا دامن تھام کر خدائے پاک کی بارگاہ میں لو لگائیں اور اس کے حکم پر سر تسلیم خم کردیں اور مستقبل کے لیے خود کو تیار کریں_ دنیاوی چکاچوند اور خوب صورتی کی محبت کا غلبہ اکثر آدمی پر رہتا ہے جس کی وجہ سے دنیوی محبت اور مادیت کا ایسا جنون سوار ہوجاتا ہے کہ انسان کے لیے رب کی عطا کردہ زندگی کی حقیقت کو سجھنا اور دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے ایسے میں آدمی کی فکری اور روحانی تربیت و تزکیے کی ضرورت پڑتی ہے اس کمی کی بھرپائی کے لیے ماہِ رمضان کا مکمل مہینہ فکری اور روحانی تربیت حاصل کرنے کے لیے اللہ کا انعام ہے فرمانِ الہی ہے
” شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-
یعنی رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے ،
مذکورہ بالا آیت میں قرآن مجیدکی تین طرح کی شان بیان ہوئی، قرآن ہدایت ہے روشن نشانیوں پرمشتمل ہے اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے،
سمجھنے والی شان ” ھدی للناس " ہے اس سے ظاہری اور باطنی دونوں ہدایات مراد ہیں ظاہری ہدایت یہ کہ انسان گناہوں سے پرہیز کرے، کسی کی حق تلفی نہ کرے، حق دار کو اس کا حق دے ، باطنی طہارت یہ ہے کہ جب انسان منع کی گئی چیزوں سے پرہیز کر لے تو یہ بات دل میں بٹھالے کہ یہ دنیا فنا ہونے والی ہے آخرت کو ہمیشہ مد نظر رکھتے ہوئے توبہ استغفار کرے، خوفِ خدا سے سینے کو مدینہ کو بنالے تاکہ موت سے غافل کبھی بھی نہ ہو، معلوم ہوا روزہ دنیوی محبت و مفاد اور مادیت پرستی کو خیرآباد کہنے کی طرف متوجہ کرتی ہے جس سے دنیوی لذت دم توڑتی ہوئی نظر آتی ہے اس یہ پتا چلا کہ ماہِ رمضان روح کی پاکیزگی اور اچھی زندگی کی تعمیر میں بے حد معاون ہے، اس مہینے میں نیک اعمال کی عادت ڈال لیں، اگر ایک بار نیک اعمال اور اچھائی کی عادت پڑ گئی تو زندگی بھر باقی رہتی ہے، اس لیے زندگی کا جو وقت بھی باقی ہے، اللہ نے زندگی دی ہے تو اس کو غنیمت جانیں اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جائیں،
دعا ہے رب تعالیٰ ہم سبھی کو رمضان کی برکات و حسنات عطا فرمائے اور ہمارے گناہوں کو بخش کر درجات کو بلند فرمائے آمین