قضیہ ہلدوانی: ایک تحقیقی جائزہ
روشن مستقبل دہلی کا سفر نامہ ہلدوانی
غلام مصطفےٰ نعیمی
ابتلا اور آزمائشیں مومن کا امتحان ہوا کرتی ہیں تاکہ ظاہر ہوجائے کہ دور آزمائش میں وہ اپنے رب کے کتنا قریب اور اس کے احکام پر کتنا عمل کرنے والا ہے۔آزمائشوں کا یہ دور مختلف شکلوں میں آتا ہے جیسا کہ فرمان ربی ہے:
وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕوَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔(سورة البقره:۱۵۵)
"اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو۔”
حال ہی میں ایسا ہی ایک دور آزمائش مسلمانان ہلدوانی پر بھی آیا جب اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے 27 دسمبر 2022 کو ہلدوانی کے "بن بھول پورہ” علاقے میں بنے 4365 مکانات کو غیر قانونی قبضہ قرار دیتے ہوئے مہندم کرنے کا فیصلہ سنایا۔فیصلہ آتے ہی مسلم بستیوں میں سناٹا چھا گیا۔کڑکڑاتی سردی میں سروں سے آشیانہ چھن جانے کے خوف سے راتوں کی نیند، دن کا چین اور بھوک وپیاس کا احساس ختم ہوگیا۔صوبائی حکومت پوری تیاری میں تھی اس لیے آناً فاناً پیرا ملٹری فورس، پی اے سی دستے اور پولیس کی ٹکڑیاں تعینات کردی گئیں۔پورے علاقے کو چھاؤنی بنا دیا گیا۔لائٹ کاٹنے کی تیاری ہوگئی۔سرکاری ہرکارے لاؤڈ-اسپیکر پر منادی کرانے لگے کہ جلد از جلد مکان خالی کردیں۔بلڈوزر کی پوری کھیپ تیار کھڑی تھی۔صوبائی حکومت کے تیوروں سے لگ رہا تھا کہ یہ لوگ مسلم بستیاں اجاڑنے کے جنون میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ہر طرف ایک دہشت اور خوف کا ماحول تھا، ڈر تھا کہ ڈیڈ لائن ختم ہوتے ہی بلڈوزر ایکشن شروع ہوجائے گا۔اس نازک وحساس موقع پر ہلدوانی اور ملک کے مسلمانوں نے جہاں قانونی چارہ جوئی کی وہیں پروردگار عالم کے حضور جبین نیاز کو جھکا کر گناہوں کی معافی مانگی اور اس بلائے ناگہانی سے حفاظت کے لیے دعاؤں کا سہارا بھی لیا۔مسلمانان ہلدوانی کا غم ملک کے ہر مسلمان نے محسوس کیا۔ارکان روشن مستقبل بھی اس غم سے اچھوتے نہیں تھے۔مگر صرف غم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونا تھا اس لیے طے کیا گیا کہ سب سے پہلے اس معاملے کو نیشنل میڈیا میں لانا ہوگا تاکہ ملک کے انصاف پسندوں تک صحیح حقائق پہنچ سکیں۔گودی میڈیا نے قضیہ ہلدوانی پر دو پالیسیاں بنا رکھی تھیں؛
اول اس قضیہ کو نظر انداز کرنا۔
دوسرے مسلمانوں کو قابض اور فسادی ثابت کرنا۔
اس لیے ضروری تھا کہ حقائق سامنے لائے جائیں اور لوگ ہلدوانی تجاوزات کا مکمل سچ جان سکیں۔طے ہوا کہ اس مدعے پر سب سے پہلے ٹویٹر ٹرینڈ چلایا جائے۔اسٹاپ بلڈوزر کلچر (StopBulldozerCulture) ہیش ٹیگ بنا کر یکم جنوری کو ٹرینڈ چلایا گیا۔اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہا اور ملکی سطح پر یہ ٹرینڈ نمبر تین تک ٹرینڈ لسٹ میں پہنچا اور دیر تک بنا رہا۔تیس ہزار سے زائد لوگوں نے اپنا وقت نکال کر صوبائی حکومت کے انتہائی جانب دارانہ فیصلے کے خلاف غم وغصے کا اظہار کیا۔روشن مستقبل کی وساطت سے کئی سوشل ایکٹوسٹ اور صحافی حضرات نے اس مدعے پر حمایت بھی کی اور قضیہ ہلدوانی کو مختلف فورموں پر پہنچانے میں مدد بھی کی۔ٹرینڈ کی کامیابی نے اس مدعے کو گرما دیا، دیکھتے ہی دیکھتے رویش کمار، اجیت انجم جیسے معروف صحافیوں نے بھی اس مدعے پر رپورٹنگ کرکے گودی میڈیا کو مجبور اور بے نقاب کردیا۔اب تک خبر ملکی حدوں کو پار کرکے بین الاقوامی میڈیا میں جگہ بنا چکی تھی۔ایک اہم کام ہوچکا تھا اور دوسرا کام باقی تھا، وہ تھا ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا۔بغیر وقت گنوائے فیصلے کو چیلنج کیا گیا۔پانچ جنوری کو شنوائی ہوئی، دعائیں رنگ لائیں اور سپریم کورٹ نے فی الحال انہدام پر پابندی لگا دی ہے اور ریلوے انتظامیہ اور اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کرکے اگلے مہینے سات فروری تک آنے کا حکم دیا ہے۔فیصلہ آتے ہی لوگ رونے لگے، پیشانیاں سجدوں میں جھک گئیں۔چونکہ سارے معاملات بڑی تیزی میں ہوئے اس لیے کہیں آنے جانے کا موقع نہیں ملا۔جب قدرے راحت ملی تو ہم نے طے کیا کہ روشن مستقبل کا ایک وفد ہلدوانی جائے اور زمینی حقائق کا پتا لگائے تاکہ آئندہ کسی افتاد سے بچنے کی منصوبہ بندی کرنے میں آسانی ہو۔
__________وفد کی روانگی
پانچ جنوری کو فیصلہ آیا، اگلے دن جمعہ تھا اس لیے سات جنوری کو ہم ایک وفد لیکر ہلدوانی کے لیے روانہ ہوئے۔اس وفد میں رام نگر اتراکھنڈ سے مولانا افضال معین، مولانا فرمان برکاتی، مولانا امجد، مولانا منور، قاری محمد ناظم، قاری عبدالمبین، قاری فاروق، حافظ محمد عمر، حافظ منور حسین انجینئر محمد انجم بھی شریک تھے۔موسم اگرچہ سرد تھا لیکن جیسے جیسے دن چڑھتا گیا ویسے ویسے آفتاب کی شعائیں کہرے پر غالب آتی گئیں حتی کہ سورج پوری آب وتاب سے نکلا۔ہم نے اس سے یہی نیک فال مراد لی یقیناً مسلمانان ہلدوانی کی امیدوں کا سورج بھی ناامیدی کے کہروں کو شکست دے کر پوری تب وتاب سے روشن ہوگا اور ظلم و ناانصافیوں کا کُہرا شکست کھائے گا۔
ہلدوانی اتراکھنڈ کا دوسرا سب سے بڑا شہر کہلاتا ہے۔مشہور سیاحتی مقام نینی تال یہاں سے بیس، بھوالی چھتیس اور کاٹھ گودام صرف سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اس لیے یہاں ملکی اور بیرون ملکی سیاحوں کی آمد ورفت لگی رہتی ہے۔اسی بنا پر سڑکوں پر ٹریفک بھی عام راستوں کے مقابلے زیادہ ہوتا ہے، لیکن ان دنوں اتر بھارت کی مشہور سردی اور گھنے کُہرے نے کافی حد تک سڑکوں کو خالی کر رکھا ہے اس لیے ہم لوگ امید سے پہلے ہی ہلدوانی پہنچ گئے۔یہاں قاری محمد محفوظ عالم (موصوف مسجد فقیران ہلدوانی کے امام اور روشن مستقبل دہلی کی سوشل میڈیا یونٹ اتراکھنڈ کے نگراں ہیں) نے وفد کا استقبال کیا۔موصوف مسجد ومدرسہ کی ذمہ داری کے باوجود ملی معاملات میں کافی فعال رہتے ہیں۔ہمارے وہاں پہنچنے میں ان کی پر خلوص دعوت کا بھی اہم رول تھا۔
انہیں کی مسجد میں نماز ظہر ادا کی۔یہ مسجد جس محلے میں قائم ہے وہ ریلوے اسٹیشن کے ٹھیک بغل میں آباد ہے، مگر اس محلے تک جانے کے لیے مستقل راستہ نہیں ہے۔ہر انسان کو خطرہ اٹھا کر ریل کی پٹریاں پار کرکے جانا پڑتا ہے۔یہاں کے سیاسی لیڈران کو اس طرف فوری دھیان دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایک بڑی آبادی کی آمد ورفت آسان ہوسکے۔
مسجد فقیران گولا ندی کے ٹھیک بغل میں ہے۔اسی کے دوسری جانب انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم بنا ہوا ہے۔ابھی تو اس مقام پر کچی جھونپڑیاں آباد ہیں اگر اس علاقے کی ترقی پر دھیان دیا گیا تو آنے والے وقت میں یہ علاقہ ہلدوانی کے بہترین علاقوں میں شمار ہوسکتا ہے۔قاری محفوظ صاحب نے یہاں اپنے بچوں سے بھی ملایا ان کا بڑا بیٹا اس وقت اسکول میں گیارہویں(first year) کا طالب علم ہے جب کہ مدرسے میں گیارہ پارے حفظ بھی کرچکا ہے۔بچے سے مل کر بہت خوشی ہوئی کہ ذرا سی عمر میں اس قدر محنت، رب العالمین اس بچے کو مزید علمی بلندیاں عطا فرمائے۔
یہاں سے نکل کر ہم لوگ واپس اسٹیشن احاطے میں پہنچے ہی تھے کہ ڈاکٹر عرفان صاحب تشریف لے آئے۔موصوف ڈاکٹر ہونے کے ساتھ قومی جذبہ رکھتے ہیں۔حالیہ معاملے بھی کافی فعال رہے۔انہوں نے اختصاراً اب تک کی روداد بیان کی۔اس کے بعد ہم ان علاقوں کا جائزہ لینے کے لیے نکل گئے جنہیں حکومت اور ریلوے انتظامیہ تجاوزات (Encroachment) بتا کر خالی کرانا چاہتی ہے۔اس علاقے میں بنیادی طور پر پانچ بڑے محلے ہیں:
1۔ڈھولک بستی
2۔غفور بستی
3۔اندرا نگر
4۔لائن نمبر 17
5۔برساتی
علاقے میں تقریباً نوے فیصد مسلمان ہیں۔کل آبادی تقریباً پچاس ہزار کے آس پاس ہے۔یہاں 9 مسجدیں، 2 مندر، تین سرکاری اسکول، سرکاری واٹر ٹینک، کئی پرائی ویٹ بینک، نجی اسکول اور اسپتال بھی تجاوزات کی زد میں آ رہے ہیں۔
میڈیا اور حکومت کا جھوٹ_______
اتراکھنڈ حکومت اور گودی میڈیا نے ہلدوانی قضیہ پر موٹے طور پر ایک نریٹو سیٹ کر رکھا تھا کہ؛
"مسلمان ریلوے کی 78 ایکڑ زمین پر قابض ہیں۔”
سارا میڈیا ایک ہی آواز میں بس یہی جھوٹ دہرائے جارہا تھا اور بطور ثبوت ریلوے لائن کے آس پاس آباد جھونپڑیاں دکھا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی تھی جب کہ حقیقت اس کے برعکس نکلی۔مقامی لوگوں نے کہ تجاوزات صرف ڈھولک بستی کے علاقے میں ہے جو ریلوے کی زمین پر ہے لیکن وہ تجاوزات بھی بہت مختصر اور بہت پرانا ہے۔یہ حکومت اور ریلوے کی بدنیتی ہے کہ وہ تھوڑے سے حصے کا encroachment دکھا کر چار بڑے مسلم مُحلوں کو بھی ختم کردینا چاہتے ہیں۔ہلدوانی ہی کے ایک سوشل ورکر تسلیم انصاری نے بتایا کہ یہ معاملہ یوں تو کافی وقت سے کورٹ میں چل رہا ہے لیکن گذشتہ اسمبلی الیکشن 2017 میں بی جے پی امیدوار جتیندر روتیلا کی لگاتار دوسری ہار کے بعد یہ معاملہ جان بوجھ کر گرمایا گیا۔ہائی کورٹ کے پرانے کیس میں ایک نئی عرضی(petition) لگائی گئی اور نہایت تیزی کے ساتھ یہ فیصلہ آگیا کہ ریلوے کی اٹھہتّر ایکڑ زمین پر ناجائز قبضے ہیں۔جب کہ اس سے قبل ریلوے کا دعوی انتیس ایکڑ زمین کا تھا لیکن بھاجپا کی شکست کے بعد 29 ایکڑ زمین بڑھ کر 78 ایکڑ میں تبدیل ہوگئی۔مذکورہ علاقے میں کانگریس کو تقریباً یک طرفہ ووٹ ملے جس کے باعث بھاجپا امیدوار کی ممکنہ فتح واضح شکست میں تبدیل ہوگئی۔یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جتیندر روتیلا ہی موجودہ وقت میں ہلدوانی شہر کے مئیر بھی ہیں۔لوگوں کا صاف کہنا تھا کہ یہ تجاوزات کا معاملہ نہیں ہے اسمبلی الیکشن کی شکست کا انتقام لیا جارہا ہے۔اس سیٹ پر تشہیر کرنے وزیر اعظم مودی بھی آئے تھے لیکن شکست نے مقامی یونٹ کو بڑا رسوا کرایا کہ مودی کی تشہیر کے بعد بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔شاید اسی داغ کو دھونے اور آئندہ ایسی ہزیمت سے بچنے کے لیے بانس ہی کو ٹھکانے لگانے کا پلان بنایا گیا تاکہ آئندہ بانسری بجنے کا امکان ہی نہ رہے۔
جامع مسجد ہلدوانی میں وفد کا استقبال______
علاقائی افراد سے ملاقات کرکے ہمارا وفد ڈاکٹر سمیع صاحب کی معیت میں جامع مسجد ہلدوانی پہنچا۔ڈاکٹر محمد سمیع ایک متحرک وفعال شخصیت ہیں۔انہوں نے جامع مسجد میں کئی ذمہ داران کو مدعو کر رکھا تھا۔جامع مسجد میں قاضی شہر مولانا محمد اعظم قادری صاحب نے نہایت گرم جوشی کے ساتھ وفد کا استقبال کیا۔یہاں مولانا شاہد رضا، خطیب وامام رضا مسجد ہلدوانی کے علاوہ شہر کے کئی نمائندہ افراد بھی موجود تھے۔یہیں پر ہماری ملاقات شرافت خان صاحب سے بھی ہوئی جو سپریم کورٹ میں موجودہ کیس میں فریق بنے ہوئے ہیں۔ان کے ساتھ کئی سماجی کارکنان بھی مکانات بچانے کی جد وجہد میں مشغول ہیں۔ان حضرات نے بالتفصیل بتایا کہ ایک مختصر سے حصے کو چھوڑ کر باقی علاقے میں مقیم افراد کے پاس زمینوں کے کاغذات ہیں۔بعض افراد کے پاس تو برطانوی دور تک کے پیپر ہیں۔انہوں نے ہی یہ بھی بتایا کہ ہائی کورٹ کے آرڈر کے بعد سب سے پہلے ہم نے زمینوں کے کاغذات جمع کرنے کا کام شروع کیا تاکہ سپریم کورٹ میں پیش کیا جاسکے۔ان حضرات کی بات چیت کرنے کے بعد تین بنیادی باتیں بہت واضح طور پر سامنے آئیں:
🔸پورا علاقہ غیر قانونی نہیں ہے بل کہ ریلوے لائن کے پاس والا تھوڑا سا حصہ ہی متنازعہ ہے باقی علاقے کو صرف سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
🔹اس علاقے میں قائم سرکاری اسکول اور سرکاری ٹنکی بھی حکومت اور ریلوے کے دعوؤں پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ایک اسکول تو 1942 کا قائم شدہ ہے یعنی آزادی سے پانچ سال پہلے کا، سوال اٹھتا ہے کہ مسلمان ناجائز زمین گھیر رہے ہیں تو حکومت ناجائز زمین پر اسکول کیوں بنائے ہوئے ہے؟
🔸یہاں بسنے والے مختلف نوعیت کے مالکانہ کاغذات رکھتے ہیں۔کسی کے پاس سو سال پرانے کاغذات موجود ہیں۔تو بعض لوگوں کے پاس حکومت کے ذریعے الاٹ شدہ زمینیں ہیں۔بعض لوگوں کے پاس 143 کے تحت بھی کاغذات موجود ہیں۔ہلدوانی کے رہائشی محمد شریف کے پاس 1940 کے کاغذات ہیں۔انہیں برٹش حکومت نے زمین الاٹ کی تھی۔
یعنی ایک بڑی آبادی قانونی طور پر ان زمینوں میں آباد ہے ایسے میں یہ بات ایک دم صاف ہوجاتی ہے کہ ان پر تجاوزات کا الزام سراسر جھوٹ اور سیاسی ہتھ کنڈہ ہے تاکہ مسلم آبادی کو بدنام کرکے انہیں وہاں سے اجاڑ دیا جائے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔
ضیافت اور واپسی_________
ہلدوانی کے شہر قاضی مولانا محمد اعظم قادری صاحب نے بڑے خلوص اور ملن ساری کا مظاہرہ کیا۔خاصے پر تکلف ناشتے کا اہتمام کرا لیا۔ڈاکٹر سمیع صاحب تو کھانے کے لیے بضد تھے۔ہمارا وفد ان حضرات کے اخلاق وخلوص سے بے حد متاثر ہوا کہ ایسی سخت گھڑی میں انہیں مہمانوں ضیافت کا اتنا خیال تھا۔کھانے کو میں نے سختی سے منع کردیا لیکن ناشتے پر راضی ہونا ہی پڑا۔چائے ناشتے کے بعد ان حضرات سے اجازت چاہی مگر ابھی ایک منزل مزید باقی تھی سو ہمارے ہم رکاب رہے محب گرامی مولانا افضال معین(جو خیر سے ہلدوانی ہی کے رہائشی ہیں) کی خواہش پر ان کے دولت کدے پر بھی جانا پڑا۔وقت اگرچہ کم تھا مگر جائے بغیر چارہ کار نہ تھا۔آپ ہی کے گھر عصر کی جماعت قائم کی اور بعدہ پر تکلف عصرانہ سے شاد کام ہوئے۔اس کے بعد ہمارا وفد واپس اپنی منزل کی طرف نکل پڑا اس یقین کے ساتھ کہ لوگوں کی دعائیں رائگاں نہیں جائیں گی اور لوگوں کے سروں پر ان کا آشیانہ سلامت رہے گا۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
١٦ جمادی الاخرہ ١٤٤٤ھ
9 جنوری 2023 بروز پیر
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی