کورونا اور احتیاط، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
از قلم: انصار احمد مصباحی
640 عیسوی کا واقعہ ہے۔ سنہ ١٧ ہجری کے آخری مہینے تھے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق (رضی اللہ تعالی عنہ) کے دور حکومت میں ملک شام ، مصر اور عراق میں ایک خطرناک وبا نمو دار ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ، اس وبا کا زور اتنا بڑھ گیا کہ ١٨ ہجری کا آغاز ہوتے ہی شہر کے شہر خالی ہوتے چلے گئے۔ اس وبا کی لپیٹ میں آکر، تین مہینوں کے اندر لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ وبائی بحران اتنا شدید تھا کہ قحط سالی کی وجہ سے پرندے بلا جھجھک لوگو کے ہاتھوں میں آ جاتے۔
تاریخ اسلام میں اس حادثے کو ”طاعون عمواس“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضور سید عالم ﷺ نے ”طاعون عمواس“ کو ، قیامت کی پانچ بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا تھا۔
سنہ ١٨ ہجری میں امیر المومنین حضرت فاروق اعظم ، مدینہ میں حضرت علی مرتضی (رضی اللہ عنہ) کو مقرر کرکے، ایک لاکھ لشکر اسلام کے ساتھ شام روانہ ہوئے۔ جب آپ اردن کے ”سرغ“ نامی جگہ پر پہنچے تو خبر ملی کہ شام کے مختلف علاقوں میں ایک وبا پھوٹ پڑی ہے، جو بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ لوگ کثرت سے اس کی زد میں آ رہے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے مشورہ کرکے واپسی کو بہتر سمجھا۔ اس وقت، حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح (رضی اللہ عنہ) شام کے امیر تھے، انھوں نے بر جستہ کہا:
”اے عمر! کیا آپ اللہ کی قدرت سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں“؟ یہ طنزیہ جملہ سن کر، حضرت فاروق اعظم نے جو تاریخی جملہ کہا تھا، وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، وہ ایک جملہ اسلام کا ایسا اصول بن گیا ، جو قیامت تک مسلمانوں کی رہبری کرتا رہے گا۔آپ نے جواب دیا:
”نعم! فرارٌ من قدرةِ اللہ الٰی قدرةِ اللہ“۔ ترجمہ: ہاں! یہ فرار ہے، اللہ کی ایک قدرت سے دوسری قدرت کی طرف۔
کچھ دنوں بعد ، مدینہ طیبہ سے حضرت عمر فاروق کا خط آیا کہ لشکر اسلام کو لے کر نشیبی جگہ سے فلاں مقام (جو قدرے بلند اور سبز و شاداب تھا) کی طرف کوچ کیے جائیں۔ حضرت ابو عبیدہ ابن جراح نے مشورہ نہ مانا اور طاعون کو اللہ کی رحمت قرار دیا۔ آپ اس وبا میں شہید ہو گئے۔آپ کے بعد حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) کو امیر منتخب کیا گیا۔آپ بھی حضرت ابو عبیدہ کے موقف پر ڈٹے رہے اور آپ نے اس وبا کو اللہ کی رحمت قرار دے کر اللہ سے دعا کی کہ مولی، میری اور میرے اہل و عیال کی اسی مرض میں شہادت نصیب فرما!۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل اور آپ کے جتنے اہل خانہ وہاں موجود تھے، سب اسی طاعون میں شہید ہوئے۔ اس وبا سے ہزاروں صحابہ کرام سمیت پچاس ہزار کے قریب مجاہدین اسلام شہید ہوئے۔ اصل میں ان جلیل القدر صحابہ کے سامنے رسول کائنات ﷺ کی وہ حدیث تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ”طاعون میں مرنے والا شہید ہے“۔ (بخاری: 2829)۔ وہ اسی پر عمل پیرا رہے۔
دوسرے صحابہ کی راے تھی ”فاروقی تجویز“ پر عمل کیا جائے۔ چناچہ:
”ثم شار بالناس، حتٰی نزلَ الناسُ الجابیہ و رفعَ اللہُ عنِ النّاسِ الوَباءَ“۔
ترجمہ: امیر لشکر نے لوگوں سے مشورہ کرکے وہاں سے ”جابیہ“ مقام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ اللہ نے وہ وبائی مرض دور فرما دی۔ طاعون عمواس کو عہد فاروقی کے نمایاں واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ پورا واقعہ تاریخ طبری، جلد 4 صفحہ 56 ، طبقات ابن سعد ، جلد 2، صفحہ 85، کچھ اختصار کے ساتھ فتاوی رضویہ، جلد 24 (رسالہ تیسیر الماعون للسکن فی الطاعون) اور تاریخ اسلام کی دوسری کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے۔
اس واقعہ میں کورونا سے متعلق ہمیں کئی سبق ملتے ہیں۔ یہاں ہمیں ایک اصول ملا کہ بیماری آنا اللہ کی تقدیر ہے تو اس میں احتیاطی تدبیریں اختیار کرنا بھی تقدیر الٰہی ہی ہے۔ ایک صحابی رسول ﷺ نے اپنی اونٹنی ، اللہ کے بھروسے یوں ہی کھلی چھوڑ دی اور نماز پڑھنے لگے۔ آپ ﷺ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا۔ ”پہلے اومٹنی باندھ پھر اللہ پر بھروسا کر“۔ دوسری چیز یہ معلوم ہوئی کہ وبائی بیماری دیکھ کر گھبرانا اور اس سے بھاگنا نہیں چاہیے؛ بلکہ اس سے بچنے کی تدابیر ، معالجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”اللہ نے جو بھی بیماری اتاری ہے، اس کا علاج بھی ضرور نازل فرمایا ہے“ (بخاری: 5678)۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وبائیں اللہ کی طرف سے آزمایش ہوتی ہیں، ان کا مزاق اڑانا، اس کی سنگینی کو نظر انداز کرنا، لا پروائی برتنا ، وباؤں کے تعلق سے لطیفے اور جوکس تیار کرنا، غیر اسلامی اور غیر عاقبت اندیشانہ طریقہ ہے۔
پچھلے سال ہم نے ایک بات دیکھی تھی۔ گھر سے باہررہنے والوں میں کافی افرا تفری پھیل گئی تھی، کورونا سے ڈر کر گھروں کو جانے کی کوششوں میں کئی لوگوں کو اپنی قیمتی جانی گنوانی پڑی تھی۔ وبا سے ڈر کر بھاگنا یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا، اسلام میں حرام ہے۔ جو شخص جہاں ہے وہیں پر ، اس وبائی بیماری کا مقابلہ کرے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”بلا کے وقت اپنے شہروں میں تین وصفوں کے ساتھ ٹھہرے: اول صبر و استقلال، دوم تسلیم و رضا اور قضا پر طلب ثواب ، سوم یہ سچا اعتقاد کہ تقدیر الٰہی کے بغیر کوئی بلا ہرگز نہیں پہنچ سکتی“۔ (فتاوی رضویہ: 302/ 24)
امام احمد رضا خان نے وبا کی جگہ سے نہ بھاگنے کی ایک حکمت یہ بتائی ہے کہ، ”اگر تندرست بھاگ جائیں گے، بیمار ضائع رہ جائیں گے، ان کا کوئی تیمار دار ہوگا نہ خبر گیراں؛ پھر جو مریں گے، ان کی تجہیز و تکفین کون کرے گا؟“۔ (فتاوٰی رضویہ: 304/ 24)
جو جانا بھی چاہے،وہ کورونا سے ڈر کر نہ بھاگے؛ بلکہ بہتر سہولیات، بے روزگاری سے نجات، گھر والوں کی خدمات وغیرہ نیتوں سے سفر کرے۔
آسمانی بلائیں، بندوں کو آزمانے اور انھیں ڈرانے کے لئے نازل ہوتی ہیں۔ جب بندوں کے اندر بد اعتقادیاں، بد عملیاں، رسم و رواج سے محبت، دنیا پرستی، نفسانی خواہشات، بے حیائیاں، شریعت کی نا قدری، تمسخر و استہزا، تکبر و نخوت جیسی برائیاں عام ہوجاتی ہیں، پھر اللہ تعالی ”کورونا“ جیسا عذاب بھیجتا ہے۔ بندوں کو توبہ اور رجوع الی اللہ کی سخت ضرورت ہے۔ شفا دینے والی ذات اسی کی ہے۔ قرآن کے سورہ شعراء میں فرمایا گیا، ”اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہ (اللہ) مجھے شفا دیتا ہے“۔ (الشعراء: 80)۔ اس کے علاوہ دعاوں کی کثرت کی جائے۔ اللہ رب العزت کو بندوں کا دعا کرنا بہت پسند ہے۔ رمضان کریم کا مبارک مہینہ ہے۔صدقہ و خیرات کے لئے دروازے کھلے رکھیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث پاک مروی ہے۔ پیارے آقا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ”صدقہ ستر قسم کی مہلک بلائیں دور کر دیتا ہے۔ ان میں سے آسان بلائیں جذام اور برص ہیں“۔ (امام سیوطی) دوسری حدیث میں آیا: ”الصدقات بالغداة یذھبن العاھات“۔ صبح صدقہ کرنا ، پریشانیاں دور کر دیتا ہے۔ (جامع الاحادیث: 4، 454)
کورونا کی تیسری لہر نے ، پہلے سے زیادہ خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے۔ امراض کی تیزی اور اموات کی کثرت نے رونگٹے کھڑے کر دیے ہیں۔ پہلے کچھ لوگ کہتے تھے، ” کورونا سے مرنے والوں کو کسی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کیا؟ “ اب ہر گھنٹے، مرنے والوں کے رشتہ داروں یا قریبیوں سے تعزیت یا خبر غم کے میسیج آ رہے ہیں، اموات کی خبروں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ (و اذا مرضت فھو یشفین)
از: انصار احمد مصباحی،
aarmisbahi@gmail.com 9860664476