جہیز کا بڑھتا قدم اور غریب بیٹیوں کا قتل
شھباز نصیری مصباحی
یہ بات حق و صداقت پر مبنی ہے کہ بیٹی اللہ کی رحمت ہے، اللہ تعالی نے بیٹیوں کو وہ حسن عطا کیا ہے کہ ایک غمزدہ باپ کی نظر بیٹی کے چہرے پر پڑتے ہی دنیا کا سارا رنج و غم کافور ہوجاتا ہے دل کی کلیاں کھل اٹھتی ہے ایک باپ پوری زندگی کاملا ہوا دکھ و درد بھول جاتا ہے بغیر بیٹی کے گھر سونا سونا لگنے لگتا ہے
بیٹی کی قدر و قیمت ان سے پوچھیے جسے اللہ نے اس نعمت عظمیٰ سے محروم رکھا ہے، محسن کاٸنات صلی اللی علیہ وسلم نے بیٹیوں کی عظمت کو اس قدر اجاگر کیا ہے کہ بیٹی وہ عظیم نعمت ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لاتی تھیں تو اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم بھی استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے کہ یہ میری بیٹی ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ جن کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اس کی اچھی طرح پرورش کرے پھر اچھا نام رکھے اور اسے کوٸی تکلیف نہ پہنچاۓ اور نہ ہی اسے برا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل فرماۓگا(مستدرک. 248)
میٹھی میٹھی پیاری سی کہا نیاں ہیں
بیٹیاں تو سچے رب کی مہربانیاں ہیں
آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب جہالت کا دور تھا تو اس وقت ملک عرب کے درندہ صفت انسان بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے بیٹیوں سے دنیاں میں جینے کا حق چھین لیتے تھے پھر جب سیدہ آمنہ کے آنگن میں رحمتوں کا نزول ہوا، نبیوں کے سردار تشریف لاۓ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مظلوم بیٹیوں کو جینے کا حق دیا دنیوی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا لیکن افسوس ہے آج کے مسلمانوں پر جو اپنی بیٹیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کر ڈالتے ہیں دور جہالت کے ان کفار کا حال تو یہ تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو دنیا میں آنے اور چند سانس لینے کا حق دیتے تھے لیکن آج کے اس روشن خیالی اور طرقی یافتہ انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو دنیا میں آنے کا حق بھی نہیں دیتے ہیں
بلکہ طبی آلات کے ذریعے اسے ماں کے شکم میں ہی مار ڈالتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں جہیز کا بڑھتا قدم ہے بلا شبہ جہیز امت میں ایک بدنماں داغ ہے یہ تو ایک ہندٶانہ رسم ہے جسے اب بد قسمتی سے مسلمانوں نے بھی اپنا لیا ہے، مسلمانوں میں بھی جہیز کے لین دین پھر اس سے بڑھ کر جہیز کا مطالبہ اور اس سے آگے نکل کر جوڑے کے نام پر لڑکوں کی طرف سے رقم کے مزید مطالبات کا سلسلہ چل پڑا ہے یہ اسلامی تعلیمات اور شریعت کے بالکل خلاف ہے کیوں کہ اسلام نے تو مہر کی ذمہ داری شوہر پر رکھی ہے اور عورت کو نکاح میں ہر طرح کی مالی ذمہ داری سے دور رکھا ہے، اسلام میں تو اس بات کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مرد بھی عورت سے جہیز کے نام پر روپے کا مطالبہ کر سکتا ہے،
جہیز کا مطالبہ رشوت ہے اس کا مانگنا تو حرام ہے ہی شدید ضرورت کے بغیر دینا بھی جاٸز نہیں ہے ۔ آج ان غریبوں کے گھر جا کر دیکھیں جہاں بیٹیاں باپ کی غربت کو دیکھ کر سسکیاں لے رہی ہیں آج غریب کی بیٹیاں جہیز کے ڈیمانڈ پر شادی نہ ہونے کی وجہ سے گلے میں پھانسی کا پھندا لگا کر دنیا کو الودع کہ رہی ہیں ۔
دیکھی جب گھر کی غربت تو چپکے سے مر گٸی
ایک بیٹی اپنے باپ پہ احسان کر گٸ
جو والدین جہیز دینے کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے جہیز کی رسم کو دنیا دکھاوے اور دولت کی نماٸش کا ذریعہ بنالیا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی جہیز دینے کے معاملے میں ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرتے ہیں ۔ امیر لوگوں کا کہنا ہے مانگنا جاٸز نہیں ہے تو ہم بغیر مانگے دے رہے رہیں تو ان لوگوں کو بتایا جاۓ کہ جہیز مانگنا ہی صرف جرم نہیں بلکہ حیثیت سے بڑھ کر تحاٸف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جاٸدات و غیرہ فروخت کرکے جہیز کے مطالبات پورا کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔ سچ کہوں تو ان امرا کی وجہ سے آج غریب بیٹیوں کا جینا اجیرن ہوگیا ہے کیوں کہ یہ امیر لوگ جب اپنی بیٹی کی شادی میں بھر بھر کر جہیز دیکر کہتے ہیں کہ ہم نے تو خوشی سے دیا ہے تو بیچارے غریب اور وہ مفلوک الحال انسان جس کے گھر میں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی ان کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ ہم جہیز دیکر خوش ہیں حالاں کہ خوشی کے نام پر بیچارے غریبوں کو قرض کے سمندر میں غرق کر دیا جاتا ہے۔ امرا کے لیے تو کوٸی بات نہیں لیکن غریبوں کے لیے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں۔ اب اس گھناٶنی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کرسکتے ہیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کی لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کرے۔
طلب جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں
دیکھو !!! اداس بیٹھی ہیں حوا کی بیٹیاں۔
شھباز نصیری مصباحی
اتردیناج پور (بنگال)