اسلامی نظام حیات ہی میں فلاح ہے

اسلامی نظام حیات ہی میں فلاح ہے

Table of Contents

اسلامی نظام حیات ہی میں فلاح ہے

غلام مصطفے رضا نظامی

یہ بات کسی اہل دانش پر مخفی نہیں کہ کسی بھی عمل کا کوئی نہ کوئی طریقہ ہوتا ہے اگر اس کے برخلاف اس عمل کو انجام دیا جائے تو اس کی تکمیل تو ہوتی ہے لیکن اس میں فساد پایا جاتا ہے مثلا اگر کوئی بجلی کا کام کرنے والا بلب کو بند کرنے کے آلہ (سیوچ بٹن) کو الٹا سیٹ کردے تو ایسا نہیں ہے کہ اس سے بکب کو بند نہیں کیا جا سکتا ہے کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں فساد ہے وہ یہ کہ کوئی بھی اجنبی شخص اس کو ایک بار میں بغیر کسی سے مدد لیے اس کو بند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جب کہ یہ ایک مامولی کام ہے جو کوئی بھی باسانی کر سکتا ہے
اسی طرح زندگی گزارنے کا بھی ایک طریقہ ہے جسے ہمیں مذہب اسلام نے سیکھایا
لفظ اسلام یہ سلم سے ماخوذ ہے جو فعل رباعی اسلم کا مصدر ہے جس کا معنی خدا کے حکم اور اس کی ممانعت کو بغیر کسی اعتراض کے تسلیم کرنا ہے
اور جہاں تک محاوراتی معنی کا تعلق ہے تو یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا مذہب ہے، جس کے بارے میں مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ وہ شریعت ہے جس کے ساتھ خدا نے آسمانی پیغامات پر مہر ثبت کردی ہے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعریف کی ہے: "اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، فرض نمازیں ادا کرنا، فرض زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کی زیارت کرنا۔”
اس اسلام نے بنی نوع انسان کو نظام حیات کا درس دیا تو بتایا کہ بڑوں کا ادب کرو چھوٹوں پر شفقت کرو والدین کی نافرمانی سے باز آ جاؤ اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو اور پھر سب کے حقوق کو بالتفصیل بیان کردیا اس طرح سبھوں اسلامی نظام حیات کو جان لیا
اس اسلام نے آج سے 1400 سال پہلے بنی نوع انسان کو نظام حیات کا درس دیا تو بتایا کہ بڑوں کا ادب کرو چھوٹوں پر شفقت کرو والدین کی نافرمانی سے باز آ جاؤ اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو اور پھر سب کے حقوق کو بالتفصیل بیان کردیا اس طرح سبھوں نے اسلامی نظام حیات کو جان لیا پھر جو بیٹیاں باپوں پر اس قدر گراں گزرتی تھی کہ زندہ درغور کر دی جاتی تھی وہ رحمت بن گئی اور امت محمدیہ نے اسلامی نظام حیات کو مضبوطی سے تھام کر خوش حال اور الفت و محبت والی زندگی بسر کرنے لگی
اور پھر جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا اولاد آدم نے مال و متاع کی لالچ میں اسلامی نظام حیات کے دامن کو چھوڑنا شروع کر دیا تو طلب جہیز، بیٹیوں کو وراثت نہ دینا، اپنے مال سے زکاۃ کی ادائیگی نہ کرنا جیسے عمل کو اختیار کر لیا
اور آج یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ جہیز کا رواج قوم مسلم میں کس قدر شباب پر ہے
اسلام نے نکاح کو جتنا آسان بنایا اس مسلم قوم نے اسے اتنا ہی مشکل بنادیا ہے نکاح کے بابرکت بندھن پر بے شمار رسومات، تقریبات، خرافات اور فضول اخرجات کے بوجھ کو ایسے فروغ دیا کہ ایک غریب شخص ہی نہیں بلکہ متوسط درجے کے آدمی کے لیے بھی وہ ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا اور جب کہ نکاح میں ہونے والے تمام رسومات و خرافات اور فضول خرچی سے صرف طرف ثانی (صاحب بیٹی) کو ہی نہیں بلکہ طرف اول (صاحب بیٹا) کو بھی مشقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی وجہ ہے اسلامی نظام حیات کی خلاف ورزی کرنا
حدیث پاک ہے جس کے راوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "سب سے با برکت نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو_

وعن عائشة قالت قال النبي صلى الله عليه وسلم: "إن أعظم النكاح بركةً أيسره مؤنةً”
(مشکوٰۃ المصابیح: ج2، ص268)
اور تاریخ شاہد ہے کہ جب تک سادی شادی ہوتی رہی طلب جہیز سے لوگ بچتے رہے بیویاں شوہروں کی عزت، حکم کی فرما برداری اور "اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ” پر عمل کرتی رہی اور آج سماج و معاشرہ کا جائزہ لیجیے تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر بیوی تسخیر شوہر چاہتی ہے، ہر بہو اپنے سسرال میں پکی پکھائی روٹی توڑنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے آئے دن طرح طرح کے فتنہ جنم لیتا ہے اور اس کی وجہ ہے طلب جہیز_
اسلامی شریعت اور امت محمدیہ میں نکاح کا کوئی خرچ عورت کے ذمہ نہیں رکھا گیا بلکہ اس کے برعکس نکاح میں عورت کو مرد کی طرف سے مہر ملے گا جو عورت پر خرچ کیا جائے گا نہ کہ اس سے مانگا جائے گا_یہ الگ بات ہے کہ ہر والدین اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت اپنی خوشی سے تحفہ کے طور پر ضروری سامان دیتے ہیں لیکن اس کو جہیز کا نام دے دینا سراسر غلط ہے کیوں کہ جب حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے بیٹی کو ضرورت کے سامان دیئے تھے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے جس کے راوی خود حضرت علی ہیں بیان کرتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز تیار کیا ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ جس میں اذخر کھاس بھرا ہوا تھا”_

عن علی رضی الله عنه قال جهز رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم فاطمة في حميل وقربة ووسادة حشوها ازخر
(سنن نسائی: رقم الحدیث 3386)
مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے اس کا اہم وجہ مرد کا عورت پر مال خرچ کرنا ہی ہے_ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اﷲُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ

ترجمہ:- مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے_
(سورہ: النساء، آیت: 34)
یعنی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو عورت کا حاکم بنایا کیونکہ یہ اس کو مہر دیتا ہے اور اس کا نفقہ ادا کرتا ہے_ لیکن جب کوئی جہیز طلب کرتا ہے تو "النساء قوامون على الرجال” کے مترادف ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی اس پر یہ عذاب مسلط فرما دیتا ہے کہ اس کی بیوی تسخیر شوہر چاہنے لگتی ہے_ گویا آج سماج و معاشرہ میں جو بیویاں اپنے خاوندوں کی عزت نہیں کرتی ان کا کہا نہیں مانتی یہ (طلب جہیز) اسلامی نظام حیات پر عمل نہ کرنا ہے ان باتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ *اسلامی نظام حیات ہی میں فلاح ہے*

ہار کے بھی نہیں مٹی دل سے خلش حیات کی
کتنے نظام مٹ گئے جشن ظفر کے بعد بھی

از قلم : غلام مصطفے رضا نظامی

مزید پڑھیں

کتمان حق شیوۂ یہود

دبستان رام پور کی تفسیری خدمات

جوا کی مذمّت

شیئر کیجیے

Leave a comment