حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ سیرت و کردار کے آئینے میں
طفیل احمد مصباحی
از فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم !!!
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا است
سلطان التارکین ، قدوة الواصلین ، امام المناظرین ، امیر المجاہدین حضرت علامہ الحاج الشاہ حبیب الرحمٰن قادری عباسی اڑیسوی علیہ الرحمہ کی تہہ دار فکر و شخصیت مذکورہ شعر کی مصداق تھی ۔ ہم انہیں جس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں دامنِ دل ان کی مقناطیسی شخصیت کی جانب بلا قصد و اختیار کھِنچنے لگتا ہے اور یہ نتیجہ ہے اس تقدّس مآب اوصاف و کمالات کا جو ان کی زندگی میں ابھرے ہوئے نقوش کی مانند ظاہر اور نمایاں تھے ۔ مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی شخصیت جامع العلوم اور جامع الحیثیات کی ہے ۔ ان کے فضائل و محاسن اور اوصاف و کمالات بیشمار ہیں ، جن میں سے ہر ایک وصف و خصوصیت پر ایک کتابچہ تیار کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے فضل و کمال اور انقلاب آفریں حیات کے ہر ایک پہلو میں انفراد و امتیاز کا عنصر شامل ہے ۔ وہ علم و عمل اور اخلاص و تقویٰ کے بامِ رفیع پر فائز تھے اور اپنے وقت کے ممتاز علماء و مشائخ کے جھرمٹ میں صفِ اول کے عالم اور اپنی نگاہِ کیمیا اثر سے دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کر دینے والے مرشدِ کامل تھے ۔ آپ علم کے ساتھ عمل اور گفتار کے ساتھ کردار کے بھی غازی تھے ۔ آپ دین و دانش کا مرقّع ، تقویٰ و طہارت کا پیکر ، حسنِ اخلاق کا مظہر ، عشق و وفا کا چمکتا آئینہ ، عزم و ہمت کا کوہِ ہمالہ اور ایوانِ نجدیت میں حق و صداقت کی آواز سے زلزلہ پیدا کرنے والے مردِ مجاہد تھے ۔ وہ بلاشبہ ہند میں سرمایۂ ملت کے نگہباں اور دینی اقدار و روایات کو تحفظ فراہم کرنے والے ایک بیباک اور جلیل القدر مجاہد تھے ۔ وقت کی پرواز کا رخ پھیر دینے والے اس مردِ جری نے دینی تحفظ ، ملی استحکام ، جماعتی فلاح و بہبود اور قومِ مسلم کی دینی و اخروی سرفرازیوں کی خاطر جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ، وہ ہماری تاریخ کا ایک زریں باب ہے ۔
مجاہد ملت کی سیرت و کردار کے چند اہم اور تابناک پہلو :
سیرت و کردار بڑی وسیع مفہوم کی حامل ترکیب ہے ، جو انسان کی انفرادی و معاشرتی زندگی ، نیک اعمال و اشغال اور اس کے شخصی احوال و کوائف کے تذکارِ جمیل کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ پیش کرتی ہے ۔ سرکار مجاہد ملت اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔ ان کی زندگی کا ہر ایک گوشہ بڑا تہہ دار اور تابناک ہے ۔ ان کی سیرت و کردار میں اسلافِ کرام جیسی معنویت پائی جاتی ہے ۔ وہ ہاشمی و عباسی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ ان کی رگوں میں ہاشمی خون موجیں مارتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمت و جرات میں وہ ہمیشہ جلالِ مرتضوی اور قومی و ملی قیادت کے معاملے میں اسوۂ شبّیری کا نمونہ پیش کرتے رہے ۔ ان کے بیشمار فضائل و خصوصیات اور ان کی بے مثل سیرت و کردار کے معنیٰ خیز پہلوؤں میں سے چند اہم اور نمایاں پہلو یہ ہیں :
علم و عمل ، اخلاص و تقویٰ ، عشقِ رسول ، عبادت و ریاضت ، اتباعِ سنت ، استقامت علیٰ الشریعت ، زہد و قناعت ، صبر و رضا ، استغناء و توکل ، ہمت و جرات ، احقاقِ حق و ابطالِ باطل کا جذبۂ بیکراں ، حق گوئی و بیباکی ، اولوا العزمی ، بلند ہمتی ، جہاد بالنفس ، جہاد بالمال ، جہاد باللسان ، دعوت و تبلیغ اور اصلاح معاشرہ کے لیے ہمہ دم سرگرداں و کوشاں ، عزمِ محکم ، عملِ پیہم ، جہدِ مسلسل ، سخاوت و فیاضی ، ایثار و قربانی ، تواضع و انکساری ، بے نفسی و سادہ لوحی ، سادگی و بے ریائی ، خدمتِ خلق ، احترامِ اکابر ، اصاغر نوازی ، طاعات و عبادات میں کامل انہماک اور صغائر و کبائر سے حد درجہ نفور و اجتناب ۔
سرکار مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی کتابِ سیرت و کردار کے یہ نہایت درخشاں ابواب ہیں ، جن پر شرح و بسط کے ساتھ بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ۔ یہ مختصر مضمون ان تمام موضوعات کے احاطے کا متحمل نہیں بن سکتا ۔ لہٰذا یہاں ان میں سے چند گوشوں کے ذکر پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے ۔
جہاد بالنفس و جہاد باللسان :
دنیائے اہلِ سنت انھیں ” مجاہدِ ملت ” جیسے مہتم بالشان لقب سے یاد کرتی ہے ، جو مبنی بر حقیقت ہے ۔ وہ اسم با مسمّیٰ مجاہد تھے ۔ ان کی پوری زندگی فکری و عملی جہاد میں گذری ۔ وہ تادمِ حیات جہاد بالنفس اور جہاد باللسان کا مقدس فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ۔
حضرت امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں حدیث نقل فرماتے ہیں کہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجت الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا :
ألا أخبركم بالمؤمن ؟ من أمنه الناس على أموالهم وأنفسهم ، والمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده ، والمجاهد من جاهد نفسه في طاعة الله ، والمهاجر من هجر الخطايا والذنوب .
ترجمہ : کیا میں تمہیں مومن کے بارے میں خبر نہ دے دوں ؟ ( تو سنو ) مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان اور مال کے معاملے میں امان پائیں اور مسلمان وہ ہے ، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں ۔ مجاہد وہ ہے جو اطاعتِ الہٰی میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے ۔
معلمِ کائنات جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلاغت آشنا زبانِ مبارک سے ادا ہونے والی یہ حدیث اپنے اندر بڑی وسعت و معنویت رکھتی ہے ۔ یہ حدیث ” جوامع الکلم ” کا ایک دلکش نمونہ ہے ، جس میں حقائق و معارف کا سمندر موجیں مار رہا ہے ۔ مومن و مسلم اور مجاہد و مہاجر سے متعلق یہ چند جملے قیامت تک لیے پوری دنیائے انسانیت کے حق میں خضرِ راہ اور مشعلِ ہدایت کا کام انجام دیں گے ۔ مذکورہ حدیث میں ” جہاد بالنفس ” کا ذکر آیا ہے ۔ اس سلسلے میں تمہیدًا عرض ہے کہ جہاد بالنفس کے چار مراتب و درجات ہیں :
( ١ ) جہاد بالنفس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں فلاح و بہبود سے ہمکنار ہونے کے لیے انسان سب سے پہلے دین کا علم حاصل کرے اور شریعت کے احکام و مسائل کی تعلیم سیکھ کر اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے ۔ نفس کی فطرت ، راحت و سکون اور آرام طلبی ہے ۔ یہ انسان کو حصولِ علم کی مشقتوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور طرح طرح کے حیلے بہانے ڈھونڈتا ہے ۔ لہٰذا علمِ دین کی راہوں میں قدم رکھ کر سب سے پہلے نفس کے خلاف جہاد کرنا ضروری ہے ۔
( ٢ ) جہاد بالنفس کا دوسرا درجہ ” عمل بالعلم ” ہے ۔ عمل کے بغیر علم کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ علم سیکھنا آسان ہے اور اس علم کے مطابق عمل کرنا سب سے دشوار کام ہے ۔ علم کی روشنی میں عمل کی شاہراہ پر چلنا ، نفس کے ساتھ بڑا جہاد ہے ۔
( ٣ ) جہاد بالنفس کا تیسرا درجہ دوسروں کو علم و عمل کی طرف بلانا اور شرعی احکام کی تعلیم دینا ہے ۔ یہ در اصل دعوت و تبلیغ کا مرحلہ ہے ، جس میں نفسانی خواہشات کو کچل کر شریعت کے مطابق خود بھی زندگی گذارنی پڑتی ہے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم و تلقین کی جاتی ہے ۔
( ٤ ) دعوت و تبلیغ کی دشوار ترین راہوں میں پیش آنے والی مشقتوں اور کلفتوں پر صبر کرنا ، جہاد بالنفس کا چوتھا درجہ ہے ۔
شخصیت کے حسن و قبح پہچاننے کا سب سے بڑا معیار قرآن و حدیث اور شریعت کی میزان ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں جب ہم مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی کتابِ زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی سیرت و کردار کا رخ بڑا حسین و جمیل نظر آتا ہے ۔ وہ مومنِ کامل اور مسلمِ کامل کے ساتھ معنوی لحاظ سے ایک باکمال مہاجر اور اولو العزم مجاہد تھے ۔ وہ اگر چہ مہاجر صرف معنوی اعتبار ( معصیت سے دور و نفور رہنے والے ) سے تھے ، لیکن مجاہد ظاہری اور معنوی دونوں لحاظ سے تھے ۔ نفس کے ساتھ ان کا جہاد ، سب سے بڑا جہاد تھا ۔ وہ تا دمِ حیات اوامرِ الہٰیہ پر عمل پیرا رہے اور منہیاتِ شرعیہ سے دور و نفور رہ کر اپنے نفس کے ساتھ کھلم کھلا جہاد کرتے رہے ۔ یہ ان کا نفسانی جہاد تھا اور جہاں تک ان کے لسانی اور میدانی جہاد کی بات ہے تو یہ اظہر من الشمس ہے ۔
حضور مجاہد ملت کی عدیم المثال شخصیت اور سیرت و کردار کی چند جھلکیاں پیش کرتے ہوئے بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان مبارک پوری لکھتے ہیں :
حضور مجاہد ملت قدس سرہ عدیم المثال مردانِ حق اور خاصانِ خدا میں سے تھے ، جو دستِ قدرت کا شاہکار ہوتے ہیں ۔ ان کے قلبِ مبارک میں عشقِ شاہِ مدینہ اور محبتِ میرِ بغداد کا الاؤ دہک رہا تھا ۔ ان کا سینہ لاہوتی اسرار اور عرفانِ الہٰی کا مدینہ تھا اور دماغ اسلامی فکر و آگہی کا انمول گہوارہ ۔ ان کا چہرہ زندگی بھر شمعِ حق نما کی طرح ظلمتوں کے ہجوم میں مسکراتا رہا اور ان کے پائے عزم و ثبات سے باطل کا طوفان ٹکرا ٹکرا کر پلٹتا رہا ۔ طاقوت کی کوئی طاقت نہ ان کی آواز دبا سکی ، نہ جادۂ حق سے انھیں ہٹا سکی ۔ بلاشبہہ حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ حق کی پکار تھے اور خدا کی آواز ، جو نہ دبنا جانتے تھے اور نہ لچکنا ۔ افسوس ! موت کے ہاتھوں نے وہ آواز دبا دی ۔
( ماہنامہ اشرفیہ ، مبارک پور ، مجاہد ملت نمبر ، ص : ١٤٨ )
حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کا جہادِ فکر و عمل بڑا وسیع اور ہمہ گیر ہے ۔ ان کی پُر وقار سیمابی شخصیت جمود و تعطل کی شکار قومِ مسلم کی بے حسی اور بے راہ روی کو دیکھ کر ہمیشہ بے چین رہی اور اس کے روحانی امراض کا حل اور تریاق ڈھونڈتی رہی ۔ ان کے عزمِ مصمم اور عملِ پیہم نے قوم و ملت کو یہ بھولا ہوا سبق پھر سے یاد دلا دیا کہ : ” زندگی سراپا حرکت و عمل کا نام ہے ” ۔ وہ خود بھی تا دمِ زیست اس فلسفے پر عمل پیرا رہے اور اپنے تلامذہ و مرین کو بھی اس کی تعلیم و تلقین فرماتے رہے ۔ ان فکری و عملی جہاد قابلِ رشک تھا ۔ وہ انقلاب آفریں اور عہد ساز شخصیت کے مالک تھے ۔ اس عالمِ رنگ و بو میں ایسی باکمال شخصیتیں کبھی کبھی اور کہیں کہیں پیدا ہوتی ہیں ۔ اڑیسہ کی سر زمین اور خصوصیت کے ساتھ دھام نگر شریف کی دھرتی ہمیشہ اس بات پر فخر کرے گی کہ اس نے اپنی کوکھ سے مجاہد ملت جیسی نابغۂ عصر اور عظیم المرتبت شخصیت کو جنم دیا ہے ۔ وہ اپنے عزم کی ٹھوکر سے بنجر زمین کو لالہ زار بنانے کا حوصلہ رکھتے تھے ۔ دعوت و تبلیغ ، خدمتِ خلق ، اصلاحِ معاشرہ ، قوم و ملت کے تحفظ و سالمیت ان کی سیرت و کردار کے تابناک پہلو ہیں ۔ جب تک بقیدِ حیات رہے ، انھیں خطوط پر عمل کرتے رہے اور باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے ۔
مجاہدِ ملت بیک وقت شخص بھی تھے اور شخصیت ساز بھی ۔ ایک عہد بھی تھے اور عہد ساز بھی ۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ ان کے بعض تلامذہ ایسے گذرے ہیں جن پر شخصیت سازی و عہد سازی سو جان سے قربان ہے ۔ تقریباً بیس برس مختلف درس گاہوں میں بیٹھ کر علوم و فنون کی خیرات بانٹنے کے بعد آپ نے اپنی ساری توجہ مسلمانوں کے ایمان و عقائد اور ان کی جان و مال کے تحفظ و بقا کی جانب مبذول کردی ۔ جہاد بالنفس کا سلسلہ تو تا عمر جاری رہا ۔ اس کے ساتھ ہی جہاد بالمال اور جہاد باللسان کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے اپنی حیاتِ مستعار کے قیمتی لمحات گذار دیے ۔ جہاں کہیں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوتا آپ شمشیرِ برہنہ بن کر میدان میں آ جاتے اور ظلم و ظالم کے خلاف شدت کے ساتھ مقابلہ کرتے ۔ مسلمانوں کی جان ومال اور ایمان و اعمال کے تحفظ کی خاطر آپ نے الرحمہ نے دو تنظمیں اور تحریکیں قائم کیں ، جو آپ کی مجاہدانہ زندگی کے واضح ثبوت ہیں ۔ ایک کا نام ” آل انڈیا تبلیغ سیرت ” اور دوسرے کا نام ” تحریک خاکساران حق ” ہے ۔
زندگی برائے بندگی کے فارمولے پر عمل :
سرکار مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی قابلِ رشک سیرت اور تابناک اخلاق و کردار کا ایک بہت اہم اور قابلِ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ آپ عہدِ طفولیت سے ہی ” زندگی برائے بندگی ” کے فارمولے پر کار بند رہے ۔ عبادت و ریاضت ، اتباعِ شریعت ، اطاعتِ سنت ، اوراد و ظائف ، ذکر و اذکار ، مراقبہ و محاسبہ ، جہاد بالنفس ، اوامر کا اہتمام اور نواہی سے اجتناب جیسے شرعی امور و معالات میں آپ کا شمار گروہِ اصفیاء و کاملین میں ہوتا ہے ۔ آپ کی بے مثل تقویٰ شعار زندگی اپنے اندر بڑی کشش اور جاذبیت رکھتی ہے ۔ اس دنیائے فانی کے چند روزہ سفر میں آپ تقویٰ کو اپنا زادِ راہ بنایا اور کامیابی و کامرانی کے ساتھ راہیِ ملکِ عدم ہوئے ۔ تقویٰ ایمان کا زیور ، دین کا بیش قمیت سرمایہ اور تمام محاسن و کمالات کا منبع و سرچشمہ ہے ۔ تقویٰ وہ روحانی وصف ہے جو صاحبِ تقویٰ کو عند اللہ و عند الناس معزّز و مکرّم بنا دیتا ہے ۔ کشتِ ایمان و اسلام میں ہریالی و شادابی اسی ابرِ بہاراں کے سبب پیدا ہوتی ہے ۔ ولایت و روحانیت کی نہریں اسی چشمے سے جاری ہوتی ہیں ۔ حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ ایک عالمِ ربانی اور مرشدِ لاثانی تھے ۔ علم و عمل اور اخلاص و تقویٰ جیسے اوصاف سے متصف تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی میں فقراء جیسی قناعت و توکل ، اصفیاء جیسی عبادت و ریاضت اور اتقیاء جیسی اتباعِ سنت و استقامت علیٰ الشریعت جیسے اوصاف پائے جاتے تھے ۔
زندگی برائے بندگی اور آپ کی تقویٰ شعار حیات سے متعلق یہ دو مختصر اقتباس ملاحظہ کریں :
حضرت مجاہد ملت ، سنتِ نبوی کے بڑے زبردست پابند تھے ۔ ( سنت نبوی کی پیروی اور پابندی ہی اصل تقویٰ ہے ) روز مرہ کی زندگی میں کوئی بھی نقل و حرکت سنت کے خلاف نہ تھی ۔ کلوخ بالالتزام لیتے تھے ۔ عمامہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے ۔ عمامہ کبھی بندھا ہوا نہیں رکھتے تھے ، بلکہ کھول کر رکھتے تھے ۔ کھانا نمک سے شروع کرتے تھے اور نمک پر ختم کرتے تھے ۔ سفر و حضر میں نمازِ باجماعت کے سختی سے پابند تھے ۔
*( ماہنامہ اشرفیہ کا مجاہد ملت نمبر ، ص : ١٤٦ )*
حضرت مفتی نظام الدین الہٰ آبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
حضرت مجاہد ملت ہمیشہ ذکر الٰہی یعنی پاسِ انفاس میں مشغول رہتے ۔ حضرت کی پوری زندگی پر نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی بلندیِ کردار کا راز ذکرِ الہٰی تھا ، جس نے انہیں فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول کی منزل پر فائز کر دیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ نہ ان کو کوڑے کاخطرہ تھا اور نہ بیڑی کا خوف ۔
*( مختصر حیات مجاہد ملت ، ص : ٨٣ )*
مجاہد ملت ؛ فنا فی اللہ و فنا فی الرسول کی حیثیت سے :
سرکار مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی سیرت و سوانح اور اعلیٰ اخلاق و کردار کا سب سے اہم اور قابلِ ذکر وصف یہ ہے کہ وہ ” فنا فی اللہ ” و ” فنا فی الرسول ” کے بلند ترین مقام و منصب پر فائز تھے ۔ ان کے جملہ اوصاف و کمالات کا مرکز و محور اور ان کی ساری علمی ، دینی اور تحریکی کارگذاریوں کا مبدا و منبع یہی روحانی جذبات ہیں ۔ ان کے سینے میں حبّ ِ خدا وندی اور عشقِ مصطفائی میں دھڑکنے والا دل تھا ، جو ہر لمحہ انہیں بے چین رکھتا ۔ ان کی زندگی الحب فی اللہ و البغض فی اللہ کا آئینہ اور ان کا سینہ عشقِ شہِ بطحا کا مدینہ تھا ۔ خدائے قادر و قیوم نے انہیں بلالِ حزیں کے جذبۂ عشق اور اویس قرنی کے ذوقِ جنوں سے نوازا تھا ، جس کے سبب ان کی زندگی مکمل بندگی کی شکل میں متشکّل ہوگئی تھی ۔ عزم کی ٹھوکروں سے سنگِ بے مایہ کو گوہرِ آبدار بنانے والی آپ کی شخصیت کے رنگ و روپ میں ہر جگہ یہی جذبۂ عشق کار فرما نظر آتا ہے ۔ عبادت و ریاضت ، مجاہدہ و مراقبہ ، اتباعِ شریعت ، اطاعتِ سنت ، سفر ہو یا حضر ہمیشہ ہر حال میں فرائض و واجبات اور سنن کی ادائیگی کا غایت درجہ اہتمام ، یہ سارے امور عشقِ صادق اور ان کے ” فنا فی اللہ و فنا فی الرسول ” ہونے کے عملی مظاہر ہیں ۔
عوام و خواص سمیت آج پوری دنیائے اہلِ سنت حضور مجاہد ملت کی ہمت و جرات ، حق گوئی و بیباکی اور ان کے مجاہدانہ تیور کا خطبہ پڑھتی ہے ۔ کیوں ؟ صرف اس لیے کہ ان کے دل میں خشیتِ الہٰی کا طوفان موجزن تھا اور ان کے سینے میں عشقِ رسالت کا چراغ روشن تھا ۔ خدا سے ڈرنے والا کسی سے نہیں ڈرتا ۔ وہ دنیا کی ہر طاقت سے ٹکرا جاتا ہے اور ہر باطل قوت کا پنجہ مروڑ دیتا ہے ۔ مجاہد ملت کے دل سے خوفِ خداوندی کے اٹھنے والے طوفان نے بھی یہی کام کیا کہ مخالف ہواؤں اور باطل طوفانوں کا رخ پھیر دیا اور ان کے دل میں روشن شمعِ عشقِ رسالت کی تجلیوں نے انسانی قلوب و اذہان کو منور کر دیا ۔
خدا سے ڈرنے والا سچا عاشقِ رسول کبھی دنیا کی پرواہ نہیں کرتا ۔ وہ بزدل نہیں ، بلکہ دلیر ہوتا ہے ۔ ان کی فطرت میں روباہی نہیں ، بلکہ شیروں جیسی دلیری و بلند حوصلگی ہوتی ہے ۔ مجاہد ملت کی رگ رگ میں جذبۂ عشقِ رسول خون بن کر گردش کرتا تھا اور اسی سرمایۂ عشق کو ہتھیار بنا کر وہ زندگی بھر حکومتِ وقت کو چیلینج کرتے رہے ۔ عظمتِ توحید اور ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے والوں کے خلاف جہاد کرتے رہے اور میدانِ مناظرہ میں انہیں پچھاڑتے اور شرمناک ذلتوں سے دوچار کرتے رہے ۔ انہیں ” قدوة الواصلین ” ؛ ” برہان العارفین ” اور ” سراج السالکین ” کا معزز خطاب اس لیے ملا ہے کہ وہ اپنے وقت کے سچے عاشقِ رسول اور ” فنا فی اللہ و فنا فی الرسول ” کے بامِ رفیع پر فائز تھے ۔
قوم و ملت کی قیادت و سربراہی :
مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی مجاہدانہ زندگی ” یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم ” سے عبارت تھی ۔ مصافِ زندگانی میں یہی اجزائے ثلاثہ ان کے لیے شمشیرِ آبدار تھے ، جس سے وہ تا دمِ حیات مسلم مخالف قوتوں سے نبرد آزما رہے اور ہر محاذ پر فتح و کامرانی کے پرچم لہراتے رہے ۔ درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے علاوہ عملی سیاست میں حصہ لے کر قوم و ملت کے مفادات کو تحفظ و استحکام عطا کرنے والے علماء و قائدین میں آپ کا نام بھی شامل ہے ۔ آپ کے اندر قومی و ملی قیادت کا جوہر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ آپ اپنے وقت بے باک مجاہد ، نڈر عالم اور عدیم المثال قائد تھے ۔ آپ کے سیاسی شعور اور قائدانہ بصیرت کا ایک جہاں قائل ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی ایمان و اسلام پر حملہ ہوا یا مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد کا بازار گرم ہوا ، آپ فورًا ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ” تحریک خاکسارانِ حق ” کی فوج لے کر پہنچ گئے اور دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ۔
قیادت کا مفہوم یہ ہے کہ دینِ اسلام پوری روئے زمین پر جو نظامِ حیات رائج و نافذ کرنے کا خواہاں ہے ، اس کو برقرار رکھتے ہوئے اعلیٰ دینی مقاصد اور جائز انسانی مفادات کے حصول کی کوشش کرنا ۔
قائد و رہنما کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو ۔ وہ حسن اخلاق اور خوبیِ کردار کے زیور سے آراستہ ہو ۔ حق گو اور بے باک ہونے کے ساتھ انصاف پسند ہو ۔ دور رس ، دور بیں ، دور اندیش اور معاملہ فہم ہو ۔ حالاتِ حاضرہ اور ملکی سیاست پر عقابی نظر رکھتا ہو ۔ امانت و دیانت دارہو ۔ قوم کا سچا ہم درد اور ملت کا بہی خواہ ہو ۔
مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی کتابِ زندگی کا ہر ایک ورق گواہ ہے کہ آپ کے اندر مندجہ بالا قائدانہ شرائط و اوصاف بدرجۂ اتم موجود تھے ۔ آپ کی قائدانہ سرگرمیوں اور اعلیٰ مسلم قیادت کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ یہاں صرف ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے ، جس سے آپ کی قائدانہ بصیرت ، قومی و ملی تحفظ و سالمیت کا جذبہ ، حکمتِ عملی اور آپ کی غایت درجہ دور اندیشی کا پتہ چلتا ہے ۔
مولانا وارث جمال قادری قادری لکھتے ہیں :
ایمرجنسی ( ۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۷ء) کے آغاز میں جب حکومت کی طرف سے ” جماعتِ اسلامی ” پر پابندی لگی تو مجاہد مِلَّت علیہ الرحمہ ممبئی تشریف لائے اور ” آل انڈیاتبلیغِ سیرت ” کی جانب سے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سخت احتجاج کیا ۔ مجاہد ملت نے ہانڈی والی مسجد ( ممبئی ) میں مجھے بلایا اور الگ لے جا کر کہنے لگے : مولوی صاحب ! سنا ہے کہ تم لکھنا جانتے ہو ۔ تو ایسا کرو کہ ایک خط آل انڈیا تبلیغِ سیرت کی طرف سے وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کے نام اس مفہوم کا اپنے طور پر لکھ کر ابھی ابھی میرے پاس لاؤ ۔ میں نے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور ! یہ ” جماعت اسلامی ” تو وہابیوں کی جماعت ہے ۔ اس کے لیے آپ کو اور ہمیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ بھگتنے دیجیے انھیں کو ۔ اچھا ہوا جو حکومت نے پابندی لگا دی ، کچھ تو زور کم ہوگا اس کا ۔ اور آپ ہیں کہ پوری جماعت کے ساتھ اس کے لیے احتجاج کرنے جا رہے ہیں ۔ مجاہد ملت مسکرا کر فرمانے لگے : مولوی صاحب ! ابھی تم بچے ہو ۔ وقت تمہیں سمجھا دے گا۔ ہمارا یہ احتجاج در حقیقت ” جماعت اسلامی ” کی حمایت کے لیے نہیں ہے ، بلکہ ” تحریکِ خاکسارانِ حق ” اور ” آل انڈیا تبلیغِ سیرت ” کے لیے ہے ۔
اگر اسی مرحلے میں حکومت کو نہیں روکا گیا تو اس کے بعد ” تحریکِ خاکسارانِ حق ” کی باری آئے گی ۔ پھر ” تبلیغِ سیرت ” کے گلے میں پَھندا ڈالا جائے گا ۔ مولوی صاحب ! ہماری تحریک ” خاکسارانِ حق ” حکومت کی نظر میں بہت زیادہ کھٹکنے لگی ہے اور بڑے بڑے لیڈروں کی زبان پر اس کانام آنے لگا ہے ۔ ابھی فیروز آباد فساد ( اترپردیش ) میں جو پی . اے . سی . سے کنٹرول نہیں ہو رہا تھا بلکہ وہ جانب دارانہ رول ادا کر رہی تھی ، اُسے ” تحریک خاکسارانِ حق ” نے کنٹرول کیا اور پی اے سی کو جانب داری برتنے سے بزورِ طاقت روک دیا ، جس سے مسلمانوں کو بڑا تحفظ ملا ۔
وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے اس پر ” خاکسارانِ حق ” کا شکریہ ادا کرنے اور شاباشی دینے کے بجائے آل انڈیا ریڈیو پر تقریر کرتے ہوئے فیروز آباد فساد کا ذِمَّہ دار ” تحریکِ خاکسارانِ حق ” کو ٹھہرایا ہے ، جس پر ہمارے کان اُسی وقت کھڑے ہوگئے تھے ۔ لہٰذا ایسی صورت میں ” جماعتِ اسلامی ” کے لیے حکومتِ ہند کے خلاف احتجاج اور ضروری ہو جاتا ہے ۔ ورنہ ایک ایک کر کے سبھی جماعتوں پر حکومتِ ہند پَھندا کستی چلی جائے گی ۔
*( ماہنامہ کنزالایمان ، دہلی مارچ ٢٠٠٤ء ، ص : ٤٠ )*
مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی قیادت اور بے داغ سیاست ، سیاستِ سلطانی کے بجائے سیاستِ مذہبی کا حصہ تھی ، جس کا واحد مقصد قومی و ملی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا اور قوم و ملت کے عروج و استحکام کے راستے ہموار کرنا تھا ۔ وہ سیاست کے اصول اور اس کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف تھے ۔ سیاست کے متعدد اصول ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اعدائے دین کے جبر و تشدد اور ان کی ظالمانہ کار روائیوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیشہ اپنے پاس ایسی قوت و جمعیت اکٹھی رکھی جائے ، جو وقتِ ضرورت مدافعت کا فریضہ انجام دے سکے ۔ آپ نے اسی مقصد کے تحت دو تحریکوں کی بنیاد رکھی ۔ ” تحریک خاکسارانِ حق ” اور ” تبلیغ سیرت ” اور ان کے بینر تلے امت مسلمہ کے حقوق کی لڑائی لڑتے ہیں ۔ آج NRC . CAA . NRP .کو لے کر ملک کی حالت نہایت تشویش ناک ہے اور مسلمانانِ ہند خوف و اضطراب کے ماحول میں جی رہے ہیں ۔ ہماری بے حس مسلم قیادت خاموش ہے اور صرف احتجاج و مظاہرہ پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے ۔ ہمارا وجدان گواہی دیتا ہے کہ اگر آج مجاہد ملت زندہ ہوتے تو اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں سے حکومتِ وقت کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے اور یہ ظالمانہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیتے ۔
پھر مجاہد سا جری تو بھیج ہم میں اے خدا
ظلم کے چنگل سے ملت کو چھڑانے کے لیے
( طفیل مصباحی )
مجاہد ملت کی ہمہ گیر سیاست و قیادت کے حوالے سے ماہنامہ اشرفیہ کے ” مجاہدِ ملت نمبر ” کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں :
مجاہد ملت کی پاکیزہ ، شخصیت ، بے داغ زندگی اور ان کی بے لوث جد و جہد کے نقوشِ جمیلہ الہٰ آباد ، کان پور ، پٹنہ ، جبل پور ، کٹک اور ممبئی سے لے کر کلکتہ تک خورشیدِ سحر کی طرح تابناک ہیں ۔ جن میں نہ سیاسی سربلندی و سرفرازی کی ہوس ہے اور نہ قیادت کی خواہش اور للک ، بلکہ بے نفسی اور اخلاصِ قلب کے ساتھ ہر موڑ پر آپ سامنے آئے اور مسلمانوں کو آبرو مندانہ زندگی بخشنے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر کے مخالفانہ ماحول اور نازک حالات میں بھی سینہ سپر ہو کر اپنی عدیم النظیر جرات و جسارت سے قوم کے نوجوانوں کو درس شجاعت دیتے رہے اور ان کے خفیہ جذبات کو بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح ان کی رگوں کا خون گردش میں آئے اور اپنی قوت بازو سے ایک جہانِ نو کی تعمیر میں لگ جائیں ۔ اس عہدِ اخیر میں ایک متبحر اور صاحبِ فکر و بصیرت عالم دین اور مخلص و بے غرض خادم قوم کی حیثیت سے آپ ملتِ اسلامیۂ ہند کی کشتی کے کھیون ہار تھے ۔ ہر حال میں آپ وہی کرتے جس کی اجازت شریعت مطہرہ کی بارگاہ سے ملتی ۔ تدبیر و سیاست کا جوہر ان کے اندر وہ تھا ، جس کا تعلق مومنانہ فراست سے ہے ۔
دھوکہ بازی و فریب کاری ، خیانت و بد عہدی اور کذب بیانی و ضمیر فروشی جو عصر حاضر کا خمیر ہے ، اس سے کبھی آپ کی زبان آلودہ ہوئی اور نہ ہی ایسے خیالات کو کبھی دل میں جگہ دی ۔ شب و روز آپ مسلمانوں کے پیچیدہ مسائل میں الجھے رہتے اور فکر امت ہی میں غلطاں و پیچاں رہتے کہ یہی ان کی غذا اور ان کی خوراک تھی اور اسی میں وہ اپنی صحت و عافیت سمجھتے تھے ۔ سچ یہ ہے کہ قائدینِ اہل سنت کا وہ مبارک سلسلہ آپ کی ذات پر ختم ہے ، جس کے پیچھے اوصاف و کمالاتِ دینی و علمی کا ایک کارواں نظر آتا ہے ۔
*( ماہنامہ اشرفیہ کا مجاہد ملت نمبر ، ص : ٢٨٩ – ٢٩٠ )*
ایثار و قربانی اور خدمتِ خلق :
حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی پوری زندگی درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ ، مناظرہ و مجاہدہ ، خدمتِ دین اور خدمتِ خلق میں گذری ۔ ان کے جذبۂ ایثار اور بے مثال قربانیوں کو دیکھ کو اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ ان کی تصوف آشنا زندگی میں صبر و رضا ، قناعت و توکل ، ایثار و قربانی ، جود و سخا اور اپنے وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے ” خدمتِ خلق ” کے سینکڑوں واقعات موجود ہیں ۔ مال و دولت کی فراوانی تھی ۔ رئیسِ اعظم اڑیسہ تھے ، بایں ہمہ پوری زندگی قناعت و سادگی میں بسر کی ۔ عالی شان محل کے بجائے اپنی حیاتِ مستعار کے ایام ایک معمولی جھونپڑی میں گذارے ۔ اپنی تونگری پر درویشی کی چادر ڈال رکھنے والے اس مردِ قلندر نے کبھی اپنے مفاد کا خیال نہیں رکھا ، بلکہ ہمیشہ اپنی تمام تر سرگرمیاں قومی و ملی مفادات کے حصول و تحفظ کے لیے جاری رکھیں ۔ اغیار کی گالیاں سنی ، طمانچے کھائے ، لہولہان ہوئے ، بارہا قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں ، جان ، مال ، عزت و آبرو اور وقت کی قربانیاں دیں ۔ آخر کس لیے ؟؟؟
دین و سنیت کے تحفظ و بقا اور مسلمانانِ ہند کے روشن مستقبل کے لیے ۔ سادہ لوح مسلم عوام کو پنجۂ جبر و استبداد سے چھڑانے اور ان کے جائز حقوق کی بازیابی کے لیے ۔ آپ کے قابلِ رشک جذبۂ ایثار اور عدیم المثال قربانیوں کی داستان سے تاریخ کے صفحات رنگین ہیں ۔ خدمتِ خلق آپ کا مقصدِ حیات اور ایثار و قربانی آپ کا طرۂ امتیاز رہا ۔ تصوف و طریقت کی حیات بخش تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنی ذات سے بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچایا جائے اور زیادہ سے زیادہ ” خدمتِ خلق ” کا مقدس فریضہ انجام دیا جائے ۔
تصوف بجز خدمتِ خلق نیست
بہ تسبیح و خرقہ و دلق نیست
راہِ تصوف کی تین منزلیں ہیں :
( ١ ) علم ( ٢ ) عمل ( ٣ ) موہبت یعنی عطاء و بخشش
مخدومِ بِہار حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری قدس سرہ کی ” شرحِ آداب المرین ” میں فرماتے ہیں کہ :
تصوّف کی ابتدا علم سے ہے اور اس کا اوسط عمل ہے اور انتہا موہبت ہے ۔ یعنی گروہِ صوفیہ اوّلاً علمِ شریعت خالص اللہ تعالی کے لیے حاصل کرتا ہے ، پھر خالص اللہ تعالی کے اس علم پر عمل کرتا ہے ۔ اس کے بعد آخر میں بخشش و انعام کے طور پر وہ قربِ خداوندی کے لائق گردانا جاتا ہے ۔
حضور مجاہد ملت کا صوفیانہ مسلک و مشرب بھی یہی تھا ۔ انھوں نے سب سے پہلے علمِ شریعت حاصل کیا اور علم کے مطابق عمل کر کے انعامِ حق تعالی کے مستحق ہوئے اور قربِ خداوندی کی مسندِ اعلیٰ پر متمکن ہوئے ۔ لیکن آپ کی زندگی میں راہِ تصوف کی تیری منزل ” موہبت ” یعنی انعام و بخشش کا ایک قابلِ ذکر نکتہ یہ بھی ہے کہ آپ کو بارگاہِ رب العزت سے جو بخشش و انعام مرحمت ہوا ، اس کا فیضان آپ نے بندگانِ خدا میں بھی تقسیم فرمایا ۔ چنانچہ آپ نے اپنے علم ، اپنی دولت اور اپنے جاہ و منصب سے لوگوں کو خوب فائدہ پہنچایا ۔ آپ کی سخاوت و فیاضی اور کشادہ قلبی کا زمانہ معترف ہے ۔ آپ کا بحرِ جود و سخا ہمیشہ موجزن رہا اور تشنہ لبوں کو سیراب کرتا رہا ۔ آپ کے گلشنِ ایثار میں کبھی خزاں کا دور نہ آیا ، بلکہ امتدادِ ایام کے ساتھ اور بھی بَہار آفریں ہوتا گیا ۔
مجاہد ملت نمبر کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں :
غیر مذہبی علاقوں میں دینی امنگ پیدا کرنا ، مساجد تعمیر کرانا اور تعلیمی ادارے قائم کر کے علم و عرفان کی جوت جگانا ، حضرت مجاہد ملت کا خاص مشغلہ تھا ……………..
آپ مال کے جتنے دھنی اور رئیس تھے ، اس سے کہیں زیادہ نفس کے غنی اور رئیس تھے ۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ میں مال پر ، غنا پر نفس کا استغنا حاوی اور غالب نظر آتا ہے ۔ مال کے استحصال اور غنا و ثروت میں اضافہ کی طرف کبھی آپ کا رجحان نہ ہوا ، بلکہ جو بھی تھا ، اسے دین کی راہ میں اور حاجت مندوں کی حاجت روائی میں صرف کرتے رہے ۔ آپ کا غنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غنا کی مانند تھا ۔ اس غنا سے اپنی ذات کو کم اور دوسروں کو زیادہ فائدہ پہنچانا آپ کا خاص شیوہ تھا ۔ آپ سے جو لوگ قریب رہے ہیں ، وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ ضرورت مندوں کی کس قدر ضروریات پوری فرماتے اور ناداروں کی حاجت روائی فرماتے ۔ کتنے مفلوک الحال خاندانوں کی عورتوں کے نکاح کا بندوبست فرماتے ۔ کتنے ہی ایسے مدارس و مکاتب ملیں گے ، جن کا آپ بھر پور تعاون فرماتے تھے اور عام طور سے علماء چندہ لیتے ہیں ، لیکن آپ چندہ دیتے تھے ……………………
آپ نے اپنا سارا اثاثہ اور اپنا تمام مال و زر تعمیرِ مساجدِ اور فروغِ مدارس کے لیے وقف کر دیا ۔
*( مجاہد ملت نمبر ، ص : ٣٢٣ – ٣٤٢ – ٣٨٣ )*
آج حضور مجاہد ملت کے اس جذبۂ ایثار و قربانی ، مشغلۂ خدمتِ خلق اور ان کی بے مثال سیرت و کردار کے مذکوہ پہلوؤں کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔
از قلم: محمد طفیل احمد مصباحی
+91- 84 16 96 09 25