حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ العالی کا علمی وتحقیقی جہان
از:توفیق احسنؔ برکاتی [استاذ جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور، اعظم گڑھ]
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ کا علمی وفقہی فیضان ان کے ممتاز تلامذہ بالخصوص صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کے توسط سے پورے عالم اسلام میں پہنچا۔ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے شاگردوں میں دو نام آفتاب و ماہتاب بن کر مطلع علم و تدریس بن کر چمکے؛ حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی اور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد گورداس پوری علیہما الرحمہ۔ اِن دو علما کا علمی فیضان پورے بر صغیر کو مالامال کر رہا ہے اور مدارس اسلامیہ کے اکثر اساتذہ ان کے تلامذہ کے سلسلۃ الذہب میں شامل ہیں۔ ان علما کا تعلیمی و تدریسی آسمان بھی روشن ہے اور فقہی وتحقیقی گلشن بھی لالہ زار ہے۔ انھوں نے اپنے اساتذہ سے نہ صرف تعلیم و تنظیم کا سلیقہ سیکھا ، بلکہ تحقیق و تدقیق، تصنیف وتالیف ، بحث ومناظرہ ، اخلاص کے ساتھ تبلیغ مذہب اور اشاعت مسلک امام احمد رضا کا سچا جذبہ بھی اپنے دلوں میں جوان رکھا۔ ذرا اس تاریخی تسلسل پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ علما درس گاہ میں تشنگانِ علومِ نبوت کی علمی تشنگی بھی بجھا رہے ہیں ، فقہ وحدیث ، منطق وکلام ، نحو وبلاغت وغیرہ علوم وفنون کی بڑی کتابوں کا درس بھی دیتے ہیں اور دینی محافل میں پہنچ کر اپنے مواعظِ حسنہ سے عوامِ اہل سنت کے دین وایمان کی حفاظت بھی کرتے ہیں ، امت کے ملی وسماجی مسائل کے حل کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں اور سیاسی اتھل پتھل پر تنقیدی نگاہ بھی رکھتے ہیں۔ دارالافتاء میں بیٹھ کر مسائلِ زندگی کا شرعی حل بھی تحریر کرتے ہیں اور دارالقضا میں جاکر مقدمات کا فیصلہ بھی کرتے ہیں۔
امام احمد رضا قادری قدس سرہ نے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کو غیر منقسم ہندوستان کا چیف قاضی اور برہان ملت مفتی برہان الحق جبل پوری اور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا نوری علیہما الرحمہ کو ان کا معاون مفتی منتخب فرمایا تھا۔ استاذ گرامی سراج الفقہاء حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی دام ظلہ العالی کو ان تینوں بزرگانِ علم ومعرفت کا فیضان مل رہا ہے۔ آپ براہ راست مفتی اعظم ہند کے مرید ، برہان ملت کے خلیفہ اور بالواسطہ صدرالشریعہ کے شاگرد ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی تینوں نسبتیں ہیں جن کی بنیاد پر آپ ایک ماہر الکلام استاذ، مایہ ناز مفتی، ممتاز محقق، کثیر التصانیف مصنف ، تجربہ کار قاضی اور فقہی و تحقیقی مجالس کے کامیاب ناظم کی حیثیت سے مقبول ومعروف ہیں اور اللہ ورسول [جل جلالہ وصلی اللہ علیہ وسلم] کے فضل وکرم سے آپ یہ تمام ذمہ داریاں بیک وقت نبھا رہے ہیں۔ آپ ملک کی عظیم دینی دانش گاہ جامعہ اشرفیہ کے صدر المدرسین، شارح بخاری دارالافتاء کے صدر مفتی اور مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ کے ناظم ہیں۔ مجلس شرعی کے فقہی سیمیناروں میں ایک مقالہ نگار، ایک باحث اور ایک منتظم کی حیثیت سے ان کی شرکت اور بھرپور حصہ داری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ فقہی نشستوں میں ان کی نظامت وقت بھی بچاتی ہ ، منتشر بحثوں کو سمیٹتی ہے اور دلائل وشواہد کی اجالے میں مختلف الآراء مندوبین کو ایک نقطہ اتحاد پر جمع بھی کر دیتی ہے۔
طالب علمی کے دور آغاز میں ’’فن منطق ‘‘میں آپ کو دل چسپی تھی لیکن جب ’’علم فقہ‘‘ کی روحانیت نے آپ کو متاثر کیا تو اسی کے اسیربن کر رہ گئے۔ فقہ وافتا میں کمال پیدا کیا ، درس نظامی کی تکمیل کے بعد جامعہ اشرفیہ کے شعبہ تحقیق فی الفقہ میں داخل ہوئے اور شعبے کا پہلا تحقیقی مقالہ ’’فقہ حنفی کا تقابلی مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی میں ‘‘قلم بند کیا۔ پھر آپ کی دماغی شریانوں میں صدر الشریعہ کا فقہی جمال ، برہان ملت کا علمی تبحر، مفتی اعظم ہند کا روحانی جلال، حافظ ملت کا استاذی کمال اوربحرالعلوم کا اسلوبی آہنگ پوری جولانیت کے ساتھ دوڑے لگا، جس کی حرارت آج تک قائم ہے۔
ایک سو تیس سے زائد علمی وتحقیقی مقالات ، تین درجن سے زائد کتابیں ، مرتبہ کتابوں پر گراں قدر تحقیقی مقدمے اور عربی تعلیقات معرض وجود میں آ چکی ہیں اور ہنوز یہ سفر تحقیق جاری وساری ہے۔ فتویٰ نویسی کے میدان میں تقریباً چالیس سال گزار چکے ہیں اور دس سے زائد ضخیم جلدیں آپ کے تحریر کردہ فتاویٰ کی تیار ہوچکی ہیں۔ پورے ملک میں آپ کے فتاویٰ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ہر سال شعبہ تحقیق جامعہ اشرفیہ سے کئی درجن طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں جو آپ کی نگرانی میں رہ کر مشق افتا کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ چراغ مسلسل روشنی بکھیر رہا ہے اور دنیاے علم منور ہو رہی ہے۔
جدید مسائل کی تحقیق میں آپ ( سراج الفقہاء )کو ید طولیٰ حاصل ہے۔ اس سلسلے میں امام احمد رضا قادری کی تحقیقات کو دِقت نظر سے پڑھنا اوران سے اخذ واستفادہ آپ کی اولین کوشش رہتی ہے۔ اور یہی سبق اپنے شاگردوں کو بھی ازبر کراتے ہیں۔ آپ کا کہنا :’’امام احمد رضا کا ایک ایک لفظ حجت و دلیل ہے۔‘‘اور : ’’میں نے ہدایہ اور فتاویٰ رضویہ سے فقہ سیکھا ہے۔‘‘ بالکل مبنی بر حقیقت ہے۔ ان دو جملوں کے شواہد آپ کے علمی وتحقیقی مقالات اورکتابوں میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ حضرت کا وجود مغتنمات روزگار ہے۔ اللہ انھیں عمر دراز عطا فرمائے،آمین۔