ہاں مجھے عشق ہے
مسرور احمد قادری
یہ آج سے چار پانچ سال پہلے کی بات ہے جب میں ایک تنہا شخص کی حیثیت سے زندگی کے شب و روز گزار رہا تھا۔ نہ مجھے دنیا کی فکر تھی اور نہ ہی دین و ملت کی بس! ایک بے خبر کی طرح زندگی کے ایام کاٹ رہا تھا پھر ایک وہ وقت آیا جس سے کبھی نہ کبھی ہر خاص و عام دو چار ہوتا ہے۔ یعنی میں بھی ایک دلفریب سے دل لگی کر بیٹھا اور دھیرے دھیرے مجھے اس سے بلا کا عشق ہو گیا۔ یوں تو میں اس کو بچپن ہی سے جانتا تھا اور اس سے تھوڑے بہت تعلقات بھی تھے پر مجھے ان دنوں اس سے عشق نہیں ہوا تھا۔
یہ مبارک حادثہ اس وقت پیش آیا جب میں نے چند عاشقوں کی سوانح کا مطالعہ کیا پھر کیا تھا میرے عشق میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا اور اب حال یہ ہے کہ اُس کے بغیر زندگی کے نشیب و فراز گزارنا ہی نہیں چاہتا۔میری خواہش ہے کہ میں اسے مکمل حاصل کر لوں اس لئے میں اُس سے چاہے روز تھوڑی ہی گفتگو کروں پر کرتا ضرور ہوں ۔۔۔۔۔۔
اس نے مجھے اپنی اداؤں سے پاگل بنا رکھا ہے وہ تلخ کلام بھی ہے اور شیریں مزاج بھی، وہ رحم دل بھی ہے اور نرم و نازک بھی، پہلے پہل تو میں اس کی جانب توجہ ہی نہیں دیتا تھا لیکن جب میں اس کے قریب ہوا تو وہ مجھ سے اور ہی قریب ہوتی چلی گئی مانو جیسے وہ میری طرف سے پہل کرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ پھر ہماری باتیں شروع ہوئی کبھی یہ باتیں دیر رات تک چلتی تو کبھی مختصر سے لمحات ہی میں ختم ہو جاتی۔ مجھے یقین ہی نہیں تھا کہ اتنی جلدی اس کی باتیں میرے فکر و ذہن میں انقلاب پیدا کر دیں گی۔ اُس نے مجھے جینے کی راہ دکھائی، مجھ بے خبر کو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے سوچنے پر مجبور کیا، اس نے میرے سنگ دل کو امت مسلمہ کے درد میں دھڑکنا سکھایا، معاشرے میں پھیلی برائیوں کے سد باب کے لئے اس نے مجھے غور و فکر کرنے پر ابھارا، اس نے مذہب اسلام کے دفاع کے لئے میرے سامنے دلائل و براہین کے انبار لگا دیے، اس نے مجھے غیروں کی دسیسہ کاریوں سے ہوشیار کیا،۔ اس نے میرے فہم و ادراک کو ایک نئی جلا بخشی، اس نے مجھے معاشرے میں مثبت اثر پیدا کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے مطالعہ کی طرف راغب کیا اور بتایا کہ اگر تم تبلیغ دین کا کام سر انجام دینا چاہتے ہو تو حضور کی سیرت کا گہرائی سے مطالعہ کرو۔۔۔۔۔۔۔
اس نے میری تاریک زندگی کو حضور علیہ السلام کے اخلاق و کردار سے مزین کیا عجز و انکساری،خوف و خشیت، عفو و درگزر، صبر و استقامت، ہمت و حوصلہ جیسے نایاب اسلحوں سے لیس کیا۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے مسائل سے جو تھوڑی بہت واقفیت حاصل ہوئی یہ اسی کے فضل و کرم کی بدولت ہے; ہاں مجھے عشق ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ ہی فیصلہ کریں اس طرح قدم قدم پر رہنمائی کرنے والی سے کون نا محبت کر بیٹھے اگر میری جگہ پر آپ ہوتے تو یقیناً آپ کو بھی اس سے عشق ہو ہی جاتا بہر حال آپ کو عشق ہو یا نہ ہو مجھے تو ہو گیا ہے اس لیے میں نے یہ عزم کر لیا ہے کہ جب میں ازدواجی زندگی سے منسلک ہو جاؤں گا تب میں ایک نہایت خوبصورت کمرہ تیار کروں گا جس میں اس کے اور میرے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہوگا پھر میں دیر رات تک اس سے گفتگو کروں گا اور اس کے فکر و خیال میں ڈوبا رہوں گا۔۔۔
اچھا ایک منٹ! پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟
کہیں آپ کسی اور کے خیال میں گم تو نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اپنے خیال کے پرواز کو لگام لگائیں میں یہاں کسی اور کا ذکر نہیں بلکہ کتابوں کا تذکرہ کر رہا ہوں جی ہاں! یہ کتابیں ہی تو ہیں جو تنہائیوں میں ہمارا مکمل ساتھ دیتی ہیں، یہ کتابیں ہی تو ہیں جو ہمارے فکر و خیال کو نئی سمتوں کی جانب رواں دواں رکھتی ہیں، یہ کتابیں ہی تو ہیں جو ہمیں بات کرنے کا سلیقہ رہنے سہنے، کھانے پینے کا طریقہ سکھاتی ہیں یہ کتابیں ہی تو ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ معاشرے میں ایک با اثر شخص کی حیثیت سے کس طرح زندگی گزاری جائے یہ کتابیں مستقبل میں ملت کے فلاح و بہبود کے لیے نت نئے منصوبے بنانے کی ترغیب دیتی ہیں یہ کتابیں ہی تو ہیں جو حالاتِ زمانہ کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتی ہیں یہ کتابوں ہی کا وصف ہے کہ وہ ایک کم عقل کو فہم و فراست کا مالک بنا دیتی ہیں اسی کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ادا جعفری لکھتی ہیں ” بچپن میں کتابوں نے میرے ساتھ مسیحائی کا کام کیا میں نے حرف کی سر گوشیاں سنیں، لفظ کو اپنے بھید بتائے، میں نے کتابوں کو انسان کے مقابلے میں حیات سے زیادہ قریب تر دیکھا ہے”
اور ایک جگہ ورجینیاوولف مطالعے کی افادیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں” ایک ہزار کتابیں پڑھیے، پھر آپ کے الفاظ میں دریاؤں سی روانی آجائے گی "
اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ ہم بھی کتابوں سے محبت کریں تاکہ ہماری حیات کو نئی روشنی حاصل ہو اور ہم زمانہ کے ماضی حال اور مستقبل کے زاویوں سے آشنا ہو سکیں
ہاں مجھے عشق ہے