حافظ ملت : ایک علمی جہان
توفیق احسنؔ برکاتی
[جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور، اعظم گڑھ]
یقینِ محکم اور عملِ پیہم کے ساتھ جب کوئی بندۂ خدا مذہب وملت کی خدمت کا جذبۂ بیکراں لے کرمستقبل کے لیے منصوبہ سازی کرتا ہے اور اپنے بنائے ہوئے خاکوں میں رنگ بھرتا ہے تو اس کی یہ رنگ آمیزی رائیگاں نہیں جاتی، اس کا جذبۂ اخلاص اس کی قوتِ ارادی کو مہمیز دیتا ہے اور وہ اپنے منصوبوں کی تکمیل میں کامیاب ہوجاتا ہے۔کسے پتہ تھا کہ چودہویں صدی ہجری کی دوسری دہائی میں ہندوستان کی ایک گم نام بستی میں جنم لینے والا بچہ محض چالیس برس کی عمر میں ایک تاریخی انقلاب برپا کردے گا اور بر صغیر ہندو پاک کی دینی وعلمی فضا اس کے نام کی نغمہ سنجی سے زعفران زار ہوتی رہے گی۔
نام ہے عبدالعزیز، لقب ہے جلالۃ العلم، حافظ ملت، محدث مرادآباوی اور کنیت ابوالفیض ہے۔
حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کی ولات بروز دو شنبہ مبارکہ ۱۳۱۳ھ/ ۱۸۹۴ء کو ضلع مرآد باد اتر پردیش کے موضع بھوج پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں حاصل کی۔ والد ماجد حافظ غلام نور کی نگرانی میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتب جناب عبدالمجید بھوج پوری سے پڑھنے کے بعد جامعہ نعیمیہ مرآدباد میں داخلہ لیا، وہاں متوسطات پڑھیں، تین سال وہاں رہے پھر اعلیٰ تعلیم ومنتہی کتابوں کی تحصیل کے لیے چند رفقا کے ساتھ صدر الشریعہ علامہ مفتی محمدامجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ [مصنف بہارِ شریعت] کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئے ۔ان رفقا میں مولانا غلام جیلانی میرٹھی، قاضی شمس الدین جون پوری، مولانا قاری اسد الحق اور حافظ ضمیر حسن صاحبان کا نام آتا ہے۔ شوال ۱۳۴۲ھ میں مدرسہ معینیہ ، اجمیر شریف میں داخلہ لیا اور یہاں رہ کر صدر الشریعہ اور دیگر اساتذۂ ذوی الاحترام کی بارگاہ فیض میں اکتساب علم کرتے رہے، حدیث شریف کی تکمیل حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں کی، ۱۳۵۱ھ میں دارالعلوم منظر اسلام، بریلی شریف سے سند ِفراغت حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ میں مولوی عبدالمجید بھوج پوری، مولوی حکیم مبارک اللہ ، حافظ حکیم نور بخشاور حکیم محمد شریف کے ساتھ مولانا عبدالعزیز خاں فتح پوری، حضرت مولانا اجمل شاہ سنبھلی، مولانا محمد یونس سنبھلی، مولانا وصی احمد سہ سرامی، صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی، مفتی امتیاز احمد، مولانا عبدالحئی افغانی، مولانا سید امیر پنجابی، مولانا حافظ سید حامد حسین علیہم الرحمہ کے اسما قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ قابل احترام علمی سرچشمے ہیں جن کی نگاہِ التفات نے حافظ ملت علیہ الرحمہ کو ملت کی نگہبانی کا سلیقہ بخشا، علمی فیضان سے مالا مال کیا، فکروشعور کو بالیدگی عطا کی، قوت ارادی کو صحیح سمت میں استعمال کرنے کا حوصلہ دیا۔ بالخصوص صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی نگاہ کرم اور خصوصی عنایت نے آپ کو علوم وفنون کا بحر ذخار بنا دیا، آپ نے بارہا اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ۔ایک بار فرمایا: ’’میں نے حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے سب کچھ سیکھا، یہاں تک کہ کھانا، پینا اور چلنا بھی میں نے حضرت سے سیکھا۔‘‘مزید ارشاد فرمایا:
’’میں بہت گرم چائے اس لیے پیتا ہوں کہ حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ بھی بہت گرم چائے پیتے تھے۔‘‘
شوال۱۳۵۲ھ میں صدر الشریعہ کے حکم پر مبارک پور اعظم گڑھ اترپردیش میں خدمت دین کا مقصد لے کر پہنچے اور اپنے استاد محترم کے اعتماد وووقار کو ذرہ بھرٹھیس نہ پہنچائی، پوری دل جمعی کے ساتھ میدان عمل کے اس دشوار ترین سفر کو جاری رکھا اور بے طرح کامیابی حاصل کی، اس چھوٹے سے مدرسے کو جہاں معیار تعلیم فارسی، نحومیر، پنج گنج تک تھا ،تھوڑے ہی عرصے میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم میں تبدیل کردیا، جس کا سنگ بنیاد ۱۳۵۳ھ میں حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں اور حضور صدر الشریعہ علیہما الرحمہ کے مقدس ہاتھوں رکھا گیا، جس میں محدث اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ لیکن جب دارالعلوم کی یہ عمارت اپنی تنگ دامنی پر شکوہ کناں ہوئی تو قصبہ مبارک پور سے باہر ایک وسیع خطہ زمین ایک شہر ستان علم بسانے کے لیے حاصل کی اور ربیع الاول ۱۳۹۲ھ مطابق مئی ۱۹۷۲ء میں ’’الجامعۃالاشرفیہ‘‘ کا جشن تاسیس منایا گیا۔ جو اشرفیہ کی تاریخ میں تاریخ ساز’’ تعلیمی کانفرنس‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور آج بھی اس کانفرنس کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے، جہاں سے تحریک اشرفیہ کو ایک نئی جہت ملتی ہے۔
۶؍ مئی ۱۹۷۲ء کو منعقد کی جانے والی اس تاریخی کانفرنس میں بے شمار مشائخ واساتذہ وعلما کے علاوہ شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری، سید العلماء سید آل مصطفی قادری برکاتی مارہروی، مجاہد ملت علامہ شاہ حبیب الرحمن قادری اڑیسوی، شمس العلما قاضی شمس الدین جون پوری، خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی، مفتی مالوہ مولانا محمد رضوان الرحمن فاروقی، سلطان الواعظین علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی اور رئیس القلم علامہ ارشد القادری قدس سرہم جیسی عبقری شخصیات نے شرکت فرمائی اور الجامعۃ الاشرفیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں حضور سید العلماء نے فرمایاتھا:
’’اشرفیہ اور حافظ ملت کے ساتھ آلِ رسول ہے اور جس کے ساتھ آلِ رسول ہے اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ ضرورت پیش آئی تو آل رسول اپنے مریدین ومخلصین کو ساتھ لے کر اس کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کرے گا۔‘‘
اور شہزادۂ امام احمد رضا علامہ مصطفی رضا نوری کی یہ دعا آج بھی اشرفیہ کی بنیادوں کو روحانی توانائی دے رہی ہے:
’’دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور کو ایک عظیم سنی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی نیک کوشش کا میں خیر مقدم کرتا ہوں اور حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ انھیں اپنے عظیم مقاصد میں کامیاب فرمائے اور حضرات اہل سنت کو توفیق بخشے کہ وہ اشرفیہ عربی یونیورسٹی کی تعمیر میں حصہ لے کر دین کی ایک اہم اوربنیادی ضرورت پوری فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔‘‘
خانقاہ برکاتیہ کے نامور قلم کار پروفیسر سید جمال الدین اسلم مارہروی رقم طراز ہیں:
’’بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت کا آستانۂ علم وافتا شیخ کامل حضور مفتی اعظم کی قیادت میں ایک خانقاہ کی صورت میں منتقل ہوگیا، غالباً شیخ کامل نے اپنی حیات میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور کی سرپرستی فرما کر، اس کے احیا میں بھرپور تعاون عطا فرماکر، اسے حیات نو دے کر یہ طے فرمادیاتھا کہ یہ دارالعلوم اہل سنت کا علمی مرکز بنے گا اور بریلی شریف میں آستانہ رضویہ اہل سنت کی ایک مرکزی خانقاہ کی صورت میں مقبول عام ہوگی، مرشدان سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی روحانی عظمتوں کے طفیل اللہ رب العزت ان دونوں علمی اور روحانی آستانوں کو ہمیشہ قائم رکھے، آمین۔‘‘
(پیغام رضا، مفتی اعظم نمبر، ص: ۳۳۵، ۳۳۶)
جب یہ سلسلہ اور توانا ہوا تو نومبر ۱۹۷۳ء میں دوسری تعلیمی کانفرنس نے اشرفیہ کو شہرت وناموری کے اوج ثریا پر پہنچا دیا، یہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کا خلوص اور بین العلماء والمشائخ ان کی مقبولیت ہی تو تھی کہ خانقاہ برکاتیہ، خانقاہ اشرفیہ اور خانقاہ رضویہ کے سجادہ نشینان ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جذبۂ دروں کے ساتھ اشرفیہ کو اپنے فیضان سے مالا مال کررہے تھے ،حضور صدر الشریعہ کی دعائیں قدم قدم پر ان کی معاونت کررہی تھیں۔
اس سلسلے میں حضور حافظ ملت کے رفقا وتلامذہ کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ مثلاً حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی، بحر العلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، مولانا محمد شفیع اعظمی، مولانا قاری یحییٰ مبارک پوری، علامہ ارشد القادری وغیرہم اور اہل مبارک پور کی قربانیاں آج بھی تاریخ اشرفیہ اور تحریک اشرفیہ کے لیے اپنے وجود کا مسلم احساس کرارہی ہیں، جسے کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا، ایسا نہیں ہے کہ ایک مکتب مدرسے میں اور ایک مدرسہ دارالعلوم میں اور دارالعلوم الجامعۃ الاشرفیہ میں یوں ہی تبدیل ہوگیا اور ہر عہد میں حالات سازگار ہی رہے ہوں۔ قدم بہ قدم در پیش ہونے والے خطرات اور رکاوٹ پیدا کرنے والی وجوہات کو اگر قلم بند کیاجائے تو یہ مضمون طویل ہوجائے گا، اس لیے سردست اسے قلم زدکرتے ہوئے اتناضرورعرض کریں گے کہ ہزارہا طوفان آئے ،ان گنت مشکل گھڑیاں پیش ہوئیں، خطرات کی آندھیاں چلیں لیکن حضور حافظ ملت، آپ کے رفقا، تلامذہ، معاونین کے پائے ثبات میں ذرہ بھر لغزش پیدا نہ ہوئی، بالآخر آپ نے اپنے ذہن میں جس یونیورسٹی کا خاکہ مرتب کیاتھا اور جو خواب پورے ہوش وحواس کی حالات میں دیکھاتھا اسے زمین پر اتار دیا اور وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔ذرا وہ خواب بھی ملاحظہ کرلیں، کیا آفاقی ذہن تھا، کیسی دور بینی ودور اندیشی تھی، واہ! سبحان اللہ!
’’میں نے دارالعلوم اشرفیہ کو ترقی کی منزل پر پہنچانے کے لیے ’’الجامعۃ الاشرفیہ، قائم کیا، اشتہار میں احباب نے بلامیری راے کے اس کا ترجمہ بریکٹ میں عربی یونیورسٹی کردیا، نہ میں نے عربی یونیورسٹی قائم کی، نہ کرسکتا ہوں۔ الجامعۃ الاشرفیہ سے میرا مقصد درس نظامی کے منتہی طلبہ کو ہندی، انگریزی، عربی زبان کا صاحب قلم و صاحب لسان بنانا ہے تاکہ وہ ہندو بیرون ہند مذہب حق اہل سنت کی اشاعت کرسکیں، خیال تو بہت زمانہ سے تھا لیکن ہر کام کا وقت ہے، وقت آیا، ہوا، ہورہا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ہوگا۔‘‘ (ملفوظات حافظ ملت، ص:۱۲۹)
ان جملوں کے بین السطور سے آپ کا جذبہ دروں صاف دکھائی دے رہا ہے اور آپ کے تعلیمی نظریات پر بھی کما حقہ روشنی پڑ رہی ہے ۔الجامعۃ الاشرفیہ کے جشن تاسیس کے زریں موقع پر دارالعلوم اشرفیہ میں ابناے قدیم کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی موثر اور رقت انگیز لہجہ میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ:’’میں نے آج تک کوئی کاغذی اخبار واشتہار تو نہیں شائع کیا (حضرت مفتی محمدشریف الحق امجدی، بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، علامہ ارشد القادری، علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، مولانا قمر الزماں اعظمی اور دیگر موجود ممتاز شاگرد علما کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) یہ ہیں اشرفیہ کے وہ زندۂ جاوید اخبارات واشتہارات جنھیں ہم نے بڑے اہتمام کے ساتھ خون جگر کی سرخیوں سے شائع کیا ہے۔‘‘
(ملفوظات حافظ ملت، ص: ۱۳۳، ۱۳۴)
حافظ ملت قدس سرہ العزیز نے تحریک اشرفیہ کا جس مشن کے تحت آغاز فرمایاتھا اللہ رب العزت کے فضل وکرم اور مشائخ کے فیضان خصوصی سے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور آپ اپنے مقصد دینی میں کامیاب ہوئے، اس سلسلے میں اہل مبارک پور سے آپ کا وہ خطاب بڑا فکر انگیز اور تشکر آمیز ہے جو روانگی حج کے وقت فرمایاتھا:
’’برادران اسلام! میری زندگی کا اہم مقصد دارالعلوم اشرفیہ ہے، میں نے اس کو اپنا مقصد زندگی قرار دیا ہے۔ ۳۵ سالہ زندگی کا بڑا قیمتی وقت اس کی خدمت میں صرف کیا ہے،آپ حضرات کی مخلصانہ خدمات اور بے مثال قربانیوں سے یہ دارالعلوم اس منزل پر پہنچا کہ اپنی خصوصیات میں امتیازی شان رکھتا ہے، پورے ہندوستان پر اس کی خدمات کا سکہ ہے، ملک کے طول وعرض سے خراج تحسین وصول کرتا ہے، یہ مذہب وملت کا قلعہ ہے، بڑی وزنی اور شان دار درس گاہ ہے، اب یہ خادم جارہا ہے آپ کے اشرفیہ کو آپ کے سپرد کرتا ہے آپ اس کو اپنا مقصد زندگی قرار دیں اور اپنی زریں خدمات سے ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہیں، پورا خیال رکھیں کہ اشرفیہ کے کسی شعبہ میں تنزل وانحطاط نہ ہونے پائے، بلکہ آپ کی خدمات سے یہ آگے بڑھتا رہے، خداوند کریم آپ حضرات کو جزائے خیردے، شاد وآباد رکھے، آمین۔‘‘
(ماہ نامہ اشرفیہ ، مبارک پور،حافظ ملت نمبر،جون تا اگست ۱۹۷۸ء، ص: ۲۲۸)
قارئین کرام! ذرا ایک ایک لفظ پر غور کریں اور حضور حافظ ملت کی خدمات دینیہ کی شفافیت، مقصد زندگی، درد وسوز، انقلاب آفریں اقدام، دوسروں کی معاونت کی سراہنا، اس تاریخی قلعے کو ناقابل تسخیر بنانے کی حد درجہ کاوشات آپ کا جذبۂ دینی، اشرفیہ کے لیے آپ کی مجنونانہ جد وجہد کا نقشہ نگاہوں میں محفوظ رکھیں۔آپ نے متعدد باراس خیال کا اظہار فرمایا :’’میں نے اپنے کو ہمیشہ دارالعلوم اشرفیہ کا خادم جانا، خدمت ہی اپنا کام ہے، عہدہ اور اختیارات کا استعمال میرے خیال میں نہیں۔‘‘ایک انسان جب ایسا اخلاص اور پاک دل رکھتا ہے اور عہدہ ومنصب وسربراہی سے بے نیاز ہوکر خدمت دین وملت کو اپنا خاص مشغلہ بنالیتا ہے تو رحمت الٰہی اس کی دست گیری فرماتی ہے اور غیب سے اس کی مدد ہوتی ہے۔
خدمات واثرات:
حضور حافظ ملت شیخ المشائخ مولانا شاہ علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے، حضور صدر الشریعہ سے بھی آپ کو خلافت حاصل تھی، جب آپ نے ۱۳۵۳ھ میں ’’باغ فردوس‘‘ دارالعلوم اشرفیہ کی توسیع کا منصوبہ بنایا اور اس میں حضور صدر الشریعہ، حضور اشرفی میاں علیہما الرحمہ کو مدعو کیا تو حضور اشرفی میاں کے نواسے اور نور دیدہ تلمیذِ امام احمد رضا حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ حضور اشرفی میاں ۱۳۵۳ھ سے اخیر عمر تک دارالعلوم اشرفیہ کے سرپرست رہے، آپ کے وصال کے بعد سرپرستی کی ذمہ داری حضور محدث اعظم ہند نے قبول فرمائی۔ حضور محدث اعظم ہند دارالعلوم کے تعلیمی اور تربیتی نظام سے انتہائی مطمئن تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دونوں صاحب زادگان شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اور سیدہاشمی میاں کو حضور حافظ ملت کی تربیت میںبھیجا، حضور مدنی میاں نے اعدادیہ سے دورۂ حدیث تک کی مکمل تعلیم دارالعلوم اشرفیہ میں حاصل کی۔ سن ۱۹۶۳ء میں وہاں سے آپ کی فراغت ہوئی، علامہ سید مدنی میاں نے حضور حافظ ملت کی صبح وشام کا نظارا کیا ہے، وہ آپ کے درد وسوز اور اخلاص ومجاہدانہ کردار کے چشم دید گواہ ہیں۔ ’’حضور حافظ ملت کی زندۂ جاوید شخصیت‘‘ کے عنوان سے آپ لکھتے ہیں:
’’ملت کا حافظ جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملت کی حفاظت میں گزرا، جس نے ملت کی حفاظت فرمائی (۱)تقریر سے (۲) تحریر سے (۳)تدریس سے (۴)مناظرہ کے ذریعہ احقاق حق اور ابطال باطل سے (۵)اپنی زندگی کو اُسوۂ نبی میں ڈھال کر (۶) اپنی درس گاہ علم وادب سے جلیل القدر علما واساتذہ وخطبا واصحاب قلم ومناظرین ومتکلمین ومفسرین ومحدثین اوراصحاب افتا پر مشتمل ایک خدائی گروہ بنا کر (۷) خانقاہوں میں بیٹھ کر (۸) جامعہ اشرفیہ کے لیے زندگی وقف کرکے (۹)اسٹیج پر رونق افروز ہوکر (۱۰) اپنی درس گاہ علم وادب میں پلنے والے کو اپنی نگاہ فیض سے اس منزل تک پہنچا کر کہ وہ عالمی شہرت کے مالک ہوجائیں۔ المختصر ملت کے حافظ نے ملت کی حفاظت کی ہر ان موثر ذرائع کو استعمال فرما کر جو ملت کی حفاظت کے لازمی وسائل تھے۔‘‘
(ماہ نامہ کنزالایمان، دہلی ،جولائی ۲۰۰۵ء، ص: ۴۶)
شیخ الاسلام کے ان مختصر اور جامع ارشادات نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی دینی خدمات جلیلہ اور فیضان علمیہ کے اثرات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ واشگاف کردیا کہ ان مختصر سے جملوں میں ایک جہان سمٹ کر آیا اورخدمات واثرات کا اجمالی تعارف ہوگیا۔
حضور حافظ ملت کا صرف یہی اہم اور امتیازی کارنامہ نہیں ہے کہ انھوں نے اشرفیہ قائم فرمایا۔ اس کے لیے جلیل القدر ماہر اساتذہ کی ٹیم جمع فرمائی، نصاب تعلیم ونظام تعلیم کو بہتر بنایا، میدان تدریس، تصنیف، بحث ومناظرہ تقریر وخطابت میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ فرمایا بلکہ سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دین کی خدمت اور قوم کی ترقی کے ہر میدان کے لیے افراد کی تعیین فرمائی، شخصیت سازی کا فریضہ انجام دیا، تحریک اشرفیہ نے صرف ایک خطے کو متاثر نہ کیا بلکہ اہل سنت وجماعت کے ارباب علم ودانش، اصحاب تحقیق اور عوام وخواص کے لیے ایک عمدہ، دور رس تاثر چھوڑا، مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ کے افکار کی ترویج ، تعلیمات کی تبلیغ اور تحقیقات کی اشاعت کے لیے علما کو راغب کیا، صدر الشریعہ ومفتی اعظم ہند علیہما الرحمہ کی نشان دہی پر اس میدان کے لیے جان باز تیار کیے اور انھیں کام دے کر اس مشن کو آگے لے جانے کی تلقین کی۔
جس طرح امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ نے دینی خدمات کی اور مختلف میدانوں میں اپنے تلامذہ اور خلفا کی ایک جماعت کو دین کا فوجی بنا کر میدان کار زار میں تعینات کیا، درس وتدریس ہو، فتویٰ نویسی ہو، تحریر وتقریر ہو، سیاست وسماجیات ہو، بحث ومناظرہ ہو، انتظامی امور کی قائدانہ صلاحیتوں کا مناسب استعمال ہو ،غرض کہ متعدد محاذوں پر اپنے شاگردوں اور خلفا کی ٹیم روانہ کی، دونوں شہزادگان، ملک العلماء، صدر الافاضل، صدر الشریعہ، محدث اعظم ہند، محسن ملت، مبلغ اسلام، شیر بیشۂ اہل سنت وغیرہم بے شمار نام ہیں اور ہزاروں ان ناموں سے جڑے ہوئے دینی کام۔گویا امام احمد رضا نے دینی فتوحات وخدمات علمیہ کے لیے ایک فوج تیار کردی تھی اور مذہب اہل سنت وجماعت کو استحکام مل رہا تھا، جس کے اثرات آج بھی باقی ہیں اور ان شاء اللہ عزوجل یہ تسلسل قائم وباقی رہے گا، حضور حافظ ملت کی ذات بھی اسی سلسلۃ الذہب کی ایک نمایاں کڑی تھی اور آپ نے بھی دین کی خدمت کے مختلف محاذوں پر اپنے تلامذہ ومتوسلین کی ٹیم ارسال کی اور اسلام وسنیت کی بقاے دوام اور ترویج واشاعت اور خدمت علم نبوی کے لیے مکمل دور اندیشی کے ساتھ نئی نئی جہات کو دریافت کیا اور باقاعدگی کے ساتھ افراد کا انتخاب فرمایا، خود بھی کتابیں تحریر کیں، معارف حدیث، الارشاد، المصباح الجدید، فتاویٰ عزیزیہ، ارشاد القرآن، انباء الغیب، فرقہ ناجیہ، حاشیہ شرح مرقاۃ، یہ سب آپ کے رشحات قلم کی یادگار ہیں۔
ماہ نامہ اشرفیہ کا اجرا تحریر وصحافت کے میدان میں ایک بڑا ہی اہم اور افادیت سے بھرپور کارنامہ ہے، مولانا بدرالقادری مصباحی [ہالینڈ]، مولانا ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی[ الٰہ آباد] ، حضرت قاری محمد یحییٰ اعظمی، مولانا عبدالمبین نعمانی مصباحی کی ادارت میں جس نے تحریر وقلم کے میدان میں بے پناہ خدمات پیش کیں، اب ما ہر قلم مولانا مبارک حسین مصباحی تقریباً بیس برس سے ماہ نامہ اشرفیہ کے مدیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور اپنے قلم زرنگار سے مختلف موضوعات کو مالا مال کررہے ہیں۔ ماہ نامہ اشرفیہ نے اب تک کئی خصوصی نمبرات شائع کیے ہیں جو اپنی جگہ پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، مثلاً حافظ ملت نمبر، مجاہد ملت نمبر، صدر الشریعہ نمبر، پیغمبر اعظم نمبر، انوار حافظ ملت نمبر، تعلیمی کنونشن نمبر، غریب نواز نمبر، جشن شارح بخاری نمبر، فقیہ اعظم نمبر، سیدین نمبر، جنگ آزادی ۱۸۵۷ء نمبر قابل ذکر ہیں۔
جامعہ اشرفیہ میں ۱۹۵۹ء میں سنی دارالاشاعت قائم ہوا جس کے تحت فتاویٰ رضویہ جلد سوم تا جلد ہشتم کی طباعت واشاعت کا عظیم کارنامہ دیا جاچکا ہے۔انجمن اہل سنت واشرفی دارالمطالعہ کا قیام اور اس کا دورِ عروج بھی جامعہ اشرفیہ کے باذوق طلبہ کا عظیم کارنامہ ہے، جس کی لائبریری اور بارہ ربیع الاول کا جلوس عید میلاد النبی آج بھی یادگار ہے۔
آپ کے تلامذہ میں شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی، بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، علامہ ارشد القادری، محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، نصیر ملت علامہ نصیر الدین قادری، شیخ الاسلام علامہ سید مدنی میاں اشرفی، ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی، مولانا وارث جمال قادری ،مولانا بدرالدین احمدر ضوی، سید محمد جیلانی محامد اشرفی، علامہ محمد احمد مصباحی، علامہ بدرالقادری مصباحی، علامہ یٰسین اختر مصباحی، علامہ قمر الزماں اعظمی، علامہ عبدالمبین نعمانی قادری، علامہ عبداللہ خاں عزیزی، علامہ عبدالشکور مصباحی وغیرہم یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنی جگہ آفتاب و ماہ تاب ہیں اور ہندو پاک کے اہل علم جن کی علمی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہیں ان حضرات نے نہ صرف درس وتدریس، تصنیف وتالیف میں نمایاں کارنامہ انجام دیا، بلکہ ملک وبیرون ملک ان کی دعوتی خدمات کا دائرہ وسیع ہے، مختلف تعلیمی اداروں کے قیام، تحریری واشاعتی مراکز کا قیام ،مساجد وتربیتی مراکز کا قیام ان کی مساعی جمیلہ سے عمل میں آیا، پاکستان میں حضرت مفتی ظفر علی نعمانی مصباحی بانی دارالعلوم امجدیہ کراچی، نیپال میں مفتی جیش محمد برکاتی، کراچی ہی میں شہزادۂ صدر الشریعہ علامہ قاری رضاء المصطفیٰ اعظمی، انگلینڈ میں علامہ قمر الزماں اعظمی، ہالینڈ میں علامہ بدرالقادری مصباحی، مختلف ممالک میں علامہ ارشاد القادری، مدینہ منورہ میں علامہ افتخار احمد قادری، گھوسی میں علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، چریاکوٹ میں علامہ عبدالمبین نعمانی وغیرہم جیسے فرزندان اشرفیہ دینی وعلمی کاموں میں مصروف ہیں۔ ان حضرات نے مدراس قائم کیے، مساجد بنوائیں، رسائل وجرائد کا اجرا کیا ،کتابیں لکھیں، امامت وخطابت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، تدریس وافتا میں مشغول ہیں۔
بالخصوص افکار امام احمد رضا کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں فرزندان اشرفیہ کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ فتاویٰ رضویہ کی طباعت، جد الممتار کی اشاعت، سوانح اعلیٰ حضرت، ماہ نامہ تجلیات ناگپور کا امام احمد رضا نمبر، ماہ نامہ المیزان ممبئی کا امام احمد رضا نمبر، امام احمد رضا کی فقہی بصیرت، امام احمد رضا اور تصوف، امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں، امام احمد رضا اور رد بدعات ومنکرات، امام احمد رضا کا محدثانہ مقام، عشق رضا کی سرفرازیاں، مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا، فن تفسیرمیں امام احمد رضا کا امتیاز، افکار رضا، تذکرۂ رضا، معارف کنزالایمان، ارشادات اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا کے ایمان افروز وصایا، جیسی اہم اور مستند ومحقق کتابیں فرزندان اشرفیہ اور حضور حافظ ملت کے خوشہ چینوں نے خاص امام احمد رضا کے افکار وتحقیقات پر تصنیف کیں اور اس باب رضویات میں اولیت کا سہرا اپنے سر سجایا، اور آج بھی تقریر وتحریر، تصنیف وتحقیق کے ذریعہ یہ سلسلہ جاری ہے اور مصباحی برادران اپنا علمی فیضان عام کررہے ہیں۔
جامعہ اشرفیہ کے زندہ دل اور مخلص ذمہ داران نے ۱۹۹۲ء میں ’’مجلس شرعی ‘‘ کے نام سے ایک بورڈ قائم فرمایا تاکہ وقت کے مفتیان کرام اور محققین عظام کی ٹیم بیٹھ کر امت مسلمہ کو درپیش مختلف لاینحل مسائل کے حل کے لیے بحث ومذاکرہ کرے اور کسی خاص نکتے پر اتفا ق رائے سے فیصلہ ہوسکے، اس کے تحت مختلف موضوعات پر ۱۹۹۳ء سے ٢٠١٩ء تک چھبیس کامیاب ترین فقہی سمینار منعقد کیے جاچکے ہیں، یہ بھی تدوین فقہ حنفی کی بہت بڑی خدمت ہے جو بے حد سراہے جانے کے قابل ہے، اس کی تقلید میں اب تک کئی سمینار بورڈ تشکیل دیے جا چکے ہیں اور ہندو بیرون ہند اپنی اپنی جگہ کامیاب سمینار منعقد کروارہے ہیں، اس میں اولیت اشرفیہ کے ارباب حل وعقد کو حاصل ہے۔
یکم جمادی الآخرہ ۱۳۹۶ھ مطابق۳۱ ؍مئی ۱۹۷۶ء بروز دو شنبہ گیارہ بج کر ۵۰ منٹ پر شب میں حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کا وصال ہوا، نماز جنازہ آپ کے صاحب زادے سربراہ اعلیٰ جامعہ اشرفیہ مولانا شاہ عبدالحفیظ عزیزی دام ظلہ العالی نے پڑھائی۔ جامعہ اشرفیہ کے صحن میں آپ کامزار مبارک مرجع خلائق ہے۔ یہ شمع اگر چہ بجھ گئی لیکن ہزاروں چراغ جو اس سے جل اٹھے ہیں وہ تو جل رہے ہیں، علم کی روشنیاں عام ہورہی ہیں اور فیضان حافظ ملت سے اکتساب کا سلسلہ جاری ہے:
جس نے پیدا کیے کتنے لعل وگہر
حافظِ دین و ملت پہ لاکھوں سلام