حافظ ملت کا نظریۂ تعلیم
تحریر: شہباز احمد مصباحی (ارول)
علمی دنیا میں جلالۃ العلم، حافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (متوفی: یکم جمادی الاخرہ 1396ھ) بانی جامعہ اشرفيہ مبارک پور کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گونا گوں فضائل و کمالات کا حامل بنایا تھا،جس کو بروئے کار لا کر مسلمانانِ ہند اور جماعت اہل سنت میں علم کی نئی روح پھونک دی اور اہل سنت و جماعت کا سر فخر سے اونچا کردیا ۔علم دین کی نشر و اشاعت کے حوالے سے آپ کے کارنامے تاریخ کے صفحات پر آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔
آزادی کے بعد بدعقیدوں کی تعلیمی سرگرمیاں* ہندوستان کی آزادی کے بعد بدعقیدوں نے اپنے مذہب کو پروان چڑھانے کے لیے بڑی تگ و دو شروع کردی، انھوں نے اپنی پوری توجہ تصنیف و تالیف، جلسہ جلوس اور پیری مریدی کے بجائے دینی مدارس کے قیام پر مرکوز رکھی۔ چند ہی سالوں میں پورے ملک میں مدارس کے جال بچھادیے، جس کا زبردست نقصان اہل سنت و جماعت کو اٹھانا پڑا۔ بھولی بھالی عوام جو ان کے مکرو فریب سے نا آشنا تھی اپنے بچوں کو حصول علم دین کے لیے وہاں بھیجنا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنیوں کے بچے ان کے یہاں جا کر وہابی، دیوبندی ہوگئے، پھر ان کی وجہ سے پورا گھر، کنبہ اور پورے خاندان کے عقائد متزلزل ہوگئے۔
*مبارک پور میں حضور حافظ ملت کی آمد:* ایسے ماحول میں صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ شاہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے اپنے شاگرد رشید حضور حافظ ملت قدس سرہ کو دین حق کی تبلیغ اور وہابیت کا قلع قمع کرنے کے لیے مبارک پور (اعظم گڑھ) بھیجا،جس کی فضا وہابیت کے باد مسموم سے مکدر ہوگئی تھی ۔
حضور حافظ ملت قدس سرہ خود فرماتے ہیں: شوال 1352ھ میں حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے خط بھیج کر مجھے وطن سے بریلی شریف بلایا ۔ خط میں کوئی تفصیل نہیں تھی، وہاں پہنچا تو فرمانے لگے: میرا ضلع بالکل خراب ہوگیا، دیوبندیت بڑھ رہی ہے، اس لیے میں آپ کو دین کی خدمت کے لیے بھیج رہا ہوں ۔ (حیات حافظ ملت، ص: 72، ناشر : الجمع الاسلامی، ملت نگر)
*اہل سنت میں ادارے کی کمی و خستہ حالی:* جب حضور حافظ ملت مبارک پور پہنچے تو وہاں کی اور صوبہ میں اہل سنت و جماعت کی دینی تعلیم کے حوالے سے کیا حالت تھی، اس کے متعلق شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
حافظ ملت قدس سرہ ذوقعدہ 1352ھ میں مبارک پور تشریف لائے ۔اس وقت پورے ضلع اعظم گڑھ میں اہل سنت کا کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ مدرسہ اشرفيہ مصباح العلوم مبارک پور میں تھا، مگر اس کی حیثیت ایک معمولی مکتب کی تھی، اس کے برخلاف وہابیوں کے اس ضلع میں آٹھ دس ایسے مدرسے تھے جن کی حیثیت دارالعلوم کی تھی، کئی میں دورۂ حدیث تک تعلیم ہوتی تھی اور شرح جامی تک تو ہر مدرسے میں۔ ضلع سے ہٹ کر صوبہ میں نظر ڈالیے تو بھی بہت دل شکن حالات تھے۔بریلی شریف میں منظر اسلام اور مراد آباد میں جامعہ نعیمیہ، کانپور میں احسن المدارس قدیم اور جدید مدرسہ حنفیہ امروہہ، یہ پانچ مدرسے تھے ۔ مدرسہ حنفیہ جون پور آخری ہچکیاں لے رہا تھا، مدرسہ عالیہ رام پور ایک رسمی درس گاہ رہ گئی تھی ۔ لے دے کر منظر اسلام بریلی شریف اور جامعہ نعیمیہ مراد آباد اہل سنت کے طلبہ کے لیے ملجا و ماوی تھے، ان دونوں مدارس کا نظام یہ تھا کہ طلبہ مسجدوں میں رہتے اور مدرسہ کے وقت میں آکر پڑھتے، اب اگر کوئی طالب علم مسجد نہ پاسکا تو وہ محروم رہ جاتا۔ اب آپ اس ماحول میں سوچیے کہ کسی کو علم دین کا شوق ہوا لیکن اسے بریلی شریف اور مراد آباد جانے کی وسعت نہیں تو وہ علم سے محروم رہ جاتا یا اگر کوئی وہاں پہنچا اور اسے مسجد نہیں ملی تو وہ کہیں کا بھی نہیں ہوتا، اسی میں کتنے سادہ لوح سنیوں کے بچے وہابیوں کے ہتھے چڑھ گئے ۔
(حافظ ملت افکار اور کارنامے، ص: 11،ناشر :ادارۂ تحقیقات حافظ ملت الجامعۃ الاشرفیہ)
ایسے مایوس کن حالات میں اہل سنت و جماعت کی شیرازہ بندی کے لیے ایک مرد مجاہد کی ضرورت تھی، حضور حافظ ملت قدس سرہ نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اگر مدارس نہ ہوں گے، ان مدراس میں بہترین تعلیم و تربیت اور ان میں طعام و قیام کا اچھا انتظام نہ ہوگا تو ہم وہابیت و دیوبندیت کے سیلاب پر بندھ نہیں باندھ سکتے اور مذہب اسلام پر ہر چہار جانب سے ہونے والے یلغار کا جواب نہیں دے سکتے۔
*حافظ ملت کے دم قدم سے مدارس کا قیام:* شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: جب (حافظ ملت قدس سرہ) نے وصال فرمایا، اس وقت پوزیشن یہ تھی کہ خود ضلع اعظم گڑھ میں اہل سنت کے سات دارالعلوم قائم ہوچکے تھے اور صوبہ کا عالم یہ تھا کہ اگر سروے کیا جائے تو کم از کم پچیس دارالعلوم موجود تھے، جن میں بہت سے اعلیٰ اور معیاری تھے، آپ خیال کیجیے کہ خود ضلع بستی میں تین تین عظیم الشان دارالعلوم موجود ہیں، بصدق و انصاف اگر ان اداروں کی تاسیس پر نظر کی جائے تو سوائے دو چار کے سب کے سب حافظ ملت کے رہین منت ہیں ۔(حوالہ سابق ص:12)
جامعہ اشرفيہ مبارک پور کا قیام آپ کا وہ تاریخی کارنامہ ہے، جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ یہاں کے فارغین ملک و بیرون ملک میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
*حافظ ملت کے نزدیک علم کی اہمیت:* علم کی اہمیت و فضلیت کا کون انکار کرسکتا ہے، وہیں قومیں سرخرو رہتی ہیں جو علمی میدان میں آگے ہیں۔ حضور حافظ ملت فرماتے ہیں :
علم کی اہمیت کا مسئلہ ایسا متفق علیہ ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں، جاہل سے جاہل بھی علم کو بڑی اہم اور عظیم دولت سمجھتا ہے، دنیا کا علم بھی عزت و اقتدار کا ضامن ہے چہ جائے کہ علم دین۔ علم دین وہ دولت عظمیٰ اور نعمت کبری ہے کہ وہ انسان کو اشرف المخلوقات اور ممتاز کائنات بناتی ہے، مگر علم پر عامل ہونا شرط ہے ۔(حافظ ملت نمبر،ص:80)
مصلح قوم و ملت حضرت مولانا عبدالمبین نعمانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی فرماتے ہیں: اس مذکورہ ارشاد میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے دینی اور دنیاوی دونوں طرح کے علم کی اہمیت و افادیت پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور اس قدر جامع بات فرمادی ہے کہ اس سے مختصر اور جامع بیان ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔اس مختصر ارشاد میں حافظ ملت نے اپنا نظریۂ تعلیم اچھی طرح ظاہر فرمادیا ہے۔ (ماہنامہ اشرفیہ، جون 2010)
*نظریۂ تعلیم:* حضور حافظ ملت کا نظریۂ تعلیم بڑا مستحکم تھا، اگر آج صاحبان ادارہ آپ کے نظریۂ تعلیم کا نفاذ کرلیں تو علمی انقلاب برپا ہوسکتا ہے ۔
بہترین تعلیم کے لیے تین باتوں کا ہونا لازمی ہے:
(1) نصاب میں حالات زمانہ کے مطابق ضروری مضامین کا شمول
(2) مفید طریقۂ درس
(3) تعلیم کے ساتھ تربیت ۔
(1) آپ طالبان علوم نبویہ کو دینی تعلیم کے ساتھ جدید علوم و فنون سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے اور ہندی، انگریزی اور عربی ادب و انشا کو لازمی طور پر نصاب کا اہم جزو قرار دیتے تھے ۔
آپ خود ارشاد فرماتے ہیں: میں چاہتا ہوں کہ الجامعۃ الاشرفیہ کے فارغین سنی علما ہوں، وہ ہندی، انگریزی، عربی میں صاحب قلم و صاحب لسان ہوں جو اپنے ملک ہندوستان اور دوسرے ممالک میں مذہب اہل سنت کی کماحقہ اشاعت و خدمت کرسکیں، میں الجامعۃ الاشرفیہ کو اسی منزل پر دیکھنا چاہتا ہوں ۔ (حافظ ملت نمبر، ص: 80)
حضرت مفتی معراج القادری مصباحی نور اللہ مرقدہ (سابق استاد و مفتی جامعہ اشرفيہ مبارک) لکھتے ہیں: حافظ ملت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اس نظریۂ تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے وہ مدارس جہاں ابھی عصری تعلیم کا باضابطہ انتظام نہیں ہوسکا ہے یا ہوا ہے مگر باضابطہ نہیں، وہاں خصوصی توجہ دے کر اسے لازم قرار دیا جائے، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جب جدید فکر و نظر سے متاثر ہونے والی قوم مسلم کا کوئی رہبر و رہ نما نہ ملے گا، بلکہ ان درس گاہوں سے فارغ ہونے والے علما عصر جدید کی نظریاتی وفکری قوتوں کے مقابلے سے عاجز اور مجبور محض ہوکر رہ جائیں گے ۔ (حافظ ملت افکار اور کارنامے، ص؛ 45)
(2) *مفید طریقۂ درس:*
مفکر اسلام حضرت علامہ قمر الزمان خان اعظمی دام ظلہ العالی فرماتے ہیں:حضور حافظ ملت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی ہمیشہ لفظ بہ لفظ ترجمہ سے احتراز فرمایا، بلکہ کتاب اور مبحث کو سامنے رکھ کر ایسی تقریر فرماتے کہ جو موضوع کی تمام جزئیات اور کتاب کی عبارت کو حاوی ہوتی تھی اور طلبہ کے ذہنوں میں علم کا ایک خزانہ منتقل کردیتی تھی۔ ان کے اس طریقۂ درس نے طلبہ کو مطالعہ کا پابند بنادیا تھا اور بہت کم طلبہ ان کی مجلس درس میں بغیر مطالعہ کے شریک ہوتے تھے ۔ (حافظ ملت نمبر، ص:335 ، 336)
حضرت علامہ بدر القادری مصباحی دام ظلہ العالی (ہالینڈ) فرماتے ہیں:عصر حاضر کی یونیورسٹیوں کے لکچرار متعلقہ موضوع پر تیار ہوکر آتے ہیں، جسے طلبہ ذہن میں رکھ کر قید تحریر میں لاتے ہیں۔ دراصل یہ طریقۂ تدریس اس لیے رائج ہوا کہ طلبہ صرف کتابی کیڑے بن کر نہ رہ جائیں، بلکہ درسی کتابوں سے ہٹ کر مطالعہ کی عادت ڈالیں اور اپنے اندر اس موضوع پر علمی وسعت پیدا کریں ۔ یورپ و امریکہ میں یہ طریقۂ تدریس رائج ہوئے بہ مشکل چالیس سال ہوئے ہوں گے، مگر حضور حافظ ملت کے یہاں تقریر کا یہ طریقہ شروع ہی سے رائج تھا ۔ (حیات حافظ ملت، ص: 321)
(3) *تعلیم کے ساتھ تربیت:*
تعلیم، تربیت کے ساتھ ہی سود مند ہے، اس کے بغیر تعلیم کی اہمیت بے معنی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج ہمارے اکثر علمی ادارے میں تعلیم کے ساتھ طلبہ کی باقاعدہ تربیت کا انتظام نہیں ہوتا ہے، اس پر ٹھنڈے دل سے غور ہونا چاہیے۔
مفسر قرآن حضرت مولانا عبداللہ خان عزیزی مصباحی نور اللہ مرقدہ کا بیان ہے کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا : دارالعلوم صرف عمارتوں کی طویل سلسلہ کا نام نہیں ہے، اگر لمبی چوڑی فلک بوس عمارتیں بنالی جائیں لیکن تعلیم و تربیت کا معقول انتظام نہ ہو تو ایسی پرشکوہ عمارتیں بلاشبہ بے سود ثابت ہوں گی ۔(حافظ ملت افکار اور کارنامے، ص: 36)
مصلح قوم و ملت حضرت مولانا عبدالمبین نعمانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی فرماتے ہیں: حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے نزدیک وہی تعلیم مفید اور بار آور ہے جس پر عمل بھی کیا جائے، افسوس کہ آج اس پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔چناں چہ حافظ ملت علیہ الرحمہ نے علم دین کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ علم پر عمل ہونا شرط ہے، جس علم پر عمل نہ ہو وہ اس خزانے کی طرح ہے جس کو دفینہ بناکر رکھا جائے اور اس میں سے کچھ خرچ نہ کیا جائے ۔اس لیے ایک مرتبہ فرمایا :
لوگ صرف علم سیکھتے ہیں میں نے حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے علم اورعمل دونوں سیکھا ہے ۔(ماہنامہ اشرفیہ، جون، 2010)
*بنیادی کتابوں کی اہمیت:* درس نظامی کے مبتدی طالب علم کو چاہیے کہ نحو و صرف وغیرہ کی بنیادی کتابوں پر خوب توجہ دیں اس لیے کہ اسی بنیاد پر فلک شگاف عمارت کی تعمیر ہونی ہے، اگر ان کتابوں میں کمزوری ہوئی تو اچھے اور مضبوط عالم دین نہیں بن سکتے ۔ آپ کا ارشاد ہے:
اونچی کتابوں سے علم حاصل نہیں ہوتا، بلکہ علم ہر فن کی ابتدائی اور بنیادی کتابوں سے ملتا ہے ۔(حیات حافظ ملت، ص: 318)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضور حافظ ملت قدس سرہ اپنے نظریۂ تعلیم میں سو فی صد کامیاب تھے، آپ کے جدید اور انفرادی نظریۂ تعلیم کو اپنے اداروں میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا تعلیمی نظام خوب سے خوب تر ہوسکے۔
اللہ کریم حضور حافظ ملت قدس سرہ کے مرقد پر رحمت و نور کی بارش فرمائے اور ان کا فیضان ہم سب پر جاری فرمائے ۔
(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)
تحریر: شہباز احمد مصباحی
جامعۃ المدینہ ––پڑاؤ ،بنارس