فروغ سنیت میں خانقاہوں کا کردار
ازقلم: طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
برصغیر میں وہابیت کی تبلیغ اسماعیل دہلوی(1779-1831) نے 1240مطابق 1825 سے شروع کی۔چوں کہ وہابیہ فاتحہ ونیاز,مولود وعرس,چادر پوشی وایصال ثواب,سلام وقیام, وغیرہ معمولات اہل سنت کے خلاف تھے,اس لئے اہل سنت وجماعت کی خانقاہوں نے وہابیت کو قبول نہ کیا۔
ایک مدت بعد دیوبند سے مقلد وہابیہ میدان میں اترے۔یہ لوگ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی(1817-1899)کے مرید تھے۔اس وقت دیگر علمائے اہل سنت کے ساتھ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ کے دیگر مریدین نے بھی دیوبندیوں کا رد کیا۔ان کے ایک مرید وخلیفہ حضرت مولانا عبد السمیع بیدل رامپوری علیہ الرحمۃ والرضوان نے "انوار ساطعہ”لکھ کر دیوبندیوں کے افکار ونظریات کی تردید کی۔خلیل احمد انبیٹھوی(1852-1927)نے انوار ساطعہ کے رد میں”براہین قاطعہ”لکھی تھی۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ العزیز کے مشہور مرید وخلیفہ شیخ الاسلام حضرت علامہ انوار اللہ فاروقی حیدر آبادی (1848-1917)علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی بدمذہبوں کے رد میں نمایاں کردار ادا کیا۔امام اہل سنت قدس سرہ القوی سے آپ کے عمدہ روابط تھے۔دونوں بزرگوں کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا۔باہمی تعلقات کا اجمالی تذکرہ”مرقع انوار”میں مرقوم ہے۔
دیوبندیوں کے پیر طریقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی”فیصلہ ہفت مسئلہ”لکھ کر معمولات اہل سنت کی تائید کی,جسے دیابنہ نے تسلیم نہ کیا۔
اہل سنت وجماعت کی خانقاہیں معمولات اہل سنت پر عمل پیرا تھیں۔ان معمولات اہل سنت کو امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے قوی دلائل سے مزین فرمایا۔یہ دیکھ کر تمام خانقاہیں آپ کے ساتھ ہو گئیں۔ایک طویل مدت تک ہمارے روابط ان خانقاہوں سے سازگار رہے,پھر جب ہماری جانب سے غفلت ہونے لگی تو وہ لوگ بھی ہم سے دور ہو گئے۔
ہمارے روابط وتعلقات کی کمزوری کے سبب ان کے اعتقادات میں بھی کمزوری داخل ہو گئی اور بدمذہبوں سے بھی ان کے تعلقات استوار ہونے لگے۔دیابنہ نے ان لوگوں سے روابط استوار کر لئے۔حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ کے آستانہ اقدس پر امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کی حاضری ہوتی تھی۔وہاں آپ کے خطابات ہوتے تھے۔
نومبر 2016 میں دیوبندی جمعیۃ العلما کا وفد(محمود مدنی,عثمان منصور پوری ودیگرارکان جمعیت پر مشتمل قافلہ)بھی حاضر آستانہ اقدس ہوا۔یہ لوگ وہاں کے پیر زادگان سے روابط بھی بنا لئے۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے عہد سے ہی مسلمانان اہل سنت وجماعت”حسام الحرمین” سے اتفاق وتصدیق کو معیار سنیت قرار دیتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ امام اہل سنت علیہ الرحمۃ والرضوان (1272-1340)کی وفات کے چار سال بعد ہی 1344/1346ھ میں حضرت شیر بیشہ اہل سنت علیہ الرحمۃ والرضوان نے بر صغیر کے دو سو اڑسٹھ اکابر علمائے کرام ومشائخ عظام سے”حسام الحرمین”کی تصدیقات حاصل فرمائیں۔ان تصدیقات کا مجموعہ”الصوارم الہندیہ”کے نام سے مطبوع اور مشہور ومعروف ہے۔
اب بعض خانقاہوں سے”حسام الحرمین”پر بھی قیل وقال کی آواز آنے لگی ہے اور نیم رافضیت بھی دبے پاؤں داخل ہوتی جا رہی ہے۔ان خانقاہوں سے عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ وابستہ رہتا ہے۔ان وابستگان پر شیخ خانقاہ کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ایک پیر کی اصلاح درحقیقت ایک بڑی جماعت کی اصلاح ہے۔
علمائے کرام اپنے قرب وجوار کی خانقاہوں سے روابط مضبوط کریں۔وہاں کچھ عملی مفاسد بھی ہو سکتے ہیں۔رفتہ رفتہ ان کی اصلاح کی جائے۔ہمارے قدم رکھتے ہی برائیاں دور نہیں ہو سکتی ہیں۔یہ بھی لحاظ رہے کہ دفع مفاسد کے لئے انداز بیان مصلحانہ ہو۔مناظرانہ طرز تکلم سے معاملہ حل ہونا مشکل ہے۔خانقاہوں سے روابط سے قبل اپنے آس پاس کے علمائے کرام سے رائے لے لیں,تاکہ یہ حضرات بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں۔
مارچ 2012 میں طاہر القادری کے ورود بھارت کے موقع پر بھارت کے تمام طبقات نے طاہر القادری کا شرعی حکم بیان فرمایا۔سبھوں نے دفع بدمذہبیت میں اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کیا۔اسی طرح حسب موقع برصغیر کے تمام اکابر سنی علما ومشائخ(امام اہل سنت قدس سرہ کے متبعین)نے طاہر القادری کے نظریات باطلہ کی تردید کی۔صلح کلیت کو روکنے کے لئے تحریری وتقریری کوششیں کیں۔ہم ان تمام کے بے حد شکر گزار ہیں:جزاہم اللہ تعالی خیر الجزاء:آمین
موجودہ حالات کے تناظر میں اندازہ یہی ہے کہ مستقبل قریب میں بھی یہی دو فتنے قوت پکڑیں گے۔مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کی تکفیر کے انکار کے سبب منکر پر کفر وارتداد کا حکم عائد ہو گا۔نیم رافضیت کے سبب بدعت کا حکم عائد ہو گا۔ہمیں اعتقادی فتنوں کو دور کرنے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔