فروغ سنیت اوراصلاح امت کی ایک تدبیر
از قلم:طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
ہر انسان کو فطری طورپر اپنے بال بچوں سے محبت ہوتی ہے,خواہ اس کا بچہ عیب دار ہی کیوں نہ ہو,مثلا گونگا بہرا ہو,یا بدمعاش اور آوارہ ہو۔
کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی کا بچہ آوارہ ہے تو اس نے اپنی دولت اور جائیداد کا وارث اپنے کسی پڑوسی کے بچے کو بنا دیا,کیوں کہ وہ بچہ شریف تھا؟
کیا کبھی آپ نے سنا کہ کسی کا بچہ بے نمازی تھا تو اس نے اپنی دولت اپنے بھائی کے بچے کو دے دی,کیوں کہ وہ نمازی تھا؟
دنیا میں ایسا رواج نہیں۔ہر شخص اپنی وراثت اپنی آل واولاد کو دیتا ہے,خواہ اس کے بال بچے متقی ہوں,یا فاسق۔شریف ہوں یا بدمعاش۔اسلامی تعلیم بھی اسی طرح ہے۔
اسی طرح ہر مرید کو اپنے پیر وشیخ سے محبت ہوتی ہے,خواہ اس کا پیر کیسا بھی ہو۔وہ اپنے شیخ کو ہی اپنے حق میں اچھا سمجھتا ہے۔اسلامی تعلیم بھی اسی طرح ہے۔
چوں کہ عہد حاضر میں عوام وخواص کی اکثریت کسی نہ کسی پیر سے مرید ہے۔عوام وخواص سب پر ان کے مشائخ کا کنٹرول ہے۔ایسی صورت میں عوام کو راہ راست پر لانے کے لئے ان کے پیروں کی اصلاح کرنی ہو گی۔
پیر اگر عالم دین بھی ہیں تو ان کی دل جوئی کی جائے۔ان سے روابط وتعلقات مضبوط کئے جائیں۔تنہائیوں میں ان سے بات چیت کی جائے۔ان شاء اللہ تعالی رفتہ رفتہ وہ اصلاح وخود احتسابی کی جانب مائل ہو جائیں گے۔
اگر وہ پیر عالم نہیں تو ان کے سلسلہ طریقت کے علما سے رابطہ کیا جائے اور انہیں علما کے ذریعہ بالواسطہ اپنی بات پیش کی جائے۔
یہ خدمت کون انجام دیں؟
ہر علاقے میں باشعور علمائے اہل سنت موجود ہیں۔اپنے اپنے علاقے کی نگہداشت ان کی ذمہ داری ہے۔وہ اپنی صواب دید کے مطابق کام کرتے رہیں۔کسی بھی قابل اصلاح امر کو ہائی لائٹ نہ کیا جائے۔شور مچانے سے وہ لوگ بھی توبہ ورجوع کی طرف مائل نہیں ہوتے جو فطری طور پر نرم مزاج اور مائل الی الحق ہوتے ہیں۔
شور وغوغا کرنے سے فطری طور پر لوگ مناظرہ ومجادلہ اور ضد پر اتر آتے ہیں,پھر ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے۔اس طرح قابل حل مسائل بھی لا ینحل بن جاتے ہیں۔تبلیغ دین کے کچھ اصول وضوابط ہیں۔ان کا لحاظ کیا جائے۔
از قلم:طارق انور مصباحی
جاری کردہ:09:جون 2021