امام احمد رضا اور عقائد اسلامیہ کی تشریحات
ازقلم:طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
سوال:اعتقادی مسائل کی تشریح وتوضیح وہابیوں اور دیوبندیوں نے بھی کیں۔قادیانیوں اور مودودیوں نے بھی کیں۔یہ سب لوگ پہلے سنی اور حنفی ہی تھے۔بعد میں کچھ لوگ غیر مقلد ہو گئے اور کچھ لوگ حنفی مذہب پر ہی قائم رہے۔اب عوام الناس کو کیسے معلوم ہو گا کہ ان لوگوں میں سے کس کی بات صحیح ہے اور کس کی بات غلط ہے؟ہر فرقہ کے لوگ قرآن وحدیث اور اقوال ائمہ کرام ہی سے پیش کرتے ہیں۔یہ کیسے تسلیم کیا جائے کہ امام احمد رضا کی تشریحات وتوضیحات درست ہیں اور دوسروں کی غلط ہیں؟
جواب:اعتقادی مسائل کے دو اہم حصے ہیں:ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت۔ان کے دلائل قطعی ہوتے ہیں۔ان امور میں اہل علم کو اختلاف کی راہ نہیں,لیکن بعض لوگ سوئے فہم کے سبب غلط راہ کو اختیار کرلیتے ہیں۔
احادیث مقدسہ میں عوام الناس کے لئے بہت سی روشن علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ہم نے پانچ اہم علامتوں کا تفصیلی تذکرہ اپنی کتاب”السواد الاعظم”میں کیا ہے۔
ایک علامت یہ ہے کہ اہل اسلام کا جو طبقہ فرقہ ناجیہ ہو گا,وہ عہد رسالت سے قرب قیامت(آخری مدت اسلام)تک بلا انقطاع ہر عہد میں موجود رہے گا۔
بہت سے فرقے ماضی قریب میں رونما ہوئے۔ان کے حق ہونے کی کوئی صورت نہیں,کیوں کہ وہ عہد رسالت میں موجود نہیں تھے,بلکہ ہزاروں سال بعد ان کا وجود ہوا۔
عہد حاضر کے اکثر فرقوں کا تعلق محمد بن عبد الوہاب نجدی کی تحریک وہابیت سے ہے۔نجدی 1115 ہجری میں پیدا ہوا تھا اور 1206ہجری میں اس کی موت ہو گئی۔
عصر حاضر کے متعدد بھارتی فرقے یعنی اہل حدیث(غیر مقلد/سلفی),دیوبندی, مودودی,قادیانی وغیرہ کا تعلق ابن عبد الوہاب نجدی سے ہے۔یہ لوگ نجدی کو اپنا قائد وپیشوا مانتے ہیں۔
اسی طرح متعدد فرقے عہد ماضی میں پیدا ہوئے۔علمائےاہل سنت نے اپنے عہد کے باطل فرقوں کے نظریات باطلہ کاایسا زبردست رد وابطال فرمایا کہ آج روئے زمین پر ماضی کے گمراہ فرقوں کا وجود نہیں۔وہ تمام باطل فرقے اور ان کے نظریات نیست ونابود ہو گئے۔
ان جماعتوں کے معدوم ہو جانے کے سبب ان فرقوں کا باطل ہونا عوام کے لئے بھی واضح ہو گیا,کیوں کہ احادیث نبویہ میں فرقہ ناجیہ اور جماعت حقہ کی یہ نشانی بیان کی گئی تھی کہ اس کا وجود عہد رسالت سے قرب قیامت تک سلسلہ وار بلا انقطاع رہے گا۔
شیعہ فرقہ عہد مرتضوی سے آج تک موجود ہے,لیکن یہ عہد رسالت سے منقطع ہے۔روافض نہ عہد رسالت میں تھے,نہ عہد صدیقی میں,نہ عہد فاروقی میں نہ عہد عثمانی میں۔حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں شیعوں کا وجود ہوا۔خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان لوگوں کو غلط قرار دیا۔اس عہد کے غالی شیعہ جو حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا کہتے تھے,انہیں آپ نے آگ میں جلا دیا تھا۔
فرقہ ناجیہ کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ حق جماعت میں ہر صدی میں مجدد کی آمد ہو گی۔باطل فرقے چوں کہ ہر صدی میں موجود ہی نہیں ہوتے ہیں تو ہرصدی میں ان جماعتوں میں کسی مجدد کا وجود کیسے ہو گا۔
جماعت حقہ کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ وہ سواد اعظم ہو گی,یعنی کلمہ خواں طبقوں میں سے سب سے بڑا طبقہ فرقہ ناجیہ ہو گا۔
اہل سنت وجماعت ہر عہد میں تعداد کے اعتبار سے سب سے بڑا طبقہ رہا ہے۔یہ چار عظیم طبقات میں منقسم ہے۔حنفی,مالکی,شافعی وحنبلی۔اہل سنت وجماعت ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
دیوبندی,قادیانی,مودودی یہ تینوں جماعتیں بھارت کی پیداوار ہیں۔ہند وپاک میں ان کی کچھ تعداد ہے۔دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ دیوبندی ومودودی جماعت میں شامل نہیں۔قادیانیوں کی کچھ تعداد بیرون ممالک میں ہے۔
سلفی جماعت سعودی عرب میں کثیر التعداد ہےاور ہند وپاک اور دنیا کے دیگر ممالک میں قلیل التعداد ہے۔بہت سے ممالک میں اس کا وجود نہیں۔
تیسری صدی ہجری سے اہل سنت وجماعت کا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید پر اجماع ہے۔سلفی جماعت,مودودی جماعت اور قادیانی جماعت تقلید کے انکار کے سبب اہل سنت سے خارج ہو گئیں۔مزید یہ کہ مذکورہ جماعتوں میں بہت سے غلط عقائد بھی پائے جاتے ہیں,جن کے سبب ضلالت وکفر کا حکم عائد ہوتا ہے۔
دیوبندی جماعت گرچہ تقلید پر عمل پیرا ہے,لیکن دیوبندی مذہب میں ایسے کفریہ عقائد ہیں جن کو اکثر دیوبندی غلط کہتے ہیں,لیکن جن لوگوں نے وہ کفریہ عقائد لکھے ہیں,ان کو مومن مانتے ہیں اور ان کےکفریہ عقائد کی تاویل کرتے ہیں۔ان دوسبب کی بنیاد پر دیوبندی جماعت پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوتا ہے۔
1-مرتدین کو مومن کہنا
2-کفر کلامی کی عبارتوں کی باطل تاویل کرنا
مذکورہ بالا دونوں امر کفر کلامی ہیں۔ان کفریات کلامیہ کے سبب دیوبندی جماعت مذہب اسلام سے خارج ہے۔
ان سب جماعتوں کے باطل ہونے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ان میں سے کوئی جماعت سواد اعظم نہیں۔یہ تمام جماعتیں ایک دو ملک میں موجود ہیں۔دیگر ممالک میں ان کا وجود نہیں,یا پھر ان کی تعداد بہت کم ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک میں ان کا وجود ہی نہیں۔دیوبندی لوگ ہند وپاک سے باہر خود کو سنی صحیح العقیدہ بتاتے ہیں۔اگر دیگر ممالک میں ان کا وجود ہوتا تو خود کو سنی بتانے کی بجائے دیوبندی بتاتے۔
دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان انڈونیشیا میں ہیں۔وہ سب سنی شافعی المسلک ہیں۔ممکن ہے کہ چند لوگ ںدمذہب بھی ہوں:واللہ تعالی اعلم
ساری دنیا کے سنی مسلمان جن عقائد کو مانتے ہیں,امام احمد رضا قادری بھی انہیں عقائد کو مانتے ہیں۔امام احمد رضا قادری نے عقائد اسلامیہ کی جو توضیح وتشریح کی ہے,ساری دنیا کے اہل سنت وجماعت بھی وہی توضیح وتشریح کرتے ہیں۔
جب امام احمد رضا قادری نے مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کی تکفیر کی تو اس فتوی کی تائید وتصدیق علمائے حرمین طیبین نے بھی کی۔اسی طرح فتاوی الحرمین کی تائید وتصدیق بھی علمائے حرمین شریفین نے کی۔
علم غیب کے موضوع پر”الدولۃ المکیہ”تحریر فرمائی تو حرمین طیبین اور ممالک عرب کے علما نے تصدیق وتائید فرمائی۔
ان تمام حقائق سے واضح ہو گیا کہ امام احمد رضا انہی عقائد پر قائم ومستحکم تھے جو عقائد سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے تھے۔جن عقائد پر قرنا بعد قرن فرقہ ناجیہ قائم ومستحکم ہے۔
سوئے اتفاق یہ بھی ایک حادثہ رونما ہوا کہ بھارت کے باطل فرقے بیرون ممالک میں پھیل کر اہل عالم کو امام احمد رضا کے بارے میں غلط باتیں بتائیں۔بہت سے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے۔
اب ہمارے علمائے کرام اور دعاۃ ومبلغین بھی عرب ممالک اور دیگر ایشیائی ممالک,افریقہ ویورپ وامریکہ تک رسائی حاصل کر چکے ہیں اور ان شاء اللہ تعالی اکیسویں صدی امام احمد رضا کی صدی ہو گی۔
برصغیر میں بھی احباب اہل سنت کام کرتے جا رہے ہیں۔ہم ہند وپاک میں تمام اہل سنت وجماعت کو امام احمد رضا قادری کی تعلیمات پرمتحد ومستحکم پاتے ہیں۔
از قلم:طارق انور مصباحی
جاری کردہ:05:جون 2021